قُرآنی اٰیات اور انسانی لغویات !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب (((( سُورَہِ لُقمٰن ، اٰیت 6 تا 9 )))) اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
من الناس
من یشتری لھوا
لحدیث لیضل عن سبیل
اللہ بغیر علم ویتخذھا ھزوا
اولٰٓئک لھم عذاب مھین 6 واذاتتلٰی
علیه اٰیٰتنا ولّٰی مستکبرا کان لم یسمعھا کان
فی اذنیه وقرا فبشره بعذاب الیم 7 ان الذین اٰمنوا
وعملواالصٰلحٰت لھم جنٰت النعیم 8 خٰلدین فیھا وعدالله
حقا وھوالعزیزالحکیم 9
اور انسانی جماعت میں ہی کوئی نہ کوئی ایسا فرد بھی ہوتا ھے جو اللہ کے پڑھے جانے اور پڑھاۓ جانے والے کلامِ حق کو چھوڑ کر غیر اللہ کے نہ پڑھے جانے اور نہ پڑھاۓ جانے والے کلامِ باطل کو پڑھتا اور پڑھتا ھے تاکہ وہ انسانوں کو اللہ کے علمِ روشن سے روشن کیۓ ہوۓ راستے سے ہٹا کر غیر اللہ کے علمِ تاریک سے تاریک کیۓ ہوۓ راستے پر لگادے اور دینِ حق کی دعوتِ حق کو اپنے تمسخر و اسہزا کا نشانہ بنادے ، انسانی جماعت کے ایسے ہر فرد کے لیۓ ایک رُسواکُن سزا ھے ، جب اِس گُم راہ انسان کے سامنے ھماری کتابِ حق کی اٰیاتِ حق پیش کی جاتی ہیں تو وہ گھمنڈی انسان اِس طرح بے بہرہ بن جاتا ھے کہ جس طرح اُس نے کُچھ سنا ہی نہیں ھے ، قُرآنی اٰیات سے انکار اور انسانی لغویات پر اصرار کرنے والے اُس انسان کو ھماری اُس دَرد بھری سزا سے آگاہ کردیا جاۓ جو ھم نے اُس کے لیۓ تیار کی ہوئی ھے اور ہر تحقیق سے اِس اَمر کی بھی تصدیق ہو چکی ھے جو لوگ اللہ کی اِس کتاب پر ایمان لائیں گے اور اِس کتاب کے خلاف عملی اقدامات کرنے والے اَفراد کے خلاف اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ عملی اقدامات کریں گے تو وہ اللہ کی نعمت بھری دائمی جنتوں کے وارث بنادیۓ جائیں گے اور یہ اُن کے ساتھ اُن کے اُس خالق و مالک کا وعدہ ھے جو ہمیشہ سے ہمیشہ کے لیۓ اُن کا ایک حکمت کار اور غالب کار خالق و مالک ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !!
اٰیاتِ بالا کی پہلی اٰیت کے پہلے تین الفاظ کی کامل تفہیم کے لیۓ سُورَةُالبقرة کی اٰیت 8 کے اُن الفاظ { ومن الناس من یقول اٰمنا باللہ وبالیوم الاٰخر وما ھم بمؤمنین } پر بھی ایک نظر ڈالنا لازم ھے جن کا مفہوم یہ ھے کہ انسانی جماعت کے بعض لوگوں نے اللہ تعالٰی اور یومِ آخرت پر ایمان لانے کا جو دعوٰی کیا ھے وہ اپنے اِس دعوے میں سَچے نہیں ہیں ، سُورَةُالبقرَة کی اِس اٰیت کا یہ حوالہ ھم نے { یقول } اور { یشتری } کے دو صیغوں میں یہ فرق واضح کرنے کے لیۓ دیا ھے کہ { یقول} جمع مذکر غائب فعل مضارع معروف کا اور { یشتری} واحد مذکر غائب فعل مضارع معروف کا صیغہ ھے ، پہلا صیغہ انسانی جماعت کے اُن بہت سے اَفراد کی نمائندگی کرتا ھے جنہوں نے ایک جُھوٹا دعوٰی کیا ھے جبکہ دُوسرا صیغہ انسانی جماعت کے اُس ایک فرد کی نشان دہی کرتا ھے جو لَغویات سنتا ھے اور لَغویات سناتا ھے ، کلامِ عرب میں { یشتری } کسی چیز کے بیچنے اور خریدنے کے دونوں معنوں میں آتا ھے کیونکہ اِس کا مقصدی مفہوم دو اَفراد کا ایک دُوسرے کے ساتھ وہ لین دین کرنا ہوتا ھے جو کبھی کبھی تبادلہِ مال کی صورت میں ہوتا ھے اور کبھی کبھی تبادلہِ خیال کی صورت میں ہوتا ھے ، اٰیت کا موضوعِ سخن چونکہ { لھوالحدیث } ھے اِس لیۓ اٰیت ھٰذا کے اِس مقام پر اِس سے مُراد تبادلہِ مال نہیں بلکہ صرف تبادلہِ خیال ھے ، اِس سُورت کی اِس اٰیت میں { لھوالحدیث } کا جو لفظ آیا ھے وہ اُس { احسن الحدیث } کے مقابلے میں آیا ھے جس کو سُورَةُالزُمر کی اٰیت 23 میں اللہ تعالٰی نے اِس طرح بیان کیا ھے کہ { اللہ نزل احسن الحدیث کتٰبا متشابہا مثانی تقشعر منه جلود الذین یخشون ربھم ثم تلین جلودھم وقلوبہم الٰی ذکراللہ } یعنی اللہ تعالٰی نے اپنا جو بہترین کلامِ حدیث نازل کیا ھے وہ ایک ایسی کتاب میں درج ھے جس کی اٰیات باہم ملتی جُلتی ہیں اور بار بار دُھرائی جاتی ہیں ، جو لوگ اللہ تعالٰی کی نافرمانی سے ڈرتے ہیں تو اِس کلام کو پڑھ کر اُن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور اِس کلام کی سحر انگیزی سے اُن کے بے سکون جسم و جان پُر سکون ہو جاتے ہیں ، اِس حدیثِ احسن کے اِس ذکرِ احسن کے بعد سُورَةُ الجاثیة کی اٰیت 6 میں پہلے تو اللہ تعالٰی نے { تلک اٰیٰت اللہ نتلوھا علیک بالحق } کہہ کر سیدنا محمد علیہ السلام کو اِس حقیقت سے آگاہ کیا گیا ھے کہ یہ اٰیات جو ھم آپ کو سنا رھے ہیں یہ اللہ تعالٰی کی اٰیات ہیں اور اِس کے معاً بعد اسی اٰیت کے دُوسرے حصے میں یہ ارشاد فرمایا گیا ھے کہ { فبایِ حدیث بعد اللہ واٰیٰتهٖ یؤمنون } یعنی آپ اِن لوگو سے پوچھیں تو سہی کہ ھماری اِن اٰیات کے نازل ہوجانے کے بعد اَب وہ کون سی حدیث یا اٰیت باقی رہ گئی ھے جس کو ھم سنائیں گے اور اُس کو سن کر اِن لوگوں کو اطمینان ہو گا ، مطلب یہ ھے کہ جن لوگوں کو ھماری یہ ایمان افروز اٰیات سننے کے بعد بھی اطمینان نہیں ہوا ھے تو اُن لوگوں کو کسی اور بات سے کبھی بھی کوئی اطمینان نہیں ہو گا کیونکہ اِن لوگوں کے پیشِ نظر قُرآن فہمی کا ایمان اَفروز منصوبہ نہیں ھے بلکہ اِن کے پیشِ نظر کوئی اور ہی ایمان سوز منصوبہ ھے جس کی بنا پر وہ ھماری اِن اٰیات پر عدمِ اطمینان کا اظہار کر رھے ہیں اور اُس وقت سے لے کر اِس وقت تک اُن لوگوں کے پیشِ نظر جو ایمان سوز منصوبہ رہا ھے وہ { لھوالحدیث } کا یہی ایمان سوز منصوبہ تھا جس کو اللہ تعالٰی نے سُورتِ ھٰذا کی اٰیتِ بالا میں بیان کر دیا ھے کہ وہ لھوالحدیث کا وہ ایمان سوز منصوبہ ھے جس منصوبے کے مطابق یہ لوگ اللہ تعالٰی کی اٰیات کے مقابلے میں اپنی اپنی وہ جھوٹی روایات پیش کر رھے ہیں جن کو وہ حدیث کا نام دے کر ایک دُوسرے سے سنتے رہتے اور ایک دُوسرے کو سناتے بھی رہتے ہیں تاکہ لوگ اللہ تعالٰی کی فکر انگیز اٰیات کی طرف نہ جائیں بلکہ اِن کی فکر سوز روایات کی طرف آئیں ، لھوالحدیث کے لُغوی مطالب اور فکری مقاصد کے بارے میں ھم سُورَةُالعنکبُوت کی اٰیت 65 کے ضمنی مضمون میں یہ بات تحریر کر چکے ہیں کہ { لھو } فعل { الھٰی یلھی } سے ایک حاصل مصدر ھے اور اِس حاصل مصدر کا حاصل وہ کھیل ہوتا ھے جس کھیل کے کھیلنے اور کھلانے والے اُس کھیل میں اُس کھیل کے تماش بینوں کے لیۓ اُس کھیل کے آغاز سے اَنجام تک ایک ایسا انہماک اور ایک ایسی دل چسپی برقرار رکھتے ہیں جو اُس کھیل کے ہر مرحلے میں اُس کھیل کے تماشائی کو اُس کھیل کا اسیرِ تماشا بناۓ رکھتی ھے اور جہاں پر اُس کھیل کی پہلی دل چسپی ختم ہوتی ھے وہیں سے اُس کھیل کی ایک نئی دل چسپی شروع ہو جاتی ھے ، عُلماۓ روایت لھوالحدیث سے ساز و آواز ، نغمہ و موسیقی ، سرُور و سرُود ، ریڈیو ٹی وی یا آڈیو اور ویڈیو وغیرہ مُراد لیتے ہیں لیکن یہ بات اِس لیۓ غلط ھے کہ نغمہ و ساز کے یہ سارے بُرے کھیل ایک ہی وقت اور ایک ہی مقام پر ایک جماعت مل کر کھیلتی ھے اور اٰیت ھٰذا میں فرد کے جس انفرادی بُرے کھیل کا ذکر ہوا ھے اُس سے قُرآن کے مقابلے میں لائی جانے والی اُس روایتِ باطلہ کا وہ مُفرد راوی مُراد ھے جو ایک زمان و مکان میں رہتے ہوۓ یہ دعوٰی کرتا ھے کہ میں نے ایک دُوسرے زمان و مکان کے اُس آدمی سے جو بات سنی ھے اُس آدمی نے یہ بات اپنے بھائی سے سنی ھے ، اُس کے اُس بھائی نے یہ بات ایک راہ گیر سے سنی ھے اور اُس راہ گیر نے یہ بات ایک مسافر قافلے کے ایک مسافر فرد سے سنی ھے اور اُس فرد نے یہ بات نبی علیہ السلام کے ایک ساتھی سے سنی ھے اور نبی علیہ السلام کے اُس ساتھی نے یہ بات نبی علیہ السلام سے سنی ھے اور اِس ٹوٹے ہوۓ زمان و مکان میں سنی سنائی ہوئی اِس بات کو سنانے کا مقصد یہ ھے کہ یہ بات دینِ اسلام کا ایک قانُون ھے حالانکہ اللہ تعالٰی کا قانُون صرف قُرآن ھے جس قُرآن کے پہلے مُفرد راوی کا نامِ گرامی اللہ ھے اور دُوسرے مُفرد راوی کا اسمِ گرامی محمد علیہ السلام ھے ، انسان کے پاس جو حدیث اِس ذریعے سے آئی ھے وہ {اَحسن الحدیث } ھے اور جو حدیث انسان کے پاس اِس ذریعے کے بغیر آئی ھے وہ { لہوالحدیث } ھے ، ایک مسلمان پر لازم ھے کہ وہ قُرآنی اٰیات اور انسانی لَغویات میں فرق کرے ، جو مسلمان اِس میں فرق قائم نہیں کرے گا تو اٰیاتِ بالا کے مطابق اللہ تعالٰی کے پاس اُس کے لیۓ ایک رُسوائی کا عذاب ھے اور ایک درد کا عذاب ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 559326 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More