ورلڈ ریکارڈ بلوچستان میں، تالیاں اسلام آباد میں
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
پاکستان میں کھیلوں کی قدر کا پیمانہ بڑا سادہ ہے۔ اگر کامیابی لاہور، فیصل آباد یا کسی بڑے اسٹیڈیم کے قریب ہو تو اسے قومی کارنامہ کہا جاتا ہے۔ اگر کامیابی بلوچستان کے کسی کونے سے نکل آئے تو اسے صوبائی خبر بنا کر فائل میں رکھ دیا جاتا ہے۔ ارشد ندیم نے اولمپکس میں شاندار کامیابی حاصل کی، قوم نے خوشی منائی، وزیراعظم اور صدر نے ملاقاتیں کیں، کیمرے چلے، تصاویر بنیں، اور تیس کروڑ روپے کی رقم نے ثابت کر دیا کہ یہ واقعی “قومی” کامیابی ہے۔
مگر اسی ملک کے بلوچستان سے سلطان گولڈن نے ورلڈ ریکارڈ بنایا۔ عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن ہوا، پرچم بلند ہوا، مگر وفاقی سطح پر ردعمل ایسا تھا جیسے کسی نے محلے کی کرکٹ جیت لی ہو۔ پانچ کروڑ روپے کا اعلان ہوا، وہ بھی صرف وزیراعلیٰ بلوچستان کی طرف سے۔ وزیراعظم اور صدر صاحب شاید مصروف تھے، یا شاید ورلڈ ریکارڈ گوگل میپ پر بلوچستان میں دکھائی نہیں دیتا۔یہاں سوال ارشد ندیم اور سلطان گولڈن کا موازنہ نہیں، دونوں ملک کا فخر ہیں۔ اصل سوال ریاستی رویے کا ہے۔ ایک کو قومی ہیرو، دوسرے کو صوبائی کھلاڑی کیوں سمجھا گیا؟ کیا ورلڈ ریکارڈ کی ویلیو صوبے کے نام سے کم یا زیادہ ہو جاتی ہے؟
پاکستان میں اعزازات کا ایک غیر اعلانیہ فارمولا ہے۔ اگر کامیابی ٹی وی اسکرین پر اچھی لگے، اینکر کو تلفظ میں آسان ہو، اور سوشل میڈیا ٹیم کے لیے کیپشن بنانا مشکل نہ ہو تو پھر اعزاز بھی بڑا ہوتا ہے۔ بلوچستان چونکہ ہر تین شرطوں میں فیل ہو جاتا ہے، اس لیے وہاں کے ہیروز کو بھی محدود کوٹے میں رکھا جاتا ہے۔سلطان گولڈن نے ورلڈ ریکارڈ بنایا، یعنی ایسا کارنامہ جو صرف پاکستان نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے اہم ہوتا ہے۔ ورلڈ ریکارڈ کا مطلب یہ نہیں کہ صرف ایک میڈل یا سرٹیفکیٹ ملے، بلکہ یہ ریاست کے لیے ایک موقع ہوتا ہے کہ وہ کہے، “ہم اپنے ہر شہری کو برابر سمجھتے ہیں۔” مگر یہاں ریاست نے کہا، “آپ کا وزیراعلیٰ ہے نا، وہ کافی ہے۔”
وزیراعظم اور صدر کا ارشد ندیم سے ملنا درست تھا، خوش آئند تھا، اور ہونا بھی چاہیے تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سلطان گولڈن کو کیوں نہیں بلایا گیا؟ کیا وزیراعظم ہاو¿س کا راستہ صرف کچھ مخصوص صوبوں سے ہو کر گزرتا ہے؟ کیا ایوانِ صدر میں داخلے کے لیے جغرافیہ دیکھا جاتا ہے؟ہم بار بار کہتے ہیں کہ بلوچستان پاکستان کا دل ہے، مگر عملی طور پر اس دل کو ہمیشہ ویٹنگ لسٹ پر رکھا جاتا ہے۔ گیس بلوچستان سے، معدنیات بلوچستان سے، سی پیک کے راستے بلوچستان سے، ریکوڈک اور سیندک بلوچستان میں، مگر عزت کہیں اور تقسیم ہوتی ہے۔ جب فائدہ لینا ہو تو بلوچستان یاد آتا ہے، جب داد دینی ہو تو کیمرہ کسی اور طرف گھوم جاتا ہے۔
یہ بھی دلچسپ ہے کہ حکومت ہر تقریر میں نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی بات کرتی ہے۔ نوجوانوں کو کہا جاتا ہے کہ محنت کرو، ملک کا نام روشن کرو، ریاست تمہارے ساتھ ہے۔ مگر سلطان گولڈن کے کیس میں ریاست شاید ساتھ تھی، مگر آدھی نیند میں۔ پانچ کروڑ روپے کوئی معمولی رقم نہیں، مگر سوال رقم کا نہیں، رویے کا ہے۔ ورلڈ ریکارڈ بنانے والا کھلاڑی صرف چیک نہیں، عزت بھی مانگتا ہے۔اگر آج ورلڈ ریکارڈ بنانے والے کے ساتھ یہ سلوک ہے تو عام بلوچستانی نوجوان کا کیا حال ہو گا؟ جو نہ ورلڈ ریکارڈ بناتا ہے، نہ اس کے پاس میڈیا ٹیم ہوتی ہے، نہ اس کی کامیابی کسی بڑے شہر کے نیوز روم میں بیٹھے پروڈیوسر کو متاثر کرتی ہے۔ اس نوجوان کے لیے ریاست کا پیغام صاف ہے: محنت کرو، مگر توقع کم رکھو۔
پاکستان میں مساوات کا تصور تقریروں تک محدود ہے۔ عملی میدان میں صوبوں کی درجہ بندی صاف نظر آتی ہے۔ کچھ صوبے “مرکزی”، کچھ “حساس”، اور بلوچستان شاید “خاموش” کیٹیگری میں آتا ہے۔ خاموش اس لیے کہ یہاں کے لوگ کم بولتے ہیں، اور جب بولتے ہیں تو اکثر سنا نہیں جاتا۔سلطان گولڈن کا ورلڈ ریکارڈ ایک موقع تھا کہ وفاق یہ تاثر توڑتا۔ ایک تقریب ہوتی، وزیراعظم اور صدر موجود ہوتے، پیغام جاتا کہ پاکستان میں کامیابی کا تعلق صوبے سے نہیں، کارکردگی سے ہے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بلوچستان کے لوگوں کو ایک بار پھر احساس دلایا گیا کہ قومی سطح کی خوشی میں ان کی شرکت محدود ہے۔
یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ اگر سلطان گولڈن کا تعلق کسی بڑے شہر سے ہوتا تو کیا منظر مختلف ہوتا؟ شاید ہاں۔ شاید تب ورلڈ ریکارڈ “تاریخی لمحہ” کہلاتا، خصوصی ڈاکیومنٹری بنتی، اور سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلتا۔ مگر بلوچستان میں ہونے والی کامیابی اکثر فٹ نوٹ بن کر رہ جاتی ہے۔ریاستیں صرف سڑکیں اور منصوبے بنا کر مضبوط نہیں ہوتیں، بلکہ اعتماد سے بنتی ہیں۔ اور اعتماد تب بنتا ہے جب ہر شہری کو لگے کہ اس کی کامیابی واقعی قومی ہے۔ سلطان گولڈن کا معاملہ یہ ثابت کرتا ہے کہ ہمیں اب بھی یہ سیکھنا ہے۔
آخر میں بات سادہ ہے۔ ارشد ندیم بھی پاکستان کا ہیرو ہے، سلطان گولڈن بھی۔ ایک کو تیس کروڑ، دوسرے کو پانچ کروڑ۔ ایک کو وزیراعظم اور صدر کی ملاقات، دوسرے کو صرف صوبائی سطح کی توجہ۔ یہ فرق صرف اعداد کا نہیں، احساس کا ہے۔اور جب احساس میں فرق آ جائے تو ورلڈ ریکارڈ بھی دلوں کا ریکارڈ نہیں توڑ پاتے۔ #Balochistan #SultanGolden #WorldRecord #SportsJustice #EqualRecognition #PakistanSports
|