اے حضرت انسان بے سکون ہے کیوں؟

لوگ کہتے ہیں کہ کامیاب زندگی کے لیے سب کچھ پیسہ نہیں ہوتا....!پر یہ لوگ صرف کہتے ہیں اگر سمجھتے تو صورتحال یکسر مختلف ہوتی۔ لوگ نہ جانے کیا کچھ نہیں کہتے، ہر مسئلے پر ایک چھوڑ ہزار مشورے مل جاتے ہیں، پر جب موجودہ دور کے انسان کے نفسیاتی سکون کی بات کریں تو لوگوں کے بولتے لبوں پر اِک مہرِ خاموشی چھا جاتی ہے۔ انسان کیوں اتنا بے سکون اور بے آرام ہوگیا ہے؟ وہ کیا عناصر ہیں جن کی موجودگی انسانی سکون میں مانع ہے؟

آج بہت کچھ ہونے کے باوجود کیوں نفسا نفسی کا طوفان ٹھاٹھے مارتا شہر انسان کو نگل رہا ہے....؟؟ ہر شخص اپنی جگہ بیٹھا بے سکونی کا حل تلاش کرتا نظر آتا ہے ، اپنے سکون کا متلاشی ہے....!!

حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ آج کا بچہ بھی بے سکونی سے محفوظ نہیں رہا....وہ بھی اکثر کہتا ہے ، کیا ٹینشن ہے؟ کیا پرابلم ہے؟ کیا مصیبت ہے اور کیا مسئلہ ہے؟ جیسے جملے اکثر بچوں کے منہ سے نکلتے ہیں میں آپ سنتے بھی ہیں اور دیکھتے بھی ہیں کہ وہ ہنسنے کھیلنے کے بجائے چیخنے چلانے لگتے ہیں....شور مچانا چاہتے ہیں....توڑ پھوڑ سے اپنے بے سکون ہونے کا اظہار کرتے ہیں....ضد ، ہٹ دھرمی، غصہ بچوں کے اندر کے انتشار کا اظہار ہوتے ہیں۔ بچے اپنے رویوں سے ہمیں روز بتاتے ہیں کہ وہ بے آرام و بے سکون ہیں۔ میں اور آپ یہ سوچ کر اپنے کاموں میں لگ جاتے ہیں کہ ”یہاں تو سارا جہاں ہی بے سکون ہے“ انسانی رویوں میں بگاڑ، تعلقات میں عدم استحکام، خیالات میں انتشار، ذہنی دباﺅ، مختلف خواہشوں کے حصول کی حسرتیں اور ناکامیوں کا خوف آج کے انسان کو سونے نہیں دیتا........

حرص و ہوس اسے راتوں کو فکر مند رکھتی ہے وہ آج پر قناعت نہیں کرتا، کل کے لیے روٹی کا متلاشی ہوجاتا ہے۔ اپنی کل کے لیے اپنا آج برباد کرلیتا ہے، جب انسان ایک وقت کا کھا لیتا ہے تو دوسرے وقت کے لیے پریشان ہوجاتاہے....یہ جانتے ہوئے بھی کہ کل ہو نہ ہو....!

بلاوجہ کی پریشانی میں انسان مبتلا ہو کر خود کو بے آرام کرلیتا ہے اور پھر سکون ڈھونڈنا بھی چاہتا ہے....!عجیب فطرت ہے اس مٹی کے پتلے کی....

کسی چیز پر قناعت اور صبر و شکر تو اس کی سرشت میں شامل نہیں....ہمیشہ وہ اپنے پلیٹ کے بجائے دوسروں کے برتنوں میں جھانکتا ہے اور یہی اس انسان کے بے سکونی کی اصل جڑ اور وجہ ہے....ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ہم اُس سب پر خوش اور مطمئن نہیں ہوتے یا رہتے ہیں جو ہمیں حاصل ہوتا ہے جو ہماری دسترس میں ہوتا ہے؟

اگر تپتے صحرا میں آپ کو پیاس بجھانے کے لیے پانی کے چند گھونٹ مل جائیں تو کیا یہ کافی نہیں؟لیکن چاہے ہماری پیاس(ضرورت) ایک گلاس کی ہو ، ہمیں باقی سمندر کی فکر لاحق ہوجاتی ہے....یہی وہ رویہ ہے جو اس دور کے انسان کو بے سکون کرنے کا باعث ہے۔

ہمارے مسائل اتنے اَنہونے نہیں ہوتے جتنا ہم انہیں بنادیتے ہیں۔ اپنے مسائل پر قابو پانے کے لیے تدبیر کرنے کے بجائے ہماری کوشش ہوتی ہے کہ جلدی سے جادو کی چھڑی کہیں سے ہاتھ آجائے ، جس کے ایک اشار ے سے ہمارے مسائل ختم ہوجائیں اور آسانی حاصل ہوجائے۔ نفسانفسی، بے سکونی، بے چینی کے لیے ہم مارکیٹ میں موجود معالجوں سے تو بار بار رجوع کرتے ہیں، لال پیلی (مہنگی) گولیاں بھی کھا لیتے ہیں جس سے فائدہ بھی ہوجاتا ہے پر وقتی، معمولی نوعیت کا....دائمی حل نہیں مل پاتا۔ بے سکونی سے چھٹکارے کے لیے چند تجاویز پیش ہیں جن پر عمل یقینا بے سکونی کا دائمی حل دے سکتا ہے۔

٭اپنی زندگی میں بے سکونی سے چھٹکارے کے لیے جو آپ کو حاصل ہے اس پر شکر کیجیے، جتنا حاصل ہے اس پر قناعت کیجیے اور جو حاصل نہیں ہے اس پر ”صبر“ کیجیے۔ اس سے بہتر اور مؤثر اور کوئی بے سکونی کا علاج نہ تو اب تک دریافت ہوا ہے اور نہ ہی آئندہ ہونے کا امکان ہے!

٭ خوش ہونے کے لیے اپنی بڑی خواہشوں کے پورا ہونے کا انتظار مت کیجیے ورنہ آپ اپنی چھوٹی چھوٹی کامیابیوں کی خوشی کو بھی کھو دینگے۔

٭ مسائل وہ نہیں ہوتے جو نظر آرہے ہوتے ہیں بلکہ مسائل وہ ہوتے ہیں جو آپ سمجھ لیتے ہیں اس لیے کسی بھی مسئلہ کو خود پر سوار مت کیجیے بلکہ حل ڈھونڈیے اور یقین رکھیئے کوئی بھی مسئلہ ایسا نہیں جس کا حل موجود نہ ہو یا جو ناقابلِ اصلاح ہو!

٭بے سکونی کی ایک وجہ Satisfactionکا اونچا معیار بھی ہے۔ Satisfyہونے کے لیے معیار کا اونچا ہونے کے بجائے اعلیٰ ہونا چاہیے۔

٭بے سکونی کی ایک وجہ اپنے اصل سے دوری بھی ہے۔ جس طرح تمام چاند ستارے اور سورج ایک محور کے گرد گھوم رہے ہیں اور روشن اور سلامت ہیں اسی طرح جب انسان اپنے اصل محور کے گرد چلتا ہے، اللہ کی تعلیمات و احکامات کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیتا ہے تو خوش اور مطمئن ہوجاتا ہے....بے سکونی سے نجات پالیتا ہے۔

٭بے سکونی خالصتاً نفسیاتی یا ذہنی پیداوار نہیں ہے بلکہ یہ ہمارا ماحول اور معاشرہ بھی اس پر اثر انداز ہوتا ہے لیکن بے سکونی سے نجات کے لیے ماحول اور معاشرے سے مدد مانگنے کے بجائے اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرکے منفی سوچوں، رویوں، عادتوں کی بیخ کنی کیجیئے۔ مثبت سوچ جب پیدا ہونے لگتی ہے بے سکونی اپنا بوریا بستر اُٹھا کر کسی اور منفی ذہن کے حامل انسان میں جا کر اپنا بسیرا جما لیتی ہے اُس وقت تک جب تک وہ منفی ذہن بھی اپنی approachبدل نہیں لیتا....

٭چھوٹی چھوٹی نیکیاں بھی بے سکونی اور بے چینی کو دور کرتی ہیں۔

ان چند حقیر سی تجاویز کو (پڑھتے وقت ہوسکتا ہے یہ صرف کتابی اُصول لگیں) ایک بار اپنی صرف سوچ کا حصّہ بنالیجیے(سوچ اس لیے کہ انسان وہ بنتا ہے یا ہوتا ہے جو وہ سوچتا ہے) پھرد یکھیں آپ کی سوچ آپ کی زندگی کو بنادے گی، آپ کو قلبی ، روحانی، ذہنی سکون کاخزانہ مل جائے گا۔ اپنے سینوں سے کدورتوں کو ، نفرتوں کو اور حسدوں کو نکال کر کہیں فنا کردیجیے کیونکہ یہی وہ ان دیکھی بلائیں ہیں جو آپ کی صلاحیتوں کو بیکار کررہی ہیں۔ جو آپ کو بے چین رکھتی ہیں اور ہاں ان سب کی جگہ اپنے سینے میں ایک چیز کو پروان چڑھائیے وہ چیز ”مثبت سوچ“ ہے۔

تاریکی میں آپ کا سایہ آپ کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کا وجود ہی ختم ہوگیا....زندگی میں اُتار چڑھاﺅ آتے جاتے ہیں بس آپ کو ان سے خوفزدہ ہونے کے بجائے انہیں عقل سے Faceکرنا چاہیے....آپ میں سے کچھ تو اب باقاعدہ میرے آرٹیکل کو ”مخول“ سمجھنے لگے ہونگے۔وہ اس لیے کہ اگر چوٹ لگتی ہے تو رونا فطری عمل ہے اور بے اختیار سرزد ہوتا ہے اسی طرح جب زندگی میں تکلیفیں ، پریشانیاں اور مشکلیں کسی کو ڈستی ہیں تو غمگین ، فکر مند ہونا عین انسانی، فطری عمل ہے اور انسان کی زندگی کے کچھ اُتار چڑھاﺅ تو بہت بھیانک ہوتے ہیں اُن سے خوفزدہ ہونا بھی برحق ہے پھر میں کس لیے آپ سے مخول کررہی ہوں....؟

چلیں آپ بھی مخول مخول میں ہی اس سارے آرٹیکل کو غور سے پڑھ کر اطمینان کرلیں کہ کیا واقعی مخول ہوسکتا ہے کہ کسی سے جنت چھین لی جاتی ہے وہ محلوں ، چشموں کی پر آسائش زندگی سے یکدم نکال دیا جاتا ہے لیکن پھر وہ اپنے عمل سے اپنے رب کو راضی کرلیتا ہے اور اپنی کھوئی جنت دوبارہ پالیتا ہے! جی اگر باوا آدم علیہ السلام جنت کھو کر جنت پاسکتے ہیں تو آپ کیوں اپنی فانی زندگی کے معمولی نشیب و فراز کو سر نہیں کرسکتے....؟ آپ کیوں اپنی بے سکونیوں کا علاج نہیں کرسکتے....؟ خوف فطری عمل ہے حد سے بڑھ جائے تو نفسیاتی بیماری کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور مجھے بے حد افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ آج کا انسان ہر گھڑی خوف میں جی رہا ہے اس کے ہر عمل کے پیچھے کوئی نہ کوئی معاشی ، معاشرتی ، مذہبی خوف کارفرمان ہے۔ یہی وہ خوف ہے جو اس دور کے انسانوں کا سکون غارت کررہا ہے۔ اب تو ملک کی حالت بھی ایسی ہوچکی ہے کہ خوفوں کو خوب پھلنے پھولنے کا موقع مل گیا ہے....! لیکن اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ آپ زندگی کے خوفوں سے ڈر جائیں، ہمت ہار کر بیٹھ جائیں، اپنے ساتھ دوسروں کو بھی بے سکون کردیں۔ سکون زندگی کا حسن ہے اور میں چاہتی ہوں کہ آپ اپنی زندگی میں منفی سوچوں کو تبدیل کرکے مثبت کو اپنا کر اس حسن سے لطف اُٹھائیں۔
Sumaira Malik
About the Author: Sumaira Malik Read More Articles by Sumaira Malik: 24 Articles with 28553 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.