کھیل، بیوروکریسی اور ناانصافی ‘کیا خیبرپختونخوا اسپورٹس ڈائریکٹوریٹ میں بھی فیلڈ کے لوگوں پر اعتماد ہوگا؟

خیبرپختونخوا میں کامرس ایجوکیشن و مینجمنٹ سائنسز کے محکمے سے حال ہی میں ایک اہم اور اصولی فیصلہ سامنے آیا۔ ڈائریکٹر جنرل، ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹرز کے سروس رولز سے متعلق اجلاس میں صوبے کی اعلیٰ تعلیمی قیادت نے واضح مو¿قف اختیار کیا کہ ڈائریکٹرز (بی پی ایس 19) کی آسامیوں پر پراونشل مینجمنٹ سروس یا کسی اور غیر متعلقہ کیڈر کے افسران تعینات نہیں کیے جائیں گے۔ وزیر برائے اعلیٰ تعلیم مینا خان افریدی نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ انتظامی عہدوں پر وہی لوگ آئیں گے جو فیلڈ سے گزر کر اوپر آئے ہوں اور جنہیں شعبے کی عملی سمجھ ہو۔

یہ فیصلہ بظاہر ایک محکمے تک محدود لگتا ہے، لیکن درحقیقت یہ پورے صوبائی نظام کے لیے ایک مثال بن سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہی اصول خیبرپختونخوا اسپورٹس ڈائریکٹوریٹ میں بھی لاگو نہیں ہو سکتا؟یہ سوال اس لیے اہم ہے کیونکہ اسپورٹس ڈائریکٹوریٹ کئی برسوں سے انتظامی تجربہ گاہ بنا ہوا ہے۔ یہاں اکثر ایسے افسران تعینات کیے جاتے ہیں جن کا کھیلوں سے کوئی عملی تعلق نہیں ہوتا۔ پی ایم ایس یا دیگر سروسز کے افسر آتے ہیں، دو یا تین سال گزارتے ہیں اور پھر اگلی پوسٹنگ لے کر چلے جاتے ہیں۔ اس دوران کھیل، کھلاڑی اور اسپورٹس سسٹم وہیں کا وہیں رہتا ہے، بلکہ اکثر پیچھے چلا جاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اسپورٹس کوئی فائل ورک نہیں، نہ ہی یہ صرف نوٹیفکیشن اور میٹنگز کا نام ہے۔ کھیل ایک مکمل کلچر ہے، ایک نظام ہے، جسے سمجھنے کے لیے میدان، کھلاڑی، کوچ، کوچنگ سسٹم، ٹیلنٹ ہنٹ، مقابلے، اور نفسیات سب کچھ جاننا پڑتا ہے۔ لیکن جب ایسے لوگ اسپورٹس ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ بن کر آتے ہیں جنہوں نے زندگی میں کبھی کسی کھلاڑی کے ساتھ وقت نہیں گزارا، تو نتیجہ وہی نکلتا ہے جو پچھلے کئی سالوں سے ہم دیکھ رہے ہیں۔

اکثر نئے آنے والے افسران کے ابتدائی چھ ماہ صرف یہ سمجھنے میں گزر جاتے ہیں کہ اسپورٹس ڈیپارٹمنٹ ہے کیا۔ فائلوں میں موجود اصطلاحات، فیڈریشنز کے نام، ایونٹس کی نوعیت، بجٹ کی مدات، سب کچھ ان کے لیے نیا ہوتا ہے۔ جب جا کر انہیں کچھ سمجھ آنا شروع ہوتی ہے، تو ٹرانسفر آرڈر آ جاتا ہے یا وہ خود اگلی پوسٹنگ کے لیے کوششیں شروع کر دیتے ہیں۔جو افسر نسبتاً سمجھدار ہوتے ہیں، وہ جاتے جاتے کچھ کام کر بھی جاتے ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ان کے بعد آنے والا افسر پھر صفر سے شروع کرتا ہے۔ یوں اسپورٹس ڈائریکٹوریٹ ایک مستقل سیکھنے کے مرحلے میں ہی پھنسا رہتا ہے، جبکہ اس کی قیمت کھلاڑی ادا کرتے ہیں۔

اس کے برعکس اسپورٹس ڈائریکٹوریٹ کے اندر ہی ایسے درجنوں لوگ موجود ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں کھیلوں میں گزار دی ہیں۔ کوچز، سابق کھلاڑی، اسپورٹس آفیسرز، اور ٹیکنیکل اسٹاف، جو نہ صرف کھیلوں کو سمجھتے ہیں بلکہ صوبے کے مسائل، وسائل اور زمینی حقائق سے بھی آگاہ ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ان لوگوں کو فیصلہ سازی کے عمل سے دور رکھا جاتا ہے۔یہاں ایک اور بنیادی مسئلہ بھی ہے۔ جو افسر کھیلوں کو نہیں سمجھتے، وہ آ کر اپنی مرضی کی پالیسی چلاتے ہیں۔ کبھی کسی فیڈریشن کو نوازا جاتا ہے، کبھی کسی ایونٹ کو غیر ضروری اہمیت دے دی جاتی ہے، اور کبھی فنڈز ایسے منصوبوں پر لگا دیے جاتے ہیں جن کا کھیل سے دور دور تک تعلق نہیں ہوتا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ صوبے کی اسپورٹس پالیسی 2018 آج بھی کاغذوں میں دبی پڑی ہے۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اسپورٹس ڈائریکٹوریٹ خود اپنی منظور شدہ پالیسی پر عمل نہیں کر رہا۔ جب پالیسی ہی نظر انداز ہو، تو پھر ایسے افسران کی تعیناتی کا کیا فائدہ جو کل یہاں ہوں گے اور پرسوں کہیں اور؟کامرس ایجوکیشن کے فیصلے نے کم از کم یہ تسلیم کیا ہے کہ فیلڈ کا تجربہ ضروری ہے۔ اگر ایک تعلیمی محکمہ یہ مان سکتا ہے کہ انتظامی عہدوں پر وہی لوگ ہونے چاہئیں جو نظام کو اندر سے جانتے ہوں، تو کھیلوں کے معاملے میں یہ بات کیوں قابل قبول نہیں؟
کھیلوں میں تو جوابدہی کی ضرورت اور بھی زیادہ ہے۔ یہاں فنڈز، ٹیلنٹ، اور نوجوانوں کا مستقبل داو¿ پر ہوتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جو افسر آتے ہیں، وہ چلے بھی جاتے ہیں، اور ان سے کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوتی۔ نہ پچھلی غلطیوں کا حساب لیا جاتا ہے، نہ ناکام پالیسیوں کی ذمہ داری طے کی جاتی ہے۔اگر اسپورٹس ڈائریکٹوریٹ میں فیلڈ سے آنے والے لوگوں کو اوپر لایا جائے، تو کم از کم ان سے سوال تو کیے جا سکتے ہیں۔ وہ نظام کا حصہ ہوتے ہیں، وہ کل بھی یہیں تھے اور آئندہ بھی یہیں ہوں گے۔ انہیں معلوم ہوگا کہ آج کا غلط فیصلہ کل ان ہی کے سامنے آئے گا۔

یہ وقت ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت کامرس ایجوکیشن کی طرح اسپورٹس کے شعبے میں بھی جرات مندانہ فیصلہ کرے۔ کھیلوں کو عبوری پوسٹنگ کا اسٹیشن نہ بنایا جائے۔ اسپورٹس ڈائریکٹوریٹ کو ان لوگوں کے حوالے کیا جائے جو کھیل کو سمجھتے ہیں، جنہوں نے میدان میں پسینہ بہایا ہے، اور جو واقعی اس نظام کو بہتر بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ورنہ ہوتا یہ رہے گا کہ افسر آتے جائیں گے، فائلیں گھومتی رہیں گی، اور کھلاڑی ہر سال یہی سوال کرتے رہیں گے کہ آخر ان کا قصور کیا ہے؟


#KP_Sports
#SportsDirectorateKP
#FieldExperience
#SportsPolicy2018
#Accountability
#YouthAndSports
#KP_Government

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 904 Articles with 719579 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More