نسیم حجازی کی آپ بیتی۔ایک جائزہ

تبصرہ نگار: ذوالفقار علی بخاری، پاکستان

”نسیم حجازی اپنے آخری ایام میں ممتاز ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے توجہ دلانے پر سیاچن کے محاذ پر افواج کی جاں بازی کے پس منظر میں ایک ناول لکھ رہے تھے مگر شدید علالت کے باعث مکمل نہ کر سکے“۔
حال ہی میں تاریخ ساز کتاب ”آپ بیتیاں“ کا دوسرا حصہ منظرعام پر آیاہے جس

میں عظیم ناول نگار نسیم حجازی مرحوم کی زندگی کی روداد بھی شامل ہے، اسی میں یہ سطور پڑھ کر راقم السطور کو احساس ہوا کہ تاریخ میں نام لکھوانے کے لئے انفرادیت کے حامل کام ہی کافی نہیں ہوتے ہیں۔آپ کی ذات کی خوبیاں بھی آپ کو بھرپور طورپر اْجاگر کر سکتی ہیں۔


نسیم حجازی صاحب نے اپنے ناولوں میں ایک ایسا ماحول دکھایا ہے جوہمیں اچھا مسلمان بنانے کی جانب راغب کرتا ہے تو دوسری طرف یہ اپنی زندگی کی داستان سے بھی ہمیں متاثرکرتے ہیں، ذرا سوچیں ڈاکٹرعبدالقدیر صاحب کی خواہش کتنی حب وطنی کو ظاہر کرتی ہے اورنسیم حجازی صاحب بھی حب الوطنی میں کم نہیں تھے، یہ تذکرہ ان کی آپ بیتی میں جابجا ملتا ہے۔

آج کے کئی قلم کار کچھ لکھ کر اتنے پریشان ہوجاتے ہیں کہ اْن سے مزید
بہترین لکھا نہیں جا تا ہے تاہم نسیم حجازی صاحب نے بطورقلمکار کیسے ادبی دنیا میں آنے کے بعد ان مسائل سے نبرد آزما ہوئے ہیں وہ تو آپ ان کی داستان حیات کو پڑھ کر ہی جان سکتے ہیں، آپ درج ذیل اقتباس پڑھیں آپ کو بہت کچھ سمجھ آجائے گا۔
”وہ پریشانیاں جو اکثر مصنفین کے حصے میں آتی ہیں وہ ان کے مقدر میں بھی تھیں، لیکن دنیا کے کلاسیکی ادب کے مطالعہ نے ان میں یہ خوداعتمادی پیدا کر دی تھی کہ ”اس ناول کے ساتھ ان کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے“ لیکن شومئی قسمت کہ یہ پریشانیاں اس ناول کی تکمیل کے بعد مزید بڑھ گئیں۔ یہ نام نہاد ”ترقی پسند ادب“ کا دور تھا۔ وہ جس مشہور پبلشر کے پاس بھی ناول کا مسودہ لے کرگئے وہ ”داستان مجاہد“ کا عنوان دیکھ کر ہی تلملا اٹھتا اور کہتا ”جناب آپ کس زمانے کی بات کرتے ہیں؟ یہ ترقی پسند ادب کا دور ہے اور ہم صرف ترقی پسند ادیبوں کی ہی کتابیں شائع کرتے ہیں“۔
پبلشرز کی یہ باتیں سن کر وہ دل میں اسی قسم کی ہنسی محسوس کرتے جو کبھی گاؤں کے دکان دار کی بے ربط کہانیاں سن کر محسوس ہوتی تھی، بہرکیف وہ اپنا مسودہ اٹھاتے اور پبلشر کو یہ ضرور کہتے کہ ”جناب وہ دن زیادہ دور نہیں جب آنے والی ہر تصنیف میری پچھلی تخلیق سے کہیں زیادہ مقبولیت حاصل کرے گی اور اس دن آپ اپنی اب کی گفتگو پر ضرور ندامت محسوس کریں گے“۔


آج ہم بطورقلم کار محض لکھ کر ہی یہ سوچتے ہیں کہ ذمہ داری پوری ہوگئی ہے مگر نسیم حجازی صاحب نے قلم کے ساتھ ساتھ عملی طور پر بھی ثابت کیا ہے کہ ایک ادیب کی ذات کو کیسا ہونا چاہیے، ان کی آپ بیتی کا یہ واقعہ میرے لئے بہت دل چسپ اورحیرت انگیز ہے۔
”منظر لاہور کے چڑیا گھر کا تھا، چیتوں کے پنجرے کے سامنے ایک لڑکا بار بار اپنا ہاتھ سلاخوں کے اندر لے جا کر چیتے کے بچے کو کچھ کھلا رہا تھا، وہیں محمد شریف بھی موجود تھا کہ اچانک چیتے کے بچے نے اس لڑکے کا ہاتھ منہ میں دبا لیا، لڑکے کی چیخیں بلند ہوئیں، محمد شریف نے ایک لمحے کے لیے کچھ سوچا۔ پھر انتہائی پھرتی سے قریب کھڑے ایک شخص سے چھتری لی اور چھتری کا مضبوط لوہے کا راڈ اس زور سے چیتے کے بچے کو مارا کہ اس نے چشم زدن میں لڑکے کا ہاتھ چھوڑ دیا، جو لہولہان ہو چکا تھا، لوگوں نے خوشی سے تالیاں بجائیں، نوجوان کی بہادری کو سراہا ”۔


زندگی میں کچھ چیزیں ہاتھوں سے نکل جاتی ہیں اور بسااوقات ہم اللہ کے فیصلوں کو تسلیم یوں کرتے ہیں کہ ہماری زندگی بہت پْرمسرت ہو جاتی ہے، کسی کے جانے کا دْکھ ایک قلم کار کے لئے زیادہ اذیت ناک ہوتا ہے کہ وہ حساس طبعیت کے باعث بہت کچھ عام انسان سے زیادہ محسوس کرتا ہے۔۔
”15 برس کی عمرمیں تھے جب ماں اللہ کو پیاری ہو گئی، ماں کے چلے جانے پر انہیں یوں محسوس ہوا جیسے ”ایک روشنی چھن گئی ہو“ وقت بہت ظالم بھی ہے اور مسیحا بھی ہے، دھیرے دھیرے انہوں نے اپنے دل کو سمجھا لیا کہ ایسا ہونا ہی تھا کہ ماں کو خالق حقیقی کے پاس جانے سے کون روک سکتا تھا“۔


آج کے قلم کار لکھنا چاہتے ہیں بہت کم ایسے ہیں جو خوب مطالعہ کرنا پسند کرتے ہیں ایسے افراد کے لئے نسیم حجازی صاحب کی زندگی ایک مثال ہے، ذرا آپ بیتی کا یہ اقتباس ملاحظہ کیجئے۔
”کہانیوں سے ان کی دل چسپی کا نتیجہ تھا کہ وہ افسانے اور ناول پڑھنے کی طرف راغب ہوئے، اسی زمانے میں ان کے ایک استاد نے انہیں ”الفاروق“ پڑھنے کے لیے دی، علامہ شبلی کی بدولت ان کے دل میں اپنی شناخت بنانے کی تڑپ پیدا ہوئی، یہ دو امنگیں تھیں ایک تو ناول نگار بننے کی خواہش اور اس کے ساتھ ہی اپنا ملی تشخص اجاگر کرنے کی تڑپ، دونوں یکساں طور پر ان کی زندگی پر اثرانداز ہو رہی تھیں،اسکول کی طرح کالج کے زمانے میں بھی نصابی کتب کے بجائے افسانوی ادب میں زیادہ دل چسپی لینا اسی امر کا عکاس تھا“۔


ہر ادیب کی اپنی ایک سوچ ہوتی ہے اوروہ اسی کے لحاظ سے اپنی عملی زندگی
میں ایک مثال بنتا ہے، اسی طرح سے محمد شریف (نسیم حجازی) نے بھی بہادری اورجرات اپنی زندگی میں خوب دکھائی ہے جو کہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ قلمکار کو اپنی عملی زندگی میں کیسا ہونا چاہیے۔
”محمد شریف ابھی سندھ میں ہی تھے کہ ایک دلچسپ واقعہ ان کے ساتھ پیش آیا۔اس کشتی میں تین ملاح تھے، ان میں سے ایک ایسا بھی تھا جس کو تمیز چھو کر بھی
نہیں گزری تھی، وہ کشتی میں سوار تمام افراد سے بدسلوکی سے پیش آ رہا تھا، حالاں کہ آفت کا شکار تمام لوگ ہی منہ مانگا کرایہ دے کر جا رہے تھے، یہ جولائی کے آخری ایام تھے،حبس سے سانس لینا بھی دشوار تھا اور کشتی کے سارے سوار پریشان تھے، ایک نوجوان لڑکی ہوش و حواس سے بیگانہ ہوئی جا رہی تھی، وہ باہر کھلی فضاء میں سانس لینے اٹھی تو ملاح نے اسے جھڑکا ”اندر بیٹھو“، دوسری سواریاں ملاح کی گرج دار آواز سے سہم گئیں لیکن سروقد، مضبوط ہاتھوں پیروں والا نوجوان محمد شریف اٹھا اور لڑکی سے کہا ”بہن آرام سے تازہ ہوا میں سانس لے لو تاکہ تمہاری طبیعت سنبھل جائے اور پھر اس ملاح کو ڈانٹ پلائی کہ وہ تمیز سے بات کرے، ملاح توتکرار کرنے لگا تو ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے گال کو سرخ کر گیا، محمد شریف نے اس سے بانس چھینا اور گرج دار آواز میں کہا۔خبردار، ملاحوں میں سے کوئی بھی میرے نزدیک نہ آئے، میں اکیلا ہی کشتی پار لے جاؤں گا اور وہ کشتی کو پار لے گئے“۔


ہمارے ہاں آج کل لکھنے والے کچھ ایسا لکھ رہے ہیں کہ پڑھنا والا ہی اکثر شرمسار ہو جاتا ہے کہ یہ کیا لکھ دیا ہے، یہاں لکھنے والوں کو احسا س ہی کم ہے کہ لکھا ہوا مدتوں ہماری شناخت بنا رہے گا۔ نسیم حجازی صاحب نے جو لکھا وہ ایسا ہے کہ آج بھی اْن کے کردار اورناول زندہ وجاوید ہیں۔
نسیم حجازی کے ناولوں کے کردار عورتیں اور مرد ایک دوسرے کے لیے اس قدر پاکیزہ محبت کے جذبات رکھتے ہیں کہ جنہیں دیکھ کر فرشتے بھی رشک کریں۔ خواہ وہ ”شاہین“ کا ”بدر بن مغیرہ“ ہو یا ”قیصرو کسریٰ“ کا ”عاصم“ ”اور تلوار ٹوٹ گئی“ کا ”انور علی ہو یا ثمینہ“ ”داستان مجاہد“ کے ”نرگس اور نعیم“ ہوں یا ”محمد بن قاسم“ کے ”ابوالحسن، خالد، سلمیٰ یا ناہید“ سبھی پاکیزہ سیرت و کردار کی اعلیٰ مثالیں ہیں۔
تاریخی واقعات کو اجاگر کرنے والے نسیم حجازی 2 مارچ 1996ء کو تقریباً 82 برس کی عمر میں خود تاریخ بن گئے مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو مر کر بھی نہیں مرا کرتے۔ نسیم حجازی کا شمار ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی موت کے بعد ناول کے ذریعے متاثر ہونے والا طبقہ چھوڑا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ترقی پسند ادب سے وابستہ ناول نگار نسیم حجازی کے فن کو تنقید اور تضحیک کی نظر سے دیکھتے تھے اور ان کے لئے نسیم حجازیت جیسی تضحیک آمیز اصطلاح استعمال کرتے تھے۔
2014ء میں نسیم حجازی کو حکومت پاکستان نے شان دار خدمات پر نشان امتیاز سے نوازا تھا۔ نسیم حجازی صاحب اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔


”آپ بیتیاں“ کے مجموعے میں نسیم حجازی صاحب کی ذاتی زندگی اورادبی دنیا کے حوالے سے دیگر واقعات بھی ہیں جو کہ آپ کی زندگی میں نہ صرف حوصلے وہمت کا سبب بن سکتی ہے بلکہ آپ کو یہ بھی احساس دلوا سکتی ہے کہ حقیقی قلمکار کیسا ہوتا ہے۔ نسیم حجازی صاحب کے علاوہ دیگر مقبول و نامورادیبوں کی آپ بیتیاں بھی اسی مجموعے کا حصہ ہیں جو کہ پڑھنے کے لائق ہیں۔آپ کو ضرور اس تاریخ ساز کتاب کو اپنے کتب خانے کے لئے محفوظ کروانا چاہیے۔


آپ بیتیاں مجموعے کے مدیران میں نوشاد عادل، محبوب الہی مخمور اورمعاون مدیر راقم السطور (ذوالفقار علی بخاری) ہیں۔ہارڈ بائنڈنگ، بہترین لے آؤٹ، دیدہ زیب سرخیاں، دیدہ زیب پرنٹنگ، بہترین کاغذ اور شاندار سرورق کے ساتھ اصل قیمت 1200روپے ہے تاہم خصوصی رعایتی قیمت صرف 700 روپے مع رجسٹرڈ ڈاک خرچ ہے۔
"آپ بیتیاں " حصہ دوم 704 صفحات پر مشتمل ہے جس میں 120 صفحات پر ادیبوں اور مدیران کی نایاب تصاویر شامل ہیں۔
کتاب منگوانے کے لیے ابھی رابطہ کریں۔
الہٰی پبلی کیشنز
واٹس ایپ نمبر: 0333.2172372
95۔R. سیکٹرB۔ 15، بفرزون، نارتھ کراچی۔پاکستان
ای میل: [email protected]
۔ختم شد۔
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 394 Articles with 523085 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More