پشاور اسپورٹس کمپلیکس کا ٹارٹن ٹریک۔ مہنگا، نازک اور آن لائن ٹھیک ہو گا۔ کھلاڑی حیران۔ عوام پریشان۔ ماہرین آرام فرما
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
پشاور اسپورٹس کمپلیکس کا ٹارٹن ٹریک کوئی عام ٹریک نہیں۔ یہ پاکستان کی اسپورٹس تاریخ کا وہ معجزاتی منصوبہ ہے جسے سن کر لگتا ہے کہ بس چند دن میں ورلڈ ایتھلیٹکس کے مقابلے یہاں ہونے والے ہیں۔ مگر پھر حقیقت سامنے آتی ہے کہ مقابلے تو دور کی بات، رفتار تو یہ ہے گونگابھی کہے کہ بھائی تم لوگ بہت سست ہو۔ایک ماہ پہلے ایک بڑے جوش و جذبے کے ساتھ اعلان ہوا کہ اس ٹریک کو ایک مہینے میں مکمل کر دیا جائے گا۔ ایک ماہ گزر گیا مگر ٹریک نے وہی پرانی شکل، وہی پرانا رنگ اور وہی پرانی خاموشی برقرار رکھی۔ فرق صرف اتنا آیا کہ دو غیر ملکی ماہرین جو بڑے طمطراق سے پشاور لائے گئے تھے، وہ اب واپس اسلام آباد روانہ ہو چکے ہیں اور بتایا جا رہا ہے کہ اب وہ آن لائن رہنمائی دیں گے۔
اب پلیز ذرا تصور کریں۔ ایک طرف پشاور کا موسم، دھول، مٹی، درجہ حرارت کا اتار چڑھاو¿۔ دوسری طرف غیر ملکی ماہر اسلام آباد کے ایرکنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھ کر کہہ رہا ہے۔ “بھائی ذرا کیمرہ نزدیک کرو۔ نہیں نہیں تھوڑا اور۔ اوہ یہ لائٹ کم ہے۔ موبائل کی ٹارچ جلا کر دکھاو¿۔” یعنی دنیا میں آج سب کچھ آن لائن ہوتا ہے۔ تعلیمی ڈگری آن لائن۔ میٹنگ آن لائن۔ برتن دھونے کی ٹپس آن لائن۔ اب آ گیا ہے ٹارٹن ٹریک آن لائن۔کچھ کھلاڑیوں نے عجیب خیال پیش کیا کہ اگر یہ اتنا ہی آسان تھا تو شروع سے ہم واٹس ایپ گروپ میں ویڈیوز بھیج دیتے۔ ایچ ڈی کیمرہ لگا کر لائیو کر دیتے۔ غیر ملکی بھی خوش ہم بھی خوش اور بجٹ بھی بچ جاتا۔ بلکہ اگر بات ویڈیو کی ہے تو یوٹیوب پر ڈی آئی وائے ٹارٹن ٹریک ریپیر کے نام سے ٹیوٹوریل ڈال دیتے۔ جو بھی کرنا ہے دیکھ کر کرتے رہتے۔ بلکہ بہتر ہوتا کہ ایک ووٹنگ پول بنا دیا جاتا۔ “نئی تہہ کتنی موٹی ہو۔ لال، نیلی یا سبز ہو۔” عوام فیصلہ کر لیتی۔
مگر یہاں ایسا نہیں ہوتا۔ یہاں تو ٹریک کے ساتھ ساتھ فٹبال بھی قربانی کا بکرا بنتا ہے۔ کیونکہ جب بھی اس ٹارٹن ٹریک کی کہانی شروع ہوتی ہے تو بے چارے فٹبالرز وہی پرانے سڑکوں والے میدانوں کی طرف واپس دھکیل دئیے جاتے ہیں۔ فٹبال کا کھیل اب میدانوں میں نہیں گلیوں کے چوکوں میں ہوتا ہے۔ جہاں دایاں فٹ آوٹ آف لائن اور بایاں فٹ آن لائن کی طرح دکھتا ہے۔ گیند جب ٹائر کے نیچے آ جائے تو میچ روکنا پڑ جاتا ہے۔ اور جب گدھا گاڑی گزر جائے تو آفسروں کی گاڑی جیسا پروٹوکول محسوس ہوتا ہے۔یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ہر بار جب فٹبال گراونڈ بند ہوتا ہے تو اعلان کچھ یوں ہوتا ہے۔ “قیمتی منصوبہ جاری ہے۔ تھوڑا صبر کریں۔ کھیل کے بہتر مستقبل کے لئے کام جاری ہے۔” مستقبل کب آئے گا معلوم نہیں مگر کھلاڑی تو ماضی کے میدان دیکھ دیکھ کے پرانے ہو رہے ہیں۔
اب یہ بات صرف تاخیر تک محدود نہیں رہی۔ کھلاڑیوں کے مطابق اس منصوبے کی لاگت بھی ابتدائی تخمینے سے اوپر جا چکی ہے۔ جو پی سی ون دکھایا گیا تھا وہ شاید اتنا ہی ہے جتنا ایک پرانی کہانی کہ بس اگلے ہفتے سب مکمل ہو جائے گا۔ اصل خرچ کیا تھا، کس چیز پر کتنا لگا، کس تہہ کی قیمت کیا تھی، کس ساز و سامان کی خریداری ہوئی، سب کچھ ایک پراسرار فائل کی طرح ہے جسے شاید صرف چند لوگ جانتے ہیں اور وہ جاننے والے بھی اتنے مصروف ہیں کہ عوام کو بتانا ان کی ترجیحات میں شامل نہیں۔
یہاں اصل کردار سامنے آتا ہے۔ انجینئرنگ ونگ۔ جی ہاں، وہی ونگ جو اس ٹارٹن ٹریک کا معیار برقرار رکھنے کا ذمہ دار ہے۔ وہی ونگ جو ہر پریزنٹیشن میں معیار، بین الاقوامی سٹینڈرڈ اور ٹیکنالوجی کے نام ایسے لیتا ہے جیسے کوئی یوٹیوبر پہلی دفعہ کیمرہ پے آیا ہو۔ مگر سوشل میڈیا کی چمک، پاور پوائنٹ سلائیڈ اور حقیقت کی زمین میں ہمیشہ فرق ہوتا ہے۔
یہ وہی ونگ ہے جو صوابی کے مشہور زمانہ اسپورٹس ٹرف میں بھی شامل تھا۔ جہاں ٹرف کاٹ کر دوبارہ بچھایا گیا۔ یعنی بساط بچھانے والا بھی حیران کہ یہاں ٹرف ہے یا پزل گیم۔ کھلاڑی حیران کہ یہ فٹبال گراونڈ ہے یا قالین سازی کی ورکشاپ۔ مگر پھر بھی سب ٹھیک۔ سب کامیاب۔ کوئی جواب نہیں۔ کسی کو فکر نہیں۔ کیونکہ یہاں ایک روایت ہے۔ کام ہو یا خراب ہو۔ فائل بند۔ باب بند۔اب لوگ کہتے ہیں یہ وہی تبدیلی کی حکومت ہے جس کا دعویٰ تھا کہ کرپشن ختم ہو گی، منصوبے وقت پر مکمل ہوں گے، معیار پر سمجھوتہ نہیں ہو گا۔ لگتا ہے تبدیلی آئی بھی ہے مگر کہیں نہ کہیں راستہ بھول گئی ہے۔ شاید تبدیلی کو غلط بس لی گئی تھی۔ ڈرائیور نے غلط موڑ کاٹ لیا۔ لہذا منزل کی طرف جانے والی سمت اب بھی تلاش میں ہے۔
کھلاڑیوں کا مطالبہ یہی ہے کہ اگر پیسے عوام کے ہیں۔ منصوبہ عوام کا ہے۔ میدان نوجوانوں کے ہیں۔ تو جواب بھی عوام کو ملنا چاہیے۔ اس سے پہلے کہ اگلے منصوبے کی نئی ویڈیو جاری ہو، کم از کم پچھلے منصوبوں کا پوسٹ مارٹم تو کر لیں۔ ورنہ یہ ٹریک صرف دوڑنے والوں کا نہیں، سوال پوچھنے والوں کا بھی امتحان بن جائے گا۔ اور اگر سوال پوچھنا جرم ٹھہرے تو پھر کھیل بھی جرم، محنت بھی جرم، اور خواب بھی جرم بن جائیں گے۔
آخر میں ایک تجویز۔ جب اب ہر کام آن لائن ہو رہا ہے تو ایک ایپ بنا لی جائے۔ “TrackFix.pk” جہاں کھلاڑی روزانہ تصاویر اپ لوڈ کریں۔ ماہرین آن لائن تھمبز اپ دے دیں۔ عوام رائے دیں۔ اور بجٹ بھی ڈیجیٹل والٹ سے نکلتا رہے۔ جب تمام چیزیں ورچوئل ہو چکی ہوں تو افتتاح بھی زوم پر کر لیا جائے۔ وزیر صاحب بٹن دبائیں۔ اسکرین پر آتش بازی چلے اور ساتھ میں اعلان ہو۔ “ٹریک مکمل ہو گیا۔ برائے مہربانی گھر سے ہی دوڑ لگائیں کیونکہ میدان ابھی بند ہے۔”
#PeshawarTartanTrack #CostOverrun #EngineeringWing #SwabiTurfIssue #OnlineEngineering #SportsComedyColumn #PublicFundsAudit #FootballersIgnored #YouthOfKP #KhyberPakhtunkhwaSports
|