نصیب جلی

میرا نام عائلہ ہے اور میرا تعلق پانچ دریاﺅں میں سے ایک نام والے شہر سے ہے۔ میں آپ کو اپنی داستان حیات بیان کرنا چا ہ رہی ہوں کیونکہ میں اب ذہنی طور پر بہت تھک چکی ہوں اور اپنی عذاب زندگی کو خوشگوار کرنا چاہ رہی ہوں جس کے لئے مجھے آپ کی ضرورت ہے بتائیے میں کیا کروں؟ہر انسان نصیب اور قسمت کے رونے روتا ہے چاہے اسکے اپنے اعمال کیسے ہی کیوں نہ ہو الزام قسمت اور نصیب ہی کو دیا جاتاہے،میرا شمار بھی آپ انہی لوگوں میں کر سکتے ہیں کیونکہ میری زندگی میں بھی ان کا بہت اہم کردار رہا ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ میری پیدائش کیونکر ہوئی جب کہ میری کسی کو بھی ضرورت نہیں تھی۔ حالانکہ اس بات سے تو سب ہی بخوبی واقف ہیں کہ دنیا میں کوئی چیز بے کار نہیں ہے مگر پھر بھی پتا نہیں کیوں میں آج کل ایسا سوچنے پر مجبور ہوگئی ہوں شاید میری زندگی کے حالات وواقعات نے مجھے ایسا کر دیا ہے یا پھر میرے نصیب میں دکھ ودرد بھری زندگی ہی لکھی تھی ؟

بات میں وہاں سے شروع کر تی ہوں جب میں نے ہوش سنبھا لا اور اپنے اردگرد نظر دوڑائی تو معلوم ہوا کہ والدین کو اپنی اپنی مصروفیات سے فرصت نہیں ہے ۔ جو مجھ پر یا میری دوسری بہن پر توجہ دیتے ،اگر وہ یہ کام کر رہے تو تھے صرف بھائیوں پر جن سے انکو بہت لگاوٹ تھی۔ اگرچہ میرے والدین کا تعلق اچھے تعلیم یافتہ گھرانے سے تھا ،مگر پھر بھی نہ صرف میری بلکہ دوسری بہن کی پیدائش پر اتنی خوشی کا اظہار نہیں کیا گیا کہ میرے والد صاحب کو پتانہیں کیوں بیٹیوں سے نفرت سی تھی ،کبھی پیار کی نظر سے نہیں دیکھا اور ہمیشہ میں اپنے والد اور والدہ کے پیار کو ترستی رہی۔لیکن میں نے اسکے باوجود ہمیشہ اپنے تعلیمی سلسلے کو آگے بڑھانے کے سلسلے میں توجہ مرکوز رکھنے کے ساتھ ساتھ والدین کی خدمت کی بھرپور اپنی کوشش جاری رکھی، مگر اسکا پھل مجھے نہ مل سکا۔والد کی نفرت تو چلو تھی ہی اس معاملے میں والدہ بھی کچھ کم نہ ثابت ہوئیں۔ اور یہ واقعہ تو زندگی بھر کے لئے میرے لئے بطور یادگار جان نہیں چھوڑ پا رہا ہے کہ ایک بارگھریلو تقریب میں میری والدہ سے میرے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا ”میں انکی بیٹی ہوں“ تو انہوں نے صاف انکار جواب دیا کہ ” میں انکی بیٹی نہیں ہوں“۔میں دور کھڑی یہ سب دیکھ رہی تھی اور روتے روتے اپنے کمرے میں آگئی اور ساری رات روتی رہی مگر کوئی مجھے چپ کروانے نہ آیا ۔میری والدہ کی نفرت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انکے مقابلے میں میرا رنگ وروپ معمولی حیثیت رکھتا تھا جس کی بنا پر میرا ساتھ انکا رویہ ایسا ہی تھا ۔کیا کوئی ماں اپنی بیٹی کے ساتھ کر سکتی ہے، جسے اُسے نے خود اپنی کوکھ سے جنم دیا ہوبہرحال میری ماں ایسی ہی تھی۔

جب میں آٹھویں میں آئی تو تبھی انکا انتقال ہو گیا اور میرے والد نے کچھ ہی عرصہ بعد دوسری شادی رچا لی حالانکہ بیٹیوں کی عمرشادی کی ہو چکی تھی مگر ایسا کرنا ضروری تھا کہ انکو جیون ساتھی کی ضرورت تھی۔ رہی بیٹیوں کی بات تو وہ کون سی انکی لاڈلی تھیں،انکی نظر میں وہ کچھ حیثیت ہی نہیں رکھتی تھیں ۔بہرحال وقت گزرتاگیااسی دوران میری تعلیم مکمل ہو چکی تومیں نے ٹیویشن پڑھانی شروع کر دی لیکن زندگی کے عذاب پھر بھی کم نہ ہوئے۔کیو نکہ جہاں اپنے ہوں مگر اپنے ہی ایسا سلوک کریں جیسا پرائے کریں تواپنے بھی پرائے ہی لگتے ہیں۔اپنوں کے ستائے ہوئے میری بات سمجھنے کےلئے اپنی زندگی کے تجربات کو سامنے رکھیں تو بات کھل جائے گی کہ میرا کہنے کا کیا مقصد ہے۔ میری بہن نے اپنی مرضی سے میری شادی کا فیصلہ کرلیا اور وہ بھی وہاں جن کی اپنی مالی حیثیت ہم سے بھی کم تھی۔میں قدرے خوش تھی کہ اپنے گھر سے جان چھوٹ رہی ہے مگر پتا نہیں تھا کہ میری وہاں”ہاں“کتنی مہنگی پڑنے والی تھی۔والد صاحب نے بالآخر مجھے رخصت کر دیا کہ انکی اور بھی بہت ذمہ داریاں تھیں۔شادی کے بعد جب سسرال آئی تو پتا چلا کہ انسان کی قدر نہیں ہوتی ہے یہاں تو محض مال ودولت ہی سب کچھ اہمیت رکھتا ہے اور میں چونکہ خالی ہاتھ نہیں آئی تھی تو کچھ ”بھرم “ رہ گیا تھا ۔والد کا پیار تو نہ مل سکا مگر انہوں نے رخصت کر تے وقت اتنا کچھ دے دیا کہ میرے سسرال میں میری عزت ہوئی ۔ساس کے ساتھ تعلقات بھی قدرے اچھے رہے کہ میری نندیں سب شادی شدہ تھیں ۔اور فساد کرنے کے لوازمات کو میں نے اپنی طر ف سے پورا کرنے نہیں دیا مگر اسی دوران میرا شوہر میکے والوں سے مالی مدد کے لئے کہتا رہا اور میں پورا کرتی رہی ۔کیونکہ شادی کے بعد ہی پتا چل گیا تھا کہ میرے شوہر نامدار کو کام سے خاطر خواہ دلچسپی نہیں تھی ۔زندگی ادھار پر چل رہی تھی اسی دوران میرے شوہر نے دھوکا بازی کر تے ہوئے میرا پلاٹ جو والد صاحب نے میرے نام کروا یا تھا،فروخت کر وا دیا جس پر مجھے بہت غصہ آیا اور ہمارے درمیان اس معاملے پر بہت لڑائی ہوئی مگر میں گھر نہیں گئی کہ وہاں کون میرا تھا جو اس معاملے میں میرا ساتھ دیتا ۔شادی کے چند برسوں بعد کے اس واقعے کے رونما ہونے سے قبل میں تین بچوں کی ماں بن چکی تھی تو ایسے حالات میں وہاں جانا کب زیب دیتا تھا ۔وہ بھی اس صورت میں کہ میری ایک بہن پہلے ہی طلاق کا بدنما دھبا لے کر گھر آچکی تھی۔شوہر کے مالی مدد کے مطالبوں نے مجھے اپنے گھر سے بھی جان چھڑوا دی کہ اب میں تنگ آئی تھی ہاتھ پھیلا پھیلا کر کہ اپنی بھی کوئی عزت نفس تھی۔میں نے گھر چلانے کی خاطر ٹیوشن دوبارہ لینی شروع کر دی لیکن شوہر کے ناروا رویئے نے مجھے ذہنی مریض بنا کر رکھ دیا ۔بعدازاں میں نے اپنے خاوند سے اس پلاٹ کے معاملے میں کچھ کہنا چھوڑ دیا کہ مجھے تو شادی سے پہلے بھی اسکے کارناموں کی خبر تھی مگر اتنی نہ تھی کہ وہ اتنا گر جائے گا اور اپنے آشیانے کو ہی بیچ ڈالے گا۔

اپنی زندگی کے حالات وواقعات سے تنگ آکر ذہنی اذیت کو کم کرنے کےلئے میں نے وقت گزاری کا ایک منصوبہ سوچا اور موبائل فون خرید لیا۔اورگھریلوکام کاج ،بچوں کو سکول بھیجنے کے بعد جب ساس سو جاتیں تو اپنی دوستوں کے ساتھ موبائل پرچند گھنٹوں کے لئے مصروف ہو جاتی ۔اسی دوران ایک اجنبی نمبر سے کال آئی جس نے میری زندگی بدل لی ۔فرہاد سے ایک بار کیا بات ہوئی میرا دل اسکی جانب مائل ہونے لگا ۔اگرچہ میں شادی شدہ تھی مجھے ایسا کرنا زیب نہیں دیتا تھا مگر نادان دل نے مجھے کہیں کا نہ چھوڑا اور اُسی پر بہت بری طرح مرمٹا۔فرہاد نے مجھے زندگی کا نیا رخ دیا ۔اگرچہ اسے میرے بارے میں اصلیت معلوم نہ تھی مگر میں نے اپنی ذہنی اذیت کو کم کرنے اور پیاروتوجہ کی طلب کے حصول کے لئے ایک جھوٹی کہا نی گھڑدی جس پر اس نے اعتبار کر لیا۔یہ بات تو موبائل فونز استعمال کرنے والی نوجوان نسل بخوبی جانتی ہے کہ کسی کے احساسات وجذبات سے کیسا کھیلا جاتاہے۔پیار و محبت کو اس موبائل فون نے تماشہ سا بنا کر رکھ دیا ہے ہر دوسرا شخص یہی کہانی دوہرا رہا ہے اور سب اپنے اپنے کھیل میں مگن ہیں۔خیر وقت گزرنے پر مجھے احساس ہوگیا کہ میں فرہاد کے ساتھ زیادتی کر رہی ہوں مگر میں کیا کر تی ،میں نے اسے اپنے پیار میں اتنا الجھا دیاکہ مجھے اس کے بن ایک پل بھی گزارنا اچھا نہیں لگتا تھا۔فرہاد ایک ہنس مکھ شخص تھا جس نے میرے دل کی تاروں کو بجایا تھا کہ میں اپنے ہوش وحواس کھو بیٹھی تھی ۔اپنا سب کچھ اسے مان لیا تھا مگر جب اپنی زندگی میں واپسی آتی تو عجیب و غریب اپنے ساتھ رہنے والوں کے ساتھ برتاﺅ کر تی ،کبھی چکن میں ہی گم سم ہو جا تی تھی کہ اسکے خیالوں میں رہنا اچھا لگا رہا تھا۔ میں اپنی تمام تر ضرورتیں اسی سے پوری کر رہی تھی اور خوشی تھی کہ مجھے اسکا ساتھ ملا ہے جس نے مجھے زندگی کا نیا رنگ وروپ دکھا یا ہے ۔ہمارا ساتھ ایسے ہی جاری تھا کہ اسے میرے بارے میں سچ معلوم ہو گیا اور میری تمام تر باتیں خاموشی سے سن کر چپ رہا اورچند دن بعد مجھ سے رابطہ ختم کر لیا ۔اب میرے بارہا فونز کرنے کے باوجودفرہاد میری بات نہیں سنتا ہے۔وہ جس کی آواز میرے اندر سنساہٹ پیدا کر دیتی تھی، آج اسکے لئے ترس گئی ہوں۔ہر چیز سے دل اٹھ گیا ہے ۔سوچتی ہوں کہ میرا ایسا نصیب کیوں ہے نہ والدین کی محبت ملی، نہ ہی شوہر کے اچھے سلوک اور پیار کی مستحق ہو سکی اور نہ ہی اسکو پا سکی جس سے مجھے بے انتہا محبت ہوگئی تھی میرا اتنا نصیب کیوں جل سا گیا ہے کہ مجھے ہر پل اندر سے جلاتا ہے؟کیا میں اسی لئے دنیا میں آئی تھی کہ مجھے اذیت ہی سہنی پڑے؟کیا کوئی مجھے میرے سوالوں کے جواب دے گا؟
Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 394 Articles with 522633 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More