بریانی

وہ وہاں نہیں جاتی…اگر اس تک وہ خوشبو نہ پہنچتی۔ وہ صوفے سے چھلانگ لگا کر نیچے اتری اور باورچی خانے کا رخ کرلیا۔ یقیناً یہ خوشبو وہی سے آ رہی تھی۔ باورچی خانے میں قدم رکھتے ہی کھانے کی مہک میں اضافہ ہوگیا۔ وہ قدم قدم چلتی اس بڑی دیگ کے پاس آ کھڑی ہوئی٫ جس کی خوشبو پورے گھر کو مہکا رہی تھی۔ بڑی دیگ کو کھولا تو اس میں کچھ بکھرے ہوئے چاول دکھائی دیے۔ اس نے چاولوں سے بھرا چمچہ اپنی پلیٹ میں ڈالا تو پلیٹ میں چاول مزید بکھر گئے۔ پلیٹ میں بکھرے لمبے چاولوں کا رنگ کچھ سفید تھا اور کچھ نارنجی تھا۔ اس نے بہت پیار سے اپنی پلیٹ کو تھاما اور پھر اسی صوفے پر آ بیٹھی…...گرم گرم خوبصورت چاولوں سے بھرا چمچہ اس نے اپنے منہ میں رکھا۔ بارہ مصالحوں پر مشتمل نرم اور گرم چاول اس کے منہ میں گھلتے چلے گئے۔ اس نے آہستگی سے منہ میں موجود لقمہ ختم کیا اور چاولوں سے بھرا دوسرا لقمہ منہ میں لیا۔ ہر نوالے میں٫ ہر چیز کا الگ الگ ذائقہ تھا۔ مزیدار بریانی کی آدھی پلیٹ ختم ہونے پر اس نے پانی پینا چاہا... اور سامنے موجود میز پر سے پانی سے بھرا گلاس اٹھانا چاہا... تو... مزے دار بریانی سے بھری پلیٹ زمین پر گر گئی۔ اور بکھرے چاول زمین پر بکھر گئے۔

( ہمیشہ کھانے سے پہلے پانی پینا چاہیے۔)


 

Hiba Hanif Rajput
About the Author: Hiba Hanif Rajput Read More Articles by Hiba Hanif Rajput: 12 Articles with 13153 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.