خیبرپختونخوا میں ڈیپوٹیشن، اثر و رسوخ اور اسپورٹس گورننس کا زوال
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
خیبر پختونخوا کے محکمہ کھیل و امورِ نوجوانان میں حالیہ تبادلوں اور تقرریوں نے ایک بار پھر یہ بنیادی سوال کھڑا کر دیا ہے کہ کیا ہم واقعی کھیلوں کی بہتری کی طرف بڑھ رہے ہیں یا پھر انتظامی فیصلے ذاتی پسند، ناپسند اور اثر و رسوخ کی نذر ہو رہے ہیں۔ سوال سادہ ہے مگر اس کے اثرات دور رس ہیں: آخر ڈیپوٹیشن پر افسران لانے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے، اور اگر یہ ضرورت واقعی موجود ہو تو براہِ راست ضلع جیسے اہم ترین انتظامی عہدے پر تعیناتی کس اصول اور کس پالیسی کے تحت کی جاتی ہے؟
اصولی طور پر ڈیپوٹیشن کا تصور اسی وقت قابلِ قبول ہوتا ہے جب کسی مخصوص شعبے میں مہارت درکار ہو اور وہ مہارت متعلقہ محکمے میں دستیاب نہ ہو۔ ڈیپوٹیشن پر آنے والا افسر اپنے تجربے اور فنی صلاحیتوں کے ذریعے محکمے کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ لیکن جب ڈیپوٹیشن معمول بن جائے، اور وہ بھی ایسے عہدوں پر جہاں براہِ راست کھیلوں کی منصوبہ بندی، ضلعی سطح پر سرگرمیوں کے فروغ اور نوجوان کھلاڑیوں کے مستقبل کا تعلق ہو، تو پھر اس عمل پر سوال اٹھانا ناگزیر ہو جاتا ہے۔
یہاں یہ پوچھنا ضروری ہے کہ ڈیپوٹیشن پر آنے والے افسران کی کھیلوں کے شعبے میں مہارت کو پرکھنے کا معیار کیا ہے؟ کیا ان کے پاس اس بات کا عملی تجربہ موجود ہے کہ ضلعی سطح پر کھیلوں کے مقابلے کیسے منظم کیے جاتے ہیں، کھیلوں کے میدانوں اور سہولیات کے مسائل کیا ہوتے ہیں، اور کھلاڑیوں و کوچز کی ضروریات کس نوعیت کی ہیں؟ یا پھر ڈیپوٹیشن محض ایک انتظامی راستہ بن چکا ہے جس کے ذریعے مخصوص افراد کو حساس اور بااختیار عہدوں تک پہنچایا جاتا ہے؟
حال ہی میں سامنے آنے والے تبادلوں میں ایک اور تشویشناک پہلو یہ ہے کہ بعض مقامات پر گریڈ سترہ کے افسران کو ثانوی نوعیت کی ذمہ داریوں تک محدود کر دیا گیا، جبکہ گریڈ سولہ کے اہلکاروں کو گریڈ سترہ کے انتظامی عہدوں پر لا بٹھایا گیا۔ یہ سوال نہایت سنجیدہ ہے کہ آیا محکمہ کھیل کے پاس اس حوالے سے کوئی واضح قانون، رولز یا پالیسی موجود ہے یا نہیں۔ اگر ایسے قواعد موجود ہیں تو انہیں عوام کے سامنے کیوں نہیں رکھا جاتا؟ اور اگر موجود نہیں، تو پھر یہ فیصلے کس اختیار کے تحت کیے جا رہے ہیں؟
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر واقعی اتنے ہی قابل اور اہل افسران دستیاب ہیں تو وہ اپنے اصل محکموں میں کیوں خدمات انجام نہیں دے رہے؟ آخر کھیلوں کے محکمے کو ہی تجربات کی تجربہ گاہ کیوں بنایا گیا ہے؟ کیا صوبے کے دیگر محکمے اس بوجھ سے مستثنیٰ ہیں، یا پھر کھیلوں کو جان بوجھ کر کم ترجیح دی جا رہی ہے؟تبادلوں کی فہرست پر غور کیا جائے تو ایک مخصوص رجحان واضح طور پر سامنے آتا ہے۔ اکثر تعیناتیاں چند مخصوص شہروں اور علاقوں کے گرد گھومتی دکھائی دیتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا خیبر پختونخوا میں دیگر اضلاع موجود نہیں؟ کیا دور افتادہ، قبائلی یا پسماندہ اضلاع کے نوجوان کھیلوں کی ترقی کے حق دار نہیں؟ کیا وہاں کھیلوں کا ٹیلنٹ نہیں پایا جاتا، یا پھر ان اضلاع کو صرف کاغذی حد تک صوبے کا حصہ سمجھا جاتا ہے؟
یہ طرزِ عمل اس تاثر کو مضبوط کرتا ہے کہ صوبے کے اسپورٹس ڈائریکٹوریٹ کو ایک منظم پالیسی کے تحت کمزور کیا جا رہا ہے۔ وہ افسران جو پبلک سروس کمیشن کے ذریعے میرٹ پر منتخب ہو کر آتے ہیں، جنہوں نے امتحانات اور مراحل طے کر کے اپنی جگہ بنائی، انہیں یا تو غیر مو¿ثر عہدوں پر بٹھا دیا جاتا ہے یا پھر جلد ہی تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس، مضبوط اپروچ رکھنے والے افراد کو اہم دفاتر، جمنازیموں اور ضلعی عہدوں تک رسائی مل جاتی ہے۔ایک اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ صوبے کے مرکزی شہروں میں موجود اہم اسپورٹس اسٹیڈیمز اور سہولیات بعض اوقات ایسے افراد کے سپرد ہوتی ہیں جو مستقل انتظامی ڈھانچے کا حصہ نہیں ہوتے۔ اس حوالے سے سوالات اور خدشات سامنے آتے رہے ہیں، مگر ان پر سنجیدہ توجہ دینے کے بجائے خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کھلاڑیوں، کوچز اور کھیلوں سے وابستہ افراد میں بے چینی اور بداعتمادی بڑھتی ہے۔
محکمہ کھیل میں لیٹی گیشن یعنی قانونی معاملات کا شعبہ ایک نہایت حساس اور تکنیکی نوعیت رکھتا ہے۔ اس شعبے کے لیے نہ صرف قانونی فہم بلکہ محکمے کے اندرونی امور، جاری مقدمات اور عدالتی طریقہ? کار کا مکمل ادراک ضروری ہوتا ہے۔ اگر اس شعبے میں بغیر متعلقہ تجربے کے تعیناتیاں کی جائیں تو اس کا نقصان براہِ راست محکمے کو ہوتا ہے۔ اکثر ایسا دیکھا گیا ہے کہ نئے آنے والے افسران کو ابتدائی مہینوں میں محض یہ سمجھنے میں وقت لگ جاتا ہے کہ کیسز کس نوعیت کے ہیں اور کس مرحلے پر زیرِ سماعت ہیں، جبکہ اس دوران محکمے کے مفادات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔
یہ تمام عوامل مل کر اس تاثر کو جنم دیتے ہیں کہ کھیلوں کے محکمے کو بہتر بنانے کے بجائے اسے کمزور کیا جا رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں کھیلوں کے منصوبوں میں مالی بے ضابطگیوں اور مبینہ گھپلے کی باتیں بھی سامنے آتی رہی ہیں۔ بعض معاملات میں افسران کو وضاحت کے لیے طلب کیے جانے کی خبریں بھی گردش کرتی رہی ہیں۔ ایسے میں یہ سوال مزید اہم ہو جاتا ہے کہ آیا موجودہ انتظامی فیصلے محکمے کی شفافیت اور کارکردگی میں بہتری لا رہے ہیں یا نہیں۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اپنے ہی محکمے کے افسران اور اہلکاروں کو آگے بڑھنے کا موقع کم ہی ملتا ہے۔ جو لوگ برسوں سے کھیلوں کے شعبے میں خدمات انجام دے رہے ہیں، میدان، کھلاڑی اور نظام کو قریب سے جانتے ہیں، وہ اکثر نظر انداز ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس، باہر سے آنے والے افسران کو سیکھنے میں وقت درکار ہوتا ہے، جس کا خمیازہ براہِ راست کھیلوں کی سرگرمیوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ پالیسی سازی کے عمل میں کھیلوں کے اصل مقاصد پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ کھیل محض فائلوں، دفتری احکامات اور طاقت کے مظاہروں سے فروغ نہیں پاتے۔ اس کے لیے وڑن، برداشت، ٹیم ورک اور کھلاڑی دوست سوچ درکار ہوتی ہے۔ دفتر میں سخت لہجہ، رعونت یا طاقت کا استعمال مسائل حل نہیں کرتا بلکہ انہیں مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے۔اگر کسی کو عہدہ اور اختیار ملا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اس اختیار کا من مانا استعمال کرے۔ اچھی گورننس کی بنیاد برداشت، تحمل، شفافیت اور جواب دہی پر ہوتی ہے۔ یہی اصول کھیلوں کے محکمے پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔
ضلعی سطح پر حالیہ انتظامی فیصلوں نے بھی کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ بعض اضلاع میں دیکھا گیا کہ میرٹ کے ذریعے تعینات افسران کو مختصر عرصے میں تبدیل کر دیا گیا، جبکہ دوسرے محکموں سے ڈیپوٹیشن پر آنے والے کم گریڈ کے اہلکاروں کو ضلعی سطح کے اہم عہدوں پر تعینات کر دیا گیا۔ مزید غور طلب بات یہ ہے کہ ایسے معاملات میں اکثر سیاسی وابستگی اور اثر و رسوخ کی باتیں سامنے آتی ہیں، جو اداروں کی ساکھ کے لیے نقصان دہ ہیں۔یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ اس طرح کی تنقید کا مقصد کسی فردِ واحد کو نشانہ بنانا نہیں، بلکہ ایک انتظامی عمل اور پالیسی پر اصولی سوال اٹھانا ہے۔ کھیلوں کا شعبہ نوجوانوں کے مستقبل، صحت مند معاشرے اور مثبت سرگرمیوں سے جڑا ہوا ہے، اس لیے یہاں ہونے والے ہر فیصلے کا اثر براہِ راست عوام پر پڑتا ہے۔
نوجوان کھلاڑیوں اور کھیلوں سے وابستہ افراد سے گزارش ہے کہ وہ اپنے اپنے اضلاع میں موجود اسپورٹس دفاتر سے رابطہ رکھیں۔ کھیلوں کی سرگرمیوں، سہولیات اور حقوق کے حصول کے لیے باقاعدگی سے سوال کریں اور جائز مطالبات پیش کریں۔ عوامی نگرانی اور سماجی دباو¿ ہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے اداروں کو شفاف اور جواب دہ بنایا جا سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر، ایسے حساس محکمے باآسانی سیاسی مداخلت اور ذاتی مفادات کی نذر ہوتے رہیں گے، جس کا نقصان صرف اداروں کو نہیں بلکہ پورے معاشرے کو اٹھانا پڑے گا۔
#SportsGovernance #KPSports #MeritMatters #DeputationCulture #PublicInterest #YouthAndSports #GoodGovernance
|