ورکہ دھکا: اسی لاکھ کی مشین، دو سال کی نیند اور ٹرف کی تقدیر

ہمارے ہاں کھیل صرف میدان میں نہیں کھیلے جاتے، اصل کھیل دفاتر میں ہوتا ہے۔ فائلوں کے درمیان، گاڑیوں کی ڈِگیوں میں، اور کبھی کبھی دھکوں کے زور پر۔ تازہ ترین مقابلہ پشاور اسپورٹس کمپلیکس میں دیکھنے کو ملا، جہاں اسی لاکھ روپے کی ٹرف کلیننگ مشین نے آخرکار دو سال بعد آنکھ کھولی۔ مگر جاگنے کا انداز کچھ ایسا تھا کہ مشین بھی شرما گئی ہوگی۔

صاحب، مشین تھی، آپریٹر بھی تھا، بجٹ بھی تھا، کاغذوں میں سب کچھ مکمل تھا۔ بس ایک کمی تھی، مشین چل نہیں رہی تھی۔ دو برس سے کھڑی کھڑی ٹائروں میں ہوا ختم ہو گئی، شاید حوصلہ بھی۔ جب صوابی کی ہاکی ٹرف کو “صاف” کرنے کا حکم آیا تو کسی نے پوچھا نہیں کہ مشین زندہ بھی ہے یا نہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اسی لاکھ کی مشین کو دھکے دے کر گاڑی میں چڑھایا گیا، بالکل ویسے جیسے عید پر قربانی کا جانور راضی نہ ہو تو محلے کے چار لڑکے مل کر اسے پک اپ میں ڈالتے ہیں۔

یہ منظر اگر کسی کامیڈی شو میں ہوتا تو لوگ کہتے مبالغہ ہے، حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔ لیکن یہاں حقیقت نے کامیڈی کو مات دے دی۔ مشین کی حالت دیکھ کر یوں لگا جیسے اسے صفائی کے لیے نہیں، غسلِ جنازہ کے لیے لے جایا جا رہا ہو۔ ٹائروں میں ہوا نہیں، انجن خاموش، اور اردگرد کھڑے اہلکار ایسے سنجیدہ جیسے کوئی بڑا قومی منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچ رہا ہو۔اب ذرا اس منصوبے کی روح پر بات کر لیتے ہیں۔ صوابی کی ہاکی ٹرف، جس کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ رینکل سے بھری پڑی ہے، وہاں اس مشین کے ذریعے صفائی کی “کوشش” کی جائے گی۔ یہاں لفظ کوشش بہت اہم ہے، کیونکہ نتیجے کی کوئی ضمانت نہیں۔ جیسے اکثر منصوبوں میں ہوتا ہے، مقصد کام کرنا نہیں بلکہ دکھانا ہوتا ہے کہ کام ہو رہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ اگر یہ مشین واقعی اتنی قیمتی اور ضروری تھی تو دو سال تک کیوں کھڑی رہی؟ کیا ٹرف اس دوران خود صاف ہوتی رہی؟ یا ہم نے یہ مان لیا تھا کہ رینکل بھی ہاکی کا حصہ ہے، جیسے کرپشن ہمارے نظام کا حصہ بن چکی ہے؟ اگر مشین خراب تھی تو اس کی مرمت کیوں نہیں ہوئی؟ اور اگر ٹھیک تھی تو استعمال کیوں نہیں ہوئی؟یہاں کہانی میں ایک دلچسپ کردار بھی ہے، مشین کا آپریٹر۔ جی ہاں، باقاعدہ آپریٹر۔ تنخواہ کے ساتھ، شاید الاونس کے ساتھ بھی۔ اب ذرا اس آپریٹر کی زندگی کا تصور کریں۔ دو سال تک ایک ایسی مشین کا آپریٹر جس نے حرکت ہی نہیں کی۔ صبح آفس آنا، مشین کو دیکھنا، شاید سلام دعا کرنا، اور پھر شام کو گھر واپس۔ ایسی نوکری کو تو ہم “خوابوں کی نوکری” کہہ سکتے ہیں، مگر قوم کے لیے یہ خواب نہیں، ڈراو¿نا خواب ہے۔

یہ واقعہ صرف ایک مشین کا نہیں، یہ پورے نظام کا عکس ہے۔ ہمارے ہاں مسئلہ وسائل کی کمی نہیں، مسئلہ نیت اور نگرانی کا ہے۔ اسی لاکھ روپے کی مشین اگر دو سال کھڑی رہ سکتی ہے تو سوچیں کروڑوں کے منصوبے کس حال میں ہوں گے۔ کاغذوں میں سب کچھ چمکتا دمکتا، زمین پر سب کچھ زنگ آلود۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جب مشین کو دھکے دے کر گاڑی میں رکھا گیا تو کسی نے شرمندگی محسوس نہیں کی۔ نہ کسی افسر کا ماتھا ٹھنکا، نہ کسی نے کہا کہ یہ تماشا بند کریں۔ الٹا شاید کسی نے تصویر بنا کر فخر سے بھیجی ہو کہ “کام شروع ہو گیا ہے”۔ ہمارے ہاں کام کا آغاز اکثر فوٹو سیشن سے ہوتا ہے اور اختتام خاموشی سے۔

اب ذرا صوابی کی ٹرف پر نظر ڈالیں۔ وہ ٹرف جس پر کھلاڑی دن رات محنت کرتے ہیں، جس پر مستقبل کے قومی کھلاڑی پاو¿ں رکھتے ہیں۔ وہاں جب یہ مشین پہنچے گی تو سوال یہ نہیں ہوگا کہ ٹرف صاف ہوگی یا نہیں، سوال یہ ہوگا کہ اس ڈرامے کا اگلا سین کیا ہوگا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مشین کو وہاں بھی دھکے لگانے پڑیں اور آخر میں رپورٹ لکھ دی جائے کہ “صفائی کا عمل جاری ہے”۔یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ دن بعد ایک نئی خبر آئے کہ مشین تکنیکی خرابی کے باعث واپس پشاور منتقل کر دی گئی ہے۔ خرابی وہی ہوگی جو پہلے دن تھی، مگر اب اسے “تکنیکی” کا نام دے دیا جائے گا۔ فائلوں میں نوٹ لگ جائے گا، اور اصل مسئلہ ایک بار پھر قالین کے نیچے چلا جائے گا۔

کامیڈی یہ ہے کہ ہم ہر ناکامی کو نعرے میں لپیٹ دیتے ہیں۔ تبدیلی، نیا پاکستان، اصلاحات۔ مگر عملی طور پر وہی پرانی کہانی۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے مشینیں زنگ کھا کر کھڑی رہتی تھیں، اب انہیں دھکے دے کر بھیجا جاتا ہے تاکہ لگے کچھ ہو رہا ہے۔اس سارے معاملے میں سب سے زیادہ نقصان کھلاڑیوں کا ہے، جن کا ذکر کسی فائل میں سنجیدگی سے نہیں ہوتا۔ ان کے لیے ٹرف ایک میدان نہیں، امید ہوتی ہے۔ مگر جب امید کو اسی لاکھ کی مردہ مشین کے حوالے کر دیا جائے تو نتیجہ وہی نکلتا ہے جو ہم سالوں سے دیکھ رہے ہیں۔

یہ کالم کسی ایک افسر، ایک ادارے یا ایک مشین کے خلاف نہیں۔ یہ اس سوچ کے خلاف ہے جس میں عوامی پیسے کو کھلونا سمجھا جاتا ہے۔ جہاں جواب دہی کا تصور اتنا کمزور ہے کہ اسی لاکھ کی مشین بھی چیخ چیخ کر پوچھتی ہے کہ میرا قصور کیا تھا۔آخر میں بس ایک سوال۔ اگر اسی لاکھ کی مشین کو دھکے دے کر کام پر بھیجا جا سکتا ہے تو کیا پورا نظام بھی اسی طرح دھکوں پر چل رہا ہے؟ شاید ہاں۔ فرق صرف یہ ہے کہ مشین کی ٹائروں میں ہوا نہیں تھی، اور ہمارے نظام میں شرم نہیں۔اور ہاں، صوابی کی ٹرف اگر واقعی صاف ہو گئی تو یہ معجزہ ہوگا۔ اور اگر نہیں ہوئی تو فکر نہ کریں، ہمارے پاس وضاحتیں بہت ہیں۔ مشین تو بس ایک بہانہ تھی، اصل کھیل تو کہیں اور کھیلا جا رہا ہے۔
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 902 Articles with 718869 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More