#العلمAlilm علمُ الکتاب {{{{ سُورَہِ لُقمان ، اٰیت 1 تا
5 }}}} اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روازنہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
الٓمٓ 1
تلک اٰیٰت الکتٰب
الحکیم 2 ھدی ورحمة
المحسنین 3 الذین یقیمون
الصلٰوة ویؤتون الزکٰوة وھم بالاٰخرة
ھم یوقنون 4 اولٰئک علٰی ھدی من ربھم
واولٰئک ھم المفلحون 5
اللہ تعالٰی نے محمد علیہ السلام کے لیۓ زمان و مکان کے ہر ایک ثانیۓ اور
ہر ایک دورانیۓ سے جو کتابِ علم و عمل جمع کی ھے اِس سُورت میں بھی اُسی
کتابِ علم و عمل کی وہی اٰیات و ھدایات جمع کی گئی ہیں جن میں عملِ شرک ترک
کرنے والے اہلِ زمین کے لیۓ سامانِ علم و ھدایت اور عملِ خیر اختیار کرنے
والے اہلِ زمین کے لیۓ سامانِ رحمت و عنایت ھے ، جس زمین اور جس زمانے میں
علم و عمل اختیار کرنے والے یہ اعلٰی انسان پیدا ہوتے ہیں تو اُس زمین اور
اُس زمانے میں خیر کا دور دورہ ہوتا ھے کیونکہ اُس زمین اور اُس زمانے کے
یہ باعمل انسان اہلِ زمین و اہلِ زمانہ کو اللہ کے اَحکامِ نازلہ کی تلقین
بھی کرتے اور وسائلِ زمین کی اہلِ زمانہ کے درمیان ایک مُنصفانہ تقسیم بھی
کرتے رہتے ہیں کیونکہ موت کے بعد ملنے والی زندگی پر وہ خود بھی یقین رکھتے
ہیں اور دُوسرے انسانوں کو بھی اِس کا یقین دلاتے ہیں اور اپنے اِسی علم و
عمل کی بنا پر یہ عالِم بالعمل اور عامِل بالعلم انسان ہر زمین و ہر زمانے
میں کامیاب و کامران ہوتے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم کی دیگر سُورتوں کی طرح اِس سُورت کا مرکز و محور بھی اللہ
تعالٰی کی توحید ھے اور قُرآن کی دیگر سُورتوں کی طرح قُرآنِ کریم کی اِس
سُورت میں بھی توحید کے حوالے سے اہلِ توحید کو اللہ تعالٰی کے اُن اَحکامِ
نازلہ کی تلقین کی گئی ھے جو اَحکامِ نازلہ ہر زمین اور ہر زمانے کے اہلِ
زمانہ کے علمی و فکری ارتقاء کے وہ اَحکامِ لازم ہوتے ہیں جن کی رُو سے ہر
زمین و زمانے کے وسائلِ زمین و زمانہ اُس زمانے کے تمام انسانوں کے درمیان
برابر تقسیم ہوتے ہیں ، قُرآنِ کریم جس طرح اپنی دیگر سُورتوں میں توحید کے
اِس مضمون کو زمان و مکان اور اہلِ زمان و مکان کے مُعتبر حوالوں کے ساتھ
موضوعِ سخن بناتا ھے اسی طرح اِس سُورت میں بھی اُس نے اُس لُقمان کی علمی
و تاریخی شخصیت کے اَقوال کو توحید کا ایک مُعتبر حوالہ بنایا ھے جو اپنے
زمانے کا ایک بلند پایہ فلسفی و بالغ نظر حکیم اور اپنے زمانے کے ایک حسین
و جمیل انسان تھا ، قُرآنِ کریم میں لُقمان کی شخصیت و کردار کے اِس حوالے
کا مقصد نزولِ قُرآن کے زمانے کے لوگوں کو یہ بتانا تھا کہ محمد علیہ
السلام تُم کو جس توحید کی دعوت دے رھے ہیں وہ تُمہارے لیۓ کُچھ ایسی نئی
دعوت بھی نہیں ھے کہ جس دعوت سے تُمہارے دل و دماغ کبھی آشنا ہی نہ رھے ہوں
بلکہ حقیقت تو یہ ھے کہ اگر تُم اپنی مُشرکانہ نفرت سے کام نہ لو تو تمہیں
معلوم ہی ھے کہ جس دعوتِ توحید کی محمد علیہ السلام تُم کو دعوت دے رھے ہیں
یہ وہی دعوتِ توحید ھے جو اُس مُجلّہِ لُقمان میں بھی موجُود ھے جس مُجلّہِ
لُقمان کے اقوال تُمہارے عربی معاشرے میں ہمشہ معروف و مقبول رھے ہیں ،
سیدنا محمد علیہ السلام نے مُشرکینِ مکہ کو لُقمان و حکمتِ لُقمان کا یہ
حوالہ اِس لیۓ دیا تھا کہ دانشِ لُقمان و حکمتِ لُقمان کی کی وہ بہت سی ضرب
الامثال شعراۓ عرب امرؤالقیس و لبید اور طرفہ و اَعشٰی کے کلام میں بھی
موجُود تھیں جن میں اُسی توحید کا بیان تھا جو توحید محمد علیہ السلام اُن
کے گوش گزار کر رھے تھے اور عربوں کے اُس عربی معاشرے میں یہ واقعہ بھی
معروف تھا کہ سُوید بن صامت جو اپنی زبان اور اپنے بیان کے اعتبار سے اہلِ
عرب میں"کامل" کے نام سے مشہور تھا اُس نے جب پہلی بار سیدنا محمد علیہ
السلام کی زبان سے قُرآن کی آواز سنی تھی تو اُس نے آپ سے کہا تھا کہ ایسی
ہی ایک چیز میرے پاس بھی موجُود ھے اور جب آپ کے استفسار پر اُس نے آپ کو
مُجلّہ لُقمان کا کُچھ کلام سنایا تھا تو آپ نے فرمایا تھا کہ بِلا شُبہ یہ
ایک بے مثال کلام ھے لیکن میرے پاس جو کلام ھے وہ ایک لازوال کلام ھے جو
میں تُم کو سناتا ہوں اور اِس واقعے کے کُچھ عرصے بعد ہی جب سُوید بن صامت
جنگِ بُعاث میں مارا گیا تھا تو اُس کے قبیلے کے لوگوں نے یہ خیال ظاہر کیا
تھا کہ سُوید بن صامت اپنی موت سے پہلے محمد علیہ السلام پر نازل ہونے والے
اُس لازوال کلام پر ایمان لا چکا تھا جو کلام اُس نے محمد علیہ السلام سے
سنا تھا ، یہ واقعات اِس اَمر کی ایک کُھلی دلیل تھے کہ اہلِ عرب توحید کا
اپنی بیخبری کی وجہ سے انکار نہیں کرتے تھے بلکہ اپنی اُس حرصِ اقتدار کی
وجہ سے انکار کرتے تھے جس کے چِھن جانے کا اُن کو خوف تھا ، لُقمان ھُود
علیہ السلام کی اُس قدیم قومِ عاد کے ایک فرد تھے جس نے نُوح علیہ السلام
کے بعد اور ابراہیم علیہ السلام سے پہلے زمانے میں یمن سے اپنی تہذیب کا
آغاز کر کے ایشیا و افریقہ کے ایک بڑے حصے کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا اور
جب اُس قوم پر اُس کے کفر و شرک کے باعث اللہ تعالٰی کا عذاب نازل ہوا تھا
تو اُس کے جو چند اہلِ ایمان ھُود علیہ السلام کے ساتھ ہجرت کر کے پہلے
حجاز پُہنچے تھے اور بعد ازاں حجاز سے نکل کر حضر موت اور خلیجِ فارس کے
درمیان جا بسے تھے اور عادِ ثانیہ کے نام سے مشہور ہوۓ تھے ، لُقمان اسی
قدیم عادِ ثانیہ کے ایک فرد اور اسی قدیم قوم کے ایک نیک نام و نیک دل
باشاہ تھے جن کے حکیمانہ اَقوال عھدِ نبوی تک اہلِ عرب میں زندہ و مقبول
تھے ، بعض اہلِ تاریخ کہتے ہیں کہ لُقمان داؤد علیہ السلام کے ہم عصر تھے
اور اُن کی حکومت بھی اتنی وسیع و عریض تھی کہ جس میں عرب کے بعض علاقے بھی
شامل تھے اور عرب میں غالبا اُن کے اِن اَقوال کی اتنی طویل المیعاد شہرت
کی وجہ بھی یہی ہوگی کہ لوگ اپنے حُکام و عمال کے کار آمد اعمال و اقوال کو
زیادہ یاد رکھتے ہیں اور زیادہ دیر تک یاد رکھتے ہیں ، اِس اَمر کا تو کوئی
ثبوت موجُود نہیں ھے کہ لُقمان اللہ تعالٰی کے نبی تھے یا نہیں تھے لیکن
اِس اَمر کا مُکمل ثبوت موجود ھے کہ اُن کی حکومت کے سارے اصول اور سارے
ضابطے اللہ تعالٰی کی وحی کے عین مطابق تھے ، عُلماۓ روایت نے اپنی تفسیری
روایات میں جس حبشی اور غلام لُقمان کو مُتعارف کرایا ھے وہ مصر کے جنوب
اور سوڈان کے شمال کا ایک سیاہ رُو حبشی غلام تھا جس کو اُس کے حبشی ہونے
کی بنا پر لُقمان حکیم نہ ماننے کی اگرچہ کوئی معقول وجہ نہیں ھے لیکن اُس
کے اَقوال کا عربوں میں اِس کثرت سے رائج ہونا بہر حال ایک دُور از کار بات
ھے اِس لیۓ زیادہ صحیح بات یہی ھے کہ لقمان سوڈان کے ایک سیاہ رُو حبشی
غلام نہیں تھے بلکہ یمن کے ایک خوش رُو بادشاہ تھے اور قُرآنِ کریم نے اِس
سُورت کی اِن ابتدائی اٰیات کے بعد اُن کے جو اقوال نقل کیۓ ہیں اُن سے بھی
اسی بات کی تائید ہوتی ھے کہ اُن کے اقوال میں علم و تجربے کی جو گہرائی
نظر آتی ھے علم و تجربے کی وہ گہرائی ایک غلام انسان کی غلامانہ زندگی میں
شاید اتنی گہری نہیں ہوسکتی !!
|