کے پی ہاکی لیگ ' صوبائی حکومت کا ہاکی کے احیاء کیلئے بڑا قدم

سیکرٹری پی ایچ ایف آصف باجوہ نے صوبائی حکومت کی کاوشوںکو سراہا اور کہا کہ یہ اقدام فیڈریشن کو اٹھانا چاہئیے تھا لیکن صوبائی حکومت نے یہ اقدام اٹھا کر یہ ثابت کردیا کہ وہ حقیقی معنوں میں ہاکی کا احیاء چاہتے ہیں انہوں نے صوبائی حکومت کو اس اقدام پر خراج تحسین پیش کیا.

لیگ کی فاتح پشاور فالکن کی ٹیم کے کپتان مہمان خصوصی کامران بنگش سے انعام وصول کررہے ہیں

خیبر پختونخواہ حکومت کی جانب سے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ پر ہونیوالا پہلا ہاکی لیگ اختتام پذیر ہوگیا 'چار اکتوبر سے پندرہ اکتوبر تک جاری رہنے والے اس لیگ میں صوبے کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والی ریجنل آٹھ ٹیموں نے حصہ لیا جبکہ ان میں بتیس کے قریب قومی ہاکی ٹیم کے کھلاڑی بھی شریک ہوئے ان ٹیموں کی باقاعدہ نیلامی ہوئی اور دس لاکھ پچاس ہزار روپے پر سب سے بڑی نیلامی ہوئی جبکہ ایک کھلاڑی جو کہ گول کیپر تھے کی نیلامی چار لاکھ میں ہوئی .آٹھ مختلف ہاکی ٹیموں کے مختلف فرنچائز بنی اور ان کے مالکان نے اپنی ٹیموں کی ذمہ داری لی . یہ پورا عمل کم و بیش ایک مہینے جاری رہا وزیراعلی خیبر پختونخواہ محمود خان جو خود بھی ہاکی کے کھلاڑی رہے نے اس لیگ کی باقاعدہ رونمائی کی تقریب وزیراعلی ہائوس پشاور میں کروائی تھی جس میں وزیراعلی خیبر پختونخواہ محمود خان ' معاون وزیراعلی کامران بنگش سمیت سیکرٹری سپورٹس عابد مجید ' ڈائریکٹر جنرل سپورٹس اسفندیار خان خٹک پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سیکرٹر ی آصف باجوہ سمیت چیئرمین خیبر پختونخواہ ہاکی ایسوسی ایشن سابق آئی جی پویس سعید خان ' پاکستان ہاکی فیڈریشن کے ایسوسی ایٹ سیکرٹری سید ظاہر شاہ کھیلوں سے وابستہ صحافیوں اور کھلاڑیوں نے بڑی تعدا د میں ٹرافی کی رونمائی کی تقریب میں شرکت کی اس موقع پر سیکرٹری پی ایچ ایف آصف باجوہ نے صوبائی حکومت کی کاوشوںکو سراہا اور کہا کہ یہ اقدام فیڈریشن کو اٹھانا چاہئیے تھا لیکن صوبائی حکومت نے یہ اقدام اٹھا کر یہ ثابت کردیا کہ وہ حقیقی معنوں میں ہاکی کا احیاء چاہتے ہیں انہوں نے صوبائی حکومت کو اس اقدام پر خراج تحسین پیش کیا.
صوبائی سپورٹس ڈائریکٹر کے زیر انتظام اس لیگ کوخیبر پختونخواہ ہاکی ایسوسی ایشن نے آرگنائز کیا اور تمام میچز کا شیڈول بھی جاری کیا گیا چونکہ اس لیگ کے بیشتر میچز ان گرائونڈز پر ہونے تھے جہاں پر صوبائی حکومت نے آسٹرو ٹرف لگائے تھے اس لئے سب سے پہلا میچ تاریخی اسلامیہ کالج جو کہ اب یونیورسٹی بن چکی ہے کے گرائونڈ پر کھیلا گیا اس گرائونڈ پر کھیلے گئے میچ سے ایک ہفتہ قبل وزیراعلی خیبر پختونخواہ نے آسٹرو ٹرف کا افتتاح کیا تھا .وزیراعلی نے چارسدہ میں بننے والے آسٹرو ٹرف کا بھی افتتاح کیاہاکی لیگ کے افتتاحی میچ کے دوران پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ اسلامیہ کالج جیسے تاریخی درسگاہ میں بننے والے آسٹرو ٹرف پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ وہاں پر پانی کی کمی بہت محسوس کی گئی آسٹرو ٹرف کی بہتری کیلئے پانی بہت زیادہ ضروری ہے اور اس آسٹرو ٹرف کے قریب نہ تو تماشائیوں کے بیٹھنے کیلئے جگہ بنائی گئی ہے اور نہ ہی پانی کا کوئی باقاعدہ انتظام تھا اس لئے بالٹیوں میں پانی لاکرٹرف پر ڈالا گیا تاکہ کوئی کھلاڑی گر کر زخمی نہ ہو جائے. اسی طرح ٹرف کے معیار کو بھی بہتر کرنے کی ضرورت ہے.
صوبے کے پہلے ہاکی لیگ کے شیڈول کا اعلان تو کیا گیا تھا اور آغاز میں قومی براڈکاسٹ ادارے پی ٹی وی سے ان کی کوریج کیلئے رابطہ ہوا تھا اور انہوں نے اس پر آمادگی بھی ظاہر کی تھی تاہم بعد میں کرکٹ کے معاملات آنے کے بعد انہوں نے اس کی ٹیلی کاسٹ کرنے سے معذرت کرلی اور یوں ایک نجی ٹی وی چینل کیساتھ اس کا معاہدہ کیا گیا . شیڈول کے مطابق ان جگہوں پر میچز ہونے تھے جہاں پر آسٹرو ٹرف لگایا تھا اور اس سلسلے میں بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی میچز رکھے گئے تھے تاہم کھلاڑیوں کی جانب سے رہائشی انتظامات سمیت انتظامی امور کے حوالے سے مسائل سامنے آئے جس کا مشاہدہ بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی ہوا '
ہاکی کے کھیل کے بنیادی قوانین کے مطابق ان جگہوں پر جہاں پر کھلاڑی میچز کھیلنے کیلئے جاتے ہوں وہاں پر ایک دن آرام اور دوسرے دن پریکٹس اور میچز ہوتے ہیں تاہم شیڈول ٹائٹ تھا جس کی بڑی وجہ قومی کھلاڑیوں کیلئے لگنے والا ایک مہینے کا کیمپ تھا جس میں وہ شامل ہو کر بھارت میں کھیلے جانیوالے جونیئر ورلڈ کپ میں حصہ لے رہے تھے اس لئے روزانہ چار میچز کروائے گئے جس میں کھلاڑیوں کو آرام کرنے کا موقع ہی نہیں ملا اور وہ لگاتار میچز کھیلتے رہے جس کی وجہ سے نہ صرف سپورٹس ڈائریکٹریٹ ' ہاکی ایسوسی ایشن بلکہ کھلاڑی بھی ٹائٹ شیڈول کی وجہ سے تھکان کا شکار نظر آئے لیکن یہ بھی ایک مجبوری تھی اسی طرح شیڈول کے مطابق مقابلے آسٹرو ٹرف پر ہونے تھے تاہم بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان میں انتظامات اور آسٹرو ٹرف کی وجہ سے کھلاڑیوںکو بلکہ آرگنائزر کو بھی مشکلات پیش آئی . جس میں بنیادی چیز آسٹرو ٹرف پر پانی کی کمی سمیت دیگر مسائل تھے جس کی نشاندہی کی گئی تھی اسی باعث پھر تمام میچز چارسدہ اور پشاور میں کروائے گئے.
بنوں کے قاضی محب مرحوم کے نام سے منسوب ہاکی سٹیڈیم میں کثیر تعداد میں لوگ ہاکی کو دیکھنے کیلئے آئے تھے اور کم و بیش اٹھارہ سال بعدبنوںمیں کسی بھی دوسرے شہر کی ٹیم وہاں پہنچی تھی بنوں جسے ہاکی کی نرسری بھی کہا جاتا ہے اور یہاں سے بہت سے نامور کھلاڑی قومی ہاکی ٹیم کا حصہ بن چکے تھے کی سرزمین پر بنوں ہی سے تعلق رکھنے والے قومی ٹیم کے کھلاڑی محسن بھی کھیلے جو ملاکنڈ کی ٹیم کا حصہ تھے اور وہاںپر موجود لوگوں نے دل کھول کر اپنے شہر کے کھلاڑی کو خراج تحسین پیش کیا.چارسدہ میں کھیلے گئے میچ انتظامی حوالے سے بہترین رہے دوسرے پشاور سے نزدیک ہونے کی وجہ سے کھلاڑی بھی زیادہ پریشان نہیں ہوئے اوریہاں پر کھیلے گئے میچز کو نہ صرف مقامی افراد نے انجوائے کیا بلکہ نجی ٹی وی چینل نے بھی اس کو براہ راست کوریج دیکر قومی سطح پر خیبر پختونخواہ حکومت کی ہاکی کے کھیل کے فروغ کیلئے کئے جانیوالے کاوش کو دکھا دیا .
ہاکی لیگ کے میچز میں فرنچائز کے مالکان اپنی ٹیموں کے ہمراہ آتے رہے ' بنوں کی ٹیم کے مالک ٹیم کیساتھ ہر جگہ پر پرجوش نظر آئے ' ساتھ میں ان کے کوچ بھی جارحانہ انداز میں اپنے کھلاڑیوں کو گرائونڈ سے باہر بیٹھ کر بتاتے رہے ' اور ان دونوں کا پرجوش انداز دیکھنے کے قابل تھا ' ملاکنڈ فرنچائز کے اونر اپنے ساتھی کے ہمراہ کھیل کے دوران سگریٹ پی پی کر اپنے تنائو کم کرتے دکھائی دئیے اور وہ اپنے آپ کو پرسکون کرنے کیلئے کبھی کرسی پر بیٹھ کر اور کھڑے ہو کر کھلاڑیوں کو آوازیں دیتے رہے تاہم ریجنل سپورٹس آفیسر سوات اور ان کے کوچ نے اپنے کھلاڑیوں کو بھرپور سپورٹ کیا ' کوہاٹ کی ٹیم جو کہ او جی ڈی سی ایل کی ٹیم تھی ان کے کوچ اور انہیں سپورٹ کرنے والے ان کے اپنے ہی کھلاڑی تھے اس فرنچائز کے افراد بہت کم ہی گرائونڈ میں نظر آئے.ٹرائبل کی ٹیم کے مینجر تو اتنے زیادہ ایکٹیو تھے کہ پابندی کے باوجود وہ گرائونڈ میں داخل ہونے کی کوشش کرتے رہے جن کی قوانین کی لاعلمی کے باعث ان کی ٹیم کو زیادہ نقصان پہنچا. اور وہ آخری وقت میں لیگ سے آئوٹ ہوگئی .
لیگ کی ابتداء سے ہی فیورٹ قرار دینے والی ٹیموں میں پشاور ' بنوں' ٹرائبل 'سمیت ہزارہ کی ٹیم تھی ' ملاکنڈ کی ٹیم کو بہت زیادہ سپورٹ ملا اور ان کے گو ل کیپر سب سے زیادہ بولی میں ٹیم کو ہاتھ آئے لیکن وہ اس لیگ میں سب سے زیادہ گول کھانے والے گول کیپر بنے رہے.لیگ کے دوران ٹیمیں اپ اینڈ ڈائون کا شکار رہی ' اس کی وجہ شائد یہی تھی کہ کھلاڑیوں کو سینئر کھلاڑیوں کیساتھ کھیلنے کا زیادہ موقع نہیں ملا تھا اور دوسرے ایسے علاقوں سے بھی ٹیمیں آئی تھی جنہوں نے غلطی سے کبھی آسٹرو ٹرف پر کھیلا نہیں تھا اور یہ ان کی پہلی گیم تھی اس لئے بعض میچز میں اچھے کھلاڑی زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرسکے.
لیگ کے میچ کے دوران ایمپائر کے فیصلوں پر بھی اعتراض ہوتا رہا لیکن یہ اعتراض بھی مالکان کی جانب سے مخصوص لوگوں نے اٹھایا جن کے مفادات کو نقصان پہنچا تھا.لیگ میں بین الاقوامی امپائر بھی تھے جن پر بھی اعتراض کیا گیا حالانکہ اگر اعتراض لوکل پر ہوتا تو پھر بھی کوئی بھی ہوتی لیکن ان اعتراضات کی وجہ سے بعض اوقات نئے کھلاڑیوں نے امپائر کیساتھ بحث و مباحثہ کیا.دوسرے احتجا ج کیلئے ایک مخصوص رقم جمع کرنی پڑتی ہے جس کی مالیت کا سن کر بہت سارے مالکان بھی پیچھے ہٹ گئے ' ملاکنڈ ٹائیگر کی ٹیم کے اونر نے ایک مرحلہ پر اعتراض کیا اور فیس جمع کروائی لیکن ملاکنڈ کی ٹیم کے مطابق ان کے کھلاڑی کو بھی آئوٹ کیا گیا حالانکہ ان کا اعتراض جینوئن تھا.لیکن انہیں ریلیف نہیں ملا.امپائرنگ کرنا ایک تکنیکی عمل ہے جس میں انسان سے غلطیاں بھی ہوسکتی ہیں اورکچھ غلطیاں بھی ہوئی جس کی نشاندہی کی گئی . لیکن بعض جگہوں پر ایسے اعتراض اٹھائے گئے جن کی کوئی حقیقت نہیں تھی اور اس بارے میں قوانین الگ تھے انہی قوانین کی لاعلمی کے باعث غلط انداز میں چیزوں کو پیش کیا گیا .
فیڈریشن آف انٹرنیشنل ہاکی کے قوانین کے مطابق سنگل لیگ کے مقابلو ں میں سیمی فائنل نہیں ہوئے اور اس میں کلاسیفیکیشن کے میچز ہوتے ہیں اور ان قوانین کی پابندی پاکستان ہاکی فیڈریشن کی بھی ذمہ داری ہے لیکن وزیراعلی خیبر پختونخواہ کی سیمی فائنل کی خواہش کے پیش نظرآرگنائزنگ کمیٹی نے چیئرمین آرگنائزنگ کمیٹی ڈائریکٹر جنرل سپورٹس خیبر پختونخواہ سے باقاعدہ منظوری لیکر سیمی فائنل منعقد کروائے جس کی خواہش بیشتر مالکان کی بھی تھی . اور یوں اس سنگل لیگ میں سیمی فائنل بھی ترتیب دے دئیے گئے
صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کا یہ پہلا لیگ تھا جس کی کوریج نہ صر ف قومی نشریاتی ادارے پی ٹی وی سمیت نجی ٹی وی چینلز نے بہترین انداز میں کی بلکہ صوبے کے بیشتر اخبارات نے صوبائی حکومت کی جانب سے شروع کئے جانیوالے اس لیگ کو اخبارات میں نمایاں کوریج دی اسی طرح سوشل میڈیا پر وائرل ہونیوالی ویڈیوز کی تعداد بھی کسی بھی مقابلوں کی کوریج سے سب سے زیاد رہی یوں یہ لیگ سوشل میڈیا ' پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر چھایا رہا.
فائنل کی تقریب میں معاون وزیراعلی کامران بنگش سمیت سیکرٹری سپورٹس ' ڈائریکٹر جنرل سپورٹس سمیت کھیلوں سے وابستہ تمام افراد نے شرکت کی جنہوں نے فائنل میچ دیکھااور اختتامی تقریب میں نمایاں پوزیشن ہولڈر کھلاڑیوں میں انعامات بھی تقسیم کئے ' اس موقع پر بعض صحافیوں کی جانب سے آرگنائزنگ کمیٹی پرسوالات بھی اٹھائے گئے جس پر کامران بنگش نے خوبصورت انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس بات کی تحقیقات بھی کرینگے لیکن ساتھ میں انہوں نے یہ بھی کہاکہ کھیل کو کھیل ہی رہنے دیں کیونکہ کھیل صبر استقامت کا سبق دیتے ہیں
بہر حال خیبر پختونخواہ ہاکی لیگ جو خیبرپختونخواہ حکومت کا ہاکی کے احیاء کیلئے بڑا قدم تھا کی کاوش اچھی رہی لیگ کے ان مقابلوں میں نہ صر ف مقامی کھلاڑیوں کو سیکھنے کا موقع ملا بلکہ انہیں آسٹرو ٹرف پر بھی کھیلنے کا موقع ملا ' انتظامی امور کی غلطیاں سامنے آئی ' آرگنائزنگ کمیٹی اور امپائرنگ کے حوالے سے اعتراضات اٹھائے گئے لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود صوبائی حکومت ' سپورٹس ڈائریکٹریٹ اورآرگنائزر بشمول سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے تمام اہلکار اس پر مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے لیگ کو کامیاب کرانے کیلئے اپنی کاوشیں کیں.انہی غلطیوں سے انسان اور ادارے بہت کچھ سیکھتے ہیں اور امید ہے کہ اگلے سال انشاء اللہ کے پی ہی لیگ ایک نئے جوش اور عزم کیساتھ ہوگا جس کا سب سے زیادہ فائدہ اس صوبے کے کھلاڑیوں کو پہنچے گا ..

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 497586 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More