تحقیق :محمود جمال انتخاب و پیشکش :محمد اسلم لودھی
وہ بحرِ قلزم (خلیج عقبہ) کے ساحلی شہر ایلہ (Elat) کے کنارے آباد تھے۔
مچھلی کا شکار ان کا قدرتی ذریعۂ معاش تھا۔ یہ قوم نسلاً بنی اسرائیل سے
تعلق رکھتی تھی جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد قریباً 1100 ق م میں اس
خطے میں آ کر آباد ہو گئی تھی۔ بنی اسرائیل کے ہاں موسیٰ علیہ السلام کے
زمانے سے ’یومِ سبت‘ (سنیچر کا دن) خاص اہمیت کا حامل ہے اور متبرک سمجھا
جاتا تھا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اُمت میں عبادتِ الٰہی کے لیے ہفتہ کے
سات دنوں میں سے جمعتہ المبارک کا دن مقرر فرمایا تھا۔ بعدازاں حضرت موسیٰ
علیہ السلام کے زمانے میں بنی اسرائیل نے اپنی روایت کج روی کی بناء پر
اپنے پیغمبر سے اصرار کیا کہ ان کے لیے ہفتے (سنیچر) کا دن برائے عبادت
مقرر کیا جائے۔ ہر چند موسیٰ علیہ السلام نے انہیں اس مطالبے سے باز رکھنا
چاہا لیکن ان کا اصرار حد سے تجاوز کر گیا۔
آخر بذریعہ وحی الٰہی موسیٰ علیہ السلام کو اطلاع دی گئی کہ اﷲ تعالیٰ نے
بنی اسرائیل کے اصرارِ بے جا پر ہفتے کے دن کو جمعہ کا قائم مقام مقرر کر
دیا ہے۔ آپ انہیں مطلع کر دیں کہ وہ اپنے اس مطلوبہ دن کی عظمت کا پاس و
لحاظ کریں اور اس کی حرمت کو قائم رکھیں‘ ہم اس دن میں ان کے لیے
خریدوفروخت‘ زراعت و تجارت اور شکار حرام کرتے اور اسے صرف عبادت کے لیے
مخصوص کرتے ہیں۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے ’سبت‘ کے بارے میں بنی
اسرائیل سے عہد واثق لیا کہ وہ اس کی حرمت کو برقرار رکھیں گے اور عبادتِ
الٰہی کے سوا ان افعال کو اس دن اختیار نہیں کریں گے جنہیں اﷲ تعالیٰ نے ان
پر حرام کر دیا ہے۔
’’اور ہم نے ان (بنی اسرائیل) سے کہا سبت (ہفتہ) کے بارے میں حد سے نہ
گزرنا (خلاف ورزی نہ کرنا) اور ہم نے ان سے اس کے متعلق بہت سخت قسم کا
عہدو پیمان لیا۔‘‘ (النساء:22-6)
سبت کی حرمت کے متعلق موسوی قانون میں بنی اسرائیل کو کیا ہدایات دی گئی
تھیں‘ تورات انہیں یوں بیان کرتی ہے:
’’پھر خداوند نے موسیٰ علیہ السلام سے ہم کلام ہو کر کہا تو بنی اسرائیل کو
کہہ دے کہ تم میرے سبتوں کو مانو اس لیے کہ یہ میرے اور تمہارے درمیان
قرنوں میں نشانی ہے تاکہ تم جانو کہ میں خداوند تمہارا پاک کرنے والا ہوں۔
پس تم سبت کو مانو اس لیے کہ وہ تمہارے لیے مقدس ہے جو کوئی اس کو پاک نہ
جانے‘ وہ ضرور مار ڈالا جائے جو اس میں کچھ کام کرے‘ وہ اپنی قوم سے کٹ
جائے۔ چھ دن کام کرنا لیکن ساتوں دن آرام کے لیے سبت ہے (اور) وہ خداوند کے
لیے مقدس ہے۔ پس بنی اسرائیل سبت کو مانیں اور اسے اپنی پشت در پشت عہد
ابدی جان کر اس میں آرام کریں۔ میرے اور اسرائیل کے درمیان یہ علامتِ ابدی
ہے۔‘‘ (خروج باب 31 آیات 17-12)
طویل مدت تک بنی اسرائیل اپنے مطلوبہ روزِ عبادت (سبت) کی عزت و حرمت میں
خدا کے لیے ہوئے عہدو پیمان پر قائم رہے اور جن باتوں کو اس دن میں حرام
قرار دیا گیا تھا‘ ان سے بچتے رہے مگر آہستہ آہستہ ان کی روایتی کج روی اور
متمردانہ سرکشی بروئے کار آتی گئی‘ وہ سبت سے متعلق اﷲ تعالیٰ کے احکامات
کی خلاف ورزی کرنے لگے۔ شروع میں یہ خلاف ورزی انفرادی اور خفیہ طریق پر
ہوئی مگر شدہ شدہ اس نے علی الاعلان جماعتی حیثیت اختیار کر لی چونکہ مچھلی
کا شکار ان کا محبوب معاشی مشغلہ تھا لہٰذا بنی اسرائیل اسی کی خریدوفروخت
کا کاروبار بھی کرتے تھے۔
ہفتے کو وہ عبادتِ الٰہی میں مصروف رہتے‘ قدرتی طور پر مچھلیاں پورے چھ دن
تو جان بچانے کی خاطر پانی کی تہ میں پوشیدہ رہنے لگیں اور ساتویں یعنی سبت
کے روز بلاخوف سطح آب پر تیرنے لگتیں۔ یہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے بنی اسرائیل
کے لیے ایک آزمائش اور قوتِ ایمانی کا امتحان بھی تھا۔ رفتہ رفتہ سبت کے
علاوہ باقی دن مچھلیوں کو پکڑنا مشکل تر ہو گیا یہاں تک کہ چھٹے دن یہ
کیفیت ہو جاتی کہ گویا پورے قلزم میں مچھلی کا نام و نشان باقی نہیں رہا
مگر سبت کے روز وہ اس کثرت سے پانی پر تیرتی نظر آتیں کہ جال اور کانٹے کے
بغیر محض ہاتھوں سے بھی بآسانی گرفت میں آ سکتی تھیں۔
کچھ دن تک تو بنی اسرائیل صورتِ حال کو صبر آزما طریقے سے دیکھتے اور
برداشت کرتے رہے‘ آخر صبر کا دامن ہاتھوں سے چھوٹ گیا۔ ان میں سے بعض نے
ایسے حیلے ایجاد کر لیے کہ ان سے یہ بھی ظاہر نہ ہو سکے وہ سبت کے احکام کی
خلاف ورزی کر رہے ہیں اور سبت کے دن مچھلیوں کی کثرتِ آمد سے بھی فائدہ
اُٹھا لیں۔ بعض نے یہ کیا کہ جمعہ کی شام سمندر کے قریب گڑھے کھود لیتے جب
کے روز سطح آب پر مچھلیاں تیرنے لگتیں تو وہ نالیاں کھول دیتے تاکہ پانی
گڑھوں میں چلا جائے اس طرح مچھلیاں بھی پانی کے بہاؤ کے ساتھ ان میں چلی
جاتیں جب سبت کا دن گزر جاتا تو ایک شنبہ (اتوار) کی صبح مچھلیاں گڑھوں سے
نکالتے اور کام میں لاتے۔
بعض یہ کرتے کہ جمعہ کے روز سمندر میں جال اور کانٹے لگا آتے تاکہ سبت کے
روز ان میں مچھلیاں پھنس جائیں۔ اتوار کی صبح وہ جالوں اور کانٹوں پر بڑے
مسرور نظر آتے تھے جب ان کے علمائے حق اور مخلصین اُمت نے انہیں اس حرکت سے
روکا تو انہوں نے معترضین کو یہ جواب دیا:
’’خدا کا حکم یہ ہے کہ سبت کے دن شکار نہ کرو لہٰذا ہم اس کی تعمیل میں
بروز سبت نہیں اتوار کے دن مچھلیاں پکڑتے ہیں۔ رہی ہماری ’’ترکیبیں‘‘ ان کی
بابت خدا نے کچھ نہیں کہا۔‘‘
اگرچہ ان کا دل اور ضمیر اس پر ملامت کرتا تھا مگر کج روی یہ جواب دے کر
دنیاداروں کومطمئن کر دیتی کہ ان کا حیلہ خداکے ہاں ضرور چل جائے گا۔
اصل بات یہ تھی کہ وہ صداقت و سچائی کے ساتھ دین کے احکام پر عمل کرنا نہیں
چاہتے تھے اسی لیے شرعی حیلے نکال کر بے دینی کے الزام سے بچنے کی کوششیں
کرنے لگے۔ یہ طرزِ عمل دوسروں کو بھی گمراہ کرنے کا سبب بنا جب ان چند حیلہ
ساز انسانوں کی حرکت کا علم دوسرے حیلہ جو افراد کو ہوا تو وہ بھی ان کی
تقلید کرنے لگے۔ آخرکار بنی اسرائیل کی بڑی جماعت ببانگِ دہل حیلوں کی آڑ
میں حرمتِ سبت کی خلاف ورزی کرنے لگی۔
ان کی حرکاتِ بد دیکھ کر بستی کی ایک سعادت مند جماعت نے کمرِ ہمت باندھی
اور انہیں بدعملی سے باز رکھنے کی کوششیں کیں مگر گناہ گاروں نے کچھ پروا
نہ کی اور اپنی حرکت پر قائم رہے۔ اس پر سعادت مند جماعت کے دو حصے ہو گئے۔
ایک نے دوسرے سے کہا:
’’ان لوگوں کو نصیحت کرنا اور سمجھانا بے کار ہے‘ یہ باز آنے والے نہیں۔ یہ
اس کام کو گناہ سمجھ کر کرتے تب تو یہ توقع تھی کہ شاید کسی وقت تائب ہو
جائیں لیکن یہ تو شرعی حیلے تراش کر اپنی بدعملی پرنیکی کا پردہ ڈالنا
چاہتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ بہت جلد ان پر خدا کا عذاب آنے والا ہے لہٰذا
اب ان سے کوئی تعرض نہ کرو۔‘‘
یہ سُن کر سعادت مند جماعت کے دوسرے حصے نے کہا:
’’ہم اس لیے انہیں برابر نصیحت کرتے رہنا چاہتے ہیں کہ روزِ قیامت اپنے
پروردگار کے سامنے یہ عذر پیش کر سکیں کہ ہم نے آخر وقت تک ان کو سمجھایا
اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کیا لیکن انہوں نے ہماری بات نہ مانی۔ نیز
ہم مایوس نہیں بلکہ توقع رکھتے ہیں کہ عجب نہیں یہ کبھی راہِ راست پر آ کر
اس بدعملی سے باز آ جائیں۔‘‘
بہرحال حیلہ جُو جماعت اپنے حیلوں پر قائم رہتے ہوئے حرمتِ سبت اور شکار کی
ممانعت کے احکام سے قطعاً غافل ہو کر اپنی بدعملیوں میں مشغول رہی…… اب
غیرتِ حق حرکت میں آئی اور مہلت کے قانون نے گرفت کی صورت اختیار کر لی۔ اﷲ
تعالیٰ کا یہ حکم جاری ہو گیا کہ جس طرح تم نے میرے قانون کی اصل شکل و
صورت حیلوں کے ذریعے مسخ کر دی‘ قانونِ پاداش عمل کے مطابق اسی طرح تمہاری
شکل و صورت بھی مسخ کی جاتی ہے تاکہ دوسرے لوگ عبرت و بصیرت حاصل کر سکیں۔
چنانچہ حضرتِ حق جل مجدہ نے ’کُن‘ کے اشارے سے انہیں بندر اور خنزیر کی
شکلوں میں مسخ (تبدیل) کر دیا اور وہ انسانی شرف سے محروم ہو کر ذلیل و
خوار حیوانوں میں تبدیل ہو گئے۔
مفسرین لکھتے ہیں کہ امربالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے والی
سعادت مند جماعت نے جب دیکھا کہ سرکش جماعت کسی طرح حق پر کان نہیں دھرتی
تو مجبور ہو کر ان سے ترکِ تعلق کر لیا۔ کھانا پینا‘ خریدوفروخت غرض ہر قسم
کا اشتراکِ عمل ختم کر دیا گیا حتیٰ کہ اپنے مکانوں کے دروازے تک ان پر بند
کر دیئے تاکہ کسی قسم کا کوئی رابطہ نہ رہے۔ چنانچہ جس دن بدکرداروں پر
عذابِ الٰہی نازل ہوا تو اس صالح جماعت کو گھنٹوں ان کے حال کی خبر نہ
ہوئی۔
جب کافی وقت گزر گیا اور اس جانب سے کسی انسان کی نقل و حرکت‘ کوئی صدا آتی
محسوس نہ ہوئی تو انہیں اندیشہ ہوا کہ معاملہ دگرگوں ہے…… جب وہ اپنے گھروں
سے نکل کر وہاں گئے تو دیکھا…… صورتِ حال اتنی عجیب تھی کہ وہ اس کا تصور
بھی نہیں کر سکتے تھے یعنی وہاں انسانوں کی جگہ بندر اور خنزیر نظر آئے جو
اپنے عزیزوں کو دیکھ کر ان کے قدموں میں لوٹنے اور اپنی حالتِ زار کا
اشاروں سے اظہار کرنے لگے۔ سعادت مند جماعت نے باحسرت ویاس ان سے کہا:
’’ہم تمہیں بار بار اس خوفناک عذابِ الٰہی سے ڈراتے تھے‘ کاش تم نے ہماری
بات مان لی ہوتی۔‘‘
انہوں نے یہ بات سُنی تو حیوانوں کی طرح سر ہلا کر اقرار کیا اور آنکھوں سے
آنسو بہاتے ہوئے اپنی ذلت و رسوائی کا دردناک نظارہ پیش کرنے لگے اس واقعہ
سے متعلق قرآن پاک کا بیان ہے:
’’اور (اے پیغمبر) بنی اسرائیل سے اس شہر کے بارے میں پوچھو جو سمندر کے
کنارے واقع تھا اور جہاں سبت کے دن لوگ خدا کی ٹھہرائی ہوئی حد سے باہر ہو
جاتے تھے۔ سبت کے دن مچھلیاں پانی پر تیرتی ہوئی ان کے پاس آ جاتیں مگر جس
دن سبت نہ مانتے‘ نہ آتیں۔ اس طرح ہم انہیں آزمائش میں ڈالتے تھے بہ سبب اس
نافرمانی کے جو وہ کیا کرتے تھے اور جب اس شہر کے باشندوں میں سے ایک گرہ
نے (ان لوگوں سے جو نافرمانوں کو وعظ و نصیحت کیا کرتے تھے) کہا‘ تم ایسے
لوگوں کو بے کار نصیحت کیوں کرتے ہو جنہیں (ان کی شقاوت کی وجہ سے)یا تو
خدا ہلاک کر دے گا یا نہایت سخت عذاب میں مبتلا کرے گا۔ انہوں نے کہا ’’اس
لیے کرتے ہیں تاکہ تمہارے پرورگار کے حضور معذرت کر سکیں (کہ ہم نے اپنا
فرض ادا کر دیا) اور اس لیے بھی کہ شاید یہ لوگ باز آ جائیں پھر جب ایسا
ہوا کہ ان لوگوں نے وہ تمام نصیحتیں بھلا دیں جو انہیں کی گئی تھیں تو
ہمارا مواخذہ نمودار ہو گیا۔ ہم نے ان لوگوں کو تو بچا لیا جو بُرائی سے
روکتے تھے مگر شرارت کرنے والوں کو ایسے عذاب میں ڈالا کہ محرومی و نامرادی
میں مبتلا کرنے والا عذاب تھا۔ بسبب ان نافرمانیوں کے جو وہ کیا کرتے تھے
پھر جب وہ اس بات میں حد سے زیادہ سرکش ہو گئے جس سے انہیں روکا گیا تھا تو
ہم نے کہا ’’بندر ہو جاؤ ذلت و خواری سے ٹھکرائے ہوئے۔‘‘ (اعراف پ 9 ع21)
’’(اے پیغمبر) کہہ دیجیے‘ کیا میں تم کو بتاؤں کہ قیامت کے دن اﷲ کے نزدیک
جزا کے اعتبار سے کون سب سے بدتر ہوگا‘ وہ شخص ہوگا جس پر خدا نے لعنت کی
اور اس پر غضب ناک ہوا اور وہ جنہیں بندر اور خنزیر کی شکل میں مسخ کر دیا
گیا اور جس نے ان میں سے شیطان (یا بُت) کی پوجا کی‘ یہی ہیں بدترین ٹھکانے
والے اور سیدھے راستے سے بہت دُور بھٹکے ہوئے۔‘‘ (المائدہ)
مقام کا تعین
جس بستی پر یہ حادثہ گزرا اس کے متعلق قرآنِ عزیز صرف یہ بیان کرتا ہے کہ
وہ لبِ ساحل واقع تھی:
’’القریہ التی کانت حاضرۃ البحر‘‘
’’یعنی وہ بستی ساحلِ سمندر پر واقع تھی۔‘‘
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ سے منقول ہے کہ اس بستی کا نام ایلہ تھا اور
یہ بحرِ قلزم کے ساحل پر واقع تھی۔ عرب جغرافیہ داں کہتے ہیں کہ جب کوئی
شخص طورِ سینا سے گزر کر مصر کو روانہ ہو تو طورِ سینا کی جانب ساحلِ بحر
پر یہ بستی ملتی تھی یا یوں کہہ لیں کہ مصر کا باشندہ اگر مکہ کا سفر کرے
تو راہ میں یہ شہر پڑتا تھا۔ آج کل یہ بندرگاہ خلیج عقبہ میں ایلات (Elat)
کے نام سے اسرائیل کے انتہائی جنوب میں واقع ہے اس کے قریب ہی اردن کی
بندرگاہ عقبہ ہے۔
تبدیلیٔ جنس کی نوعیت
مفسرین کے درمیان یہ مسئلہ عموماً زیر بحث رہا ہے کہ آیا تبدیلیٔ جنس کی
نوعیت ویسے ہی عمل میں آئی جیسی قرآن میں بیان کی گئی یا بھٹکے ہوئے بنی
اسرائیلیوں کو شکست و ریخت اور تحلیل و تجسیم کے کسی خاص عمل سے گزرنا پڑا۔
مشہور طبیب اور ماہرِ فن زکریا رازی نے جذام پر بحث کرتے ہوئے اس کی مختلف
اقسام میں سب سے ردی اور خراب قسم یہ بتائی ہے کہ جسم میں زہر پھیل جانے سے
خون اس درجہ فاسد ہو جاتا ہے کہ وہ اعصاب اور شرائین میں تشنج پیدا کر دیتا
ہے اس وجہ سے مریض کا جسم گھناؤنے اور مکروہ صورت بندر کی طرح نظر آنے لگتا
ہے اور اس درجہ پر پہنچ کر مرض لاعلاج ہو جاتا ہے۔
رازی نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ جذام کے متعلق ان کی یہ تحقیق ذاتی کاوش کا
نتیجہ نہیں بلکہ اطبائے یونان اور قدیم اہلِ فن نے بھی اس کا ذکر کیا ہے……
لہٰذا کیا عجب کہ بنی اسرائیل کی اس جماعت پر خدا تعالیٰ کا عذاب اس طرح
نازل ہوا کہ ایک جانب تو ان کے قلوب مسخ ہو کر انسانی خواص سے محروم ہوئے
دوسری جانب ان کے جسم بدترین جذام کے ذریعے اس درجہ خراب کر دیئے گئے کہ وہ
بندر اور خنزیر کی شکل میں نظر آنے لگے۔
غالباً اسی لیے صحیح احادیث میں آیا ہے کہ جو قومیں حیوانات کی شکل میں مسخ
ہوئیں‘ وہ تین دن سے زیادہ زندہ نہیں رہیں یعنی مسخ کا عذاب ان کے
ظاہروباطن کو اس درجہ فاسد اور گندہ کر دیتا ہے کہ وہ پھر جانبر نہیں ہو
سکتیں اور جلد موت کی آغوش میں چلی جاتی ہیں اس مقام پر یہ شبہ ہو سکتا ہے
کہ مسخ کا عمل ہندوؤں کے عقیدۂ تناسخ (آواگون) سے مماثلت رکھتا ہے ایسا
ہرگز نہیں‘ تناسخ باطل اور فاسد عقیدہ ہے اس کے مطابق روح ایک قالب چھوڑ کر
دوسرے میں چلی جاتی ہے۔ ہندوؤں کے بقول انسانی اعمالِ نیک و بد کی پاداش
میں جون بدلنے کا یہ سلسلہ ازل سے ابد تک یونہی قائم ہے اور رہے گا لیکن
مسخ کی صورت میں نہ روح بدلتی ہے اور نہ قالب بس جسم دوسری ہیئت میں تبدیل
ہو کر موت کی نذر ہو جاتا ہے۔
حضرت ابنِ عباس اور عکرمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کا مکالمہ
حضرت عکرمہ‘ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما کے شاگردِ رشید اور جلیل القدر
تابعی ہیں‘ وہ فرماتے ہیں:
’’ایک مرتبہ میں حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا‘ دیکھا ان
کی گود میں قرآنِ عزیز کھلا ہوا رکھا ہے اور وہ آنسو بہا رہے ہیں۔ یہ دیکھ
کر کچھ دیر تو میں ان کی عظمت کی وجہ سے دُور کھڑا رہا مگر جب کافی وقت گزر
گیا تو مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے قریب جا کر سلام عرض کیا پھر پوچھا:
’’اﷲ تعالیٰ مجھ کو آپ پر قربان کرے‘ یہ فرمایئے کہ آپ کس لیے رو رہے
ہیں؟‘‘
ابن عباس رضی اﷲ عنہما فرمانے لگے:
’’میرے ہاتھ میں تھمکے ہوئے یہ ورق مجھے رُلا رہے ہیں۔‘‘
میں نے دیکھا تو سورۂ اعراف کے ورق تھے‘ پھر مجھ سے فرمایا:
’’تم ایلہ کو جانتے ہو؟‘‘
میں نے عرض کیا کہ :
’’جانتا ہوں۔‘‘
انہوں نے ارشاد فرمایا :
’’اس بستی میں بنی اسرائیل رہتے تھے‘ ان کے ہاں سبت کے دن مچھلیاں پانی کی
سطح پر آ جاتیں اور سبت کے بعد پانی کی تہ میں بیٹھ جاتی تھیں۔ بمشکل ایک
دو ہاتھ آتیں۔ کچھ دن گزرنے پر شیطان نے ان میں سے بعض کو یہ سکھایا کہ اﷲ
تعالیٰ نے بروز سبت مچھلی کھانے سے منع فرمایا ہے‘ مچھلی کے شکار کو منع
فرمایا لہٰذا انہوں نے یہ کیا کہ سبت کے دن خاموشی سے مچھلیاں پکڑ لیتے اور
دوسرے دن کھا لیتے۔ (گویا اصحابِ حیل کے مختلف حیلوں میں سے ایک حیلہ یہ
بھی تھا) جب یہ حیلہ عام ہوا تو اہلِ حق نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ
سبت کے دن مچھلی پکڑنا‘ شکار کرنا اور کھانا سب منع ہے لہٰذا تم اپنی حیلہ
جُوئی چھوڑ ورنہ خدا کا عذاب تمہیں برباد کر ڈالے گا۔
جب سرکشوں پر کوئی اثر نہ ہوا تو دوسری جماعت میں سے ایک جماعت ان سے جدا
ہو کر مع اہل و عیال دُور جا بسی۔ ایک جماعت نے سبت کی خلاف ورزی کو بُرا
تو جانا مگر مخالفین کے ساتھ ہی رہتے بستے رہے اور ان سے ترکِ تعلق نہیں
کیا۔
بالآخر ایک روز امربالمعروف کرنے والی جماعت نے مخالفین کو مخاطب کر کے کہا
کہ:
’’یاتو تم باز آجاؤ ورنہ ہم یقین کرتے ہیں کہ تم پر ضرور کوئی عذاب نازل ہو
کر رہے گا۔‘‘
اس کے بعد حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما نے سرکشوں پر عذاب نازل ہونے کی
تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’اﷲ تعالیٰ نے اس واقعہ میں دو جماعتوں کے انجام کا ذکر فرمایا ہے۔ ایک
سرکش انسانوں کی جماعت جو مسخ اور ہلاک کر دی گئی اور دوسری (ایمنون)
امربالمعروف و نہی عن المنکر کرنے والی جماعت کہ اس نے نجات پائی اور عذاب
سے محفوظ رہی لیکن تیسری جماعت یعنی ساکتین (ایسرون) کا کوئی ذکر نہیں
فرمایا۔ میرے دل میں اس کے متعلق ایسے خیالات آتے ہیں کہ میں انہیں زبان سے
کہنا پسند نہیں کرتا۔‘‘ (یعنی بُرائی کا مقابلہ نہ کرنے کے باعث کیا ان پر
عذاب نازل کر دیا گیا تھا؟)
تب میں نے عرض کیا:
’’میں آپ پر فدا ہو جاؤں‘ آپ اس بارے میں اس قدر پریشان نہ ہوں۔ بلاشبہ
تیسری جماعت بھی نجات پانے والوں میں ہی رہی۔ قرآن شریف ان کے متعلق یہ
کہتا ہے کہ انہوں نے نصیحت کرنے والوں سے یہ کہا کہ تم ایسی جماعت کو کیوں
نصیحت کرتے ہو جس کی بداعمالیوں کی بناء پر خدا تعالیٰ یا تو انہیں ہلاک
کرنے والا یا کسی سخت عذاب میں ڈالنے والا ہے۔ ان کے متعلق قرآن مجید کی یہ
تعبیر صاف بتلا رہی ہے کہ وہ ہلاک نہیں کیے گئے ورنہ ان کا ذکر بھی ہلاک
ہونے والوں ہی کے ساتھ کیا جاتا‘ نجات پانے والوں کے ساتھ نہ ہوتا۔ نیز یہ
جماعت بدکرداروں کی حرکات سے مایوس ہو کر ایسا کہتی تھی اس لیے بھی مستحقِ
عذاب نہیں۔‘‘
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ نے یہ سنا تو بے حدمسرور ہوئے اور آیات کی
اس تفسیر و تعبیر پر حضرت عکرمہ رضی اﷲ عنہ کو خلعت بخشا۔
مسخ شدہ اقوام کا انجامِ دنیوی
جو قومیں اﷲ تعالیٰ کے عذاب سے مسخ کر دی جائیں‘ وہ زندہ نہیں رہتیں بلکہ
تین دن کے اندر اندر انہیں فنا کر دیا جاتا ہے تاکہ ان کی نسل کا سلسلہ
جاری نہ رہے۔ صحیح روایات میں بصراحت آیا ہے:
-1 حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے نقول ہے‘ ہم نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ
وسلم سے دریافت کیا کہ بندر خوک کیا یہود کی مسخ شدہ نسل سے ہیں؟ آپ صلی اﷲ
علیہ وسلم نے فرمایا:
’’نہیں! اﷲ تعالیٰ جب کسی قوم پر مسخ کی لعنت مسلط کرے تو اس کی نسل آگے
نہیں چلاتا۔ یہ جانور تو خدا کی مستقل مخلوق ہیں۔ پس جب یہود پر خدا کا غضب
نازل ہوا تو انہیں ان جانوروں کی شکل میں مسخ کر دیا گیا۔‘‘
ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں:
-2 اﷲ تعالیٰ جب کسی قوم کو مسخ کرتا ہے تو نہ ان کو باقی چھوڑتا ہے اور نہ
ان کی نسل چلتی ہے۔ بندر اور خوک تو مسخ کے واقعہ سے قبل بھی موجود تھے۔
-3 حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ مسخ شدہ انسان تین دن سے
زیادہ زندہ نہیں رہے اور نہ انہوں نے اس درمیان کچھ کھایا پیا اور نہ ان کی
نسل چلی۔
حرام اور حلال
-1 عدی بن عمیرہ سے منقول ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
’’بلاشبہ اﷲ تعالیٰ مخصوص لوگوں کی بداعمالیوں کے نتیجے میں عام لوگوں پر
عذاب نازل نہیں کرتا البتہ جب ان لوگوں کے سامنے جو بُرائی روکنے کی قدرت
رکھتے ہیں‘ علی الاعلان معاصی ہونے لگیں اور وہ نہ ربکیں تو بے شک خدا اپنا
عذاب خاص و عام سب پر نازل کر دیتا ہے۔‘‘
-2 ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ سے منقول ہے کہ حضورِ اکرم نورِ مجسم صلی اﷲ
علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص کسی کو بُرا عمل کرتا دیکھے تو اسے چاہیے کہ اسے ہاتھ سے روک دے
جو اس کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ زبان سے روکے اور جو اس کی بھی قدرت نہ رکھتا
ہو‘ وہ دل ہی میں اس کو بُرا جانے اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔‘‘
انسان کی گمراہیوں میں سے ایک بڑی گمراہی یہ بھی ہے کہ احکامِ الٰہی سے
بچنے کے لیے وہ حیلے اور بہانے تراش کر حلال کو حرام اور حرام کو حلال
بنانے کی کوشش کرتا ہے اس طرح وہ شریعتِ حقہ کے اوامرونواہی کو مسخ کرنے کا
مرتکب ہوتا ہے۔ قرآن اور توریت‘ دونوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود
اس گمراہی میں بھی پیش پیش تھے اسی لیے ان پر مسخ کا عذاب نازل ہوا۔ چنانچہ
نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے قرآن کے بیان کردہ واقع کی روشنی میں اُمت کو
سخت تاکید فرمائی کہ وہ اس عمل سے اپنا دامن بچائے رکھے۔
-3 حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے‘ رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے
فرمایا:
’’ایسی گمراہی کا ہرگز ارتکاب نہ کرنا جس کا یہود نے ارتکاب کیا تھا کہ اﷲ
کی حرام کی ہوئی باتوں کو معمولی حیلوں کے ذریعے حلال کر لیتے تھے۔‘‘
(حالانکہ وہ حلال نہیں ہو جاتی تھیں)
افسوس آج ہم یہ طرزِ عمل بھی اپناتے جا رہے ہیں۔ یہود کی طرح ہم نے بھی اﷲ
کے نافذ کیے ہوئے فرائض سے بچنے کے لیے حیلے تراش لیے مثلاً زکوٰۃ سے بچنے
کے لیے سال پورا ہونے سے پہلے اپنا سرمایہ بینک سے نکلوا لیا اور بعد میں
پھر جمع کرا دیا۔ نیز سود اور شرراب حلال کرنے کی خاطر مختلف تاویلیں گھڑی
جا رہی ہیں۔ جوئے کی مختلف شکلیں تو ملک میں رائج ہیں۔
قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی حکمت کا تقاضہ یہ
ہے:
پاداش عمل از جنسِ عمل یعنی جس انداز کی گمراہی ہے اسی انداز کی سزا بھی دی
جائے چونکہ اصحابِ سبت نے حیلے بہانوں سے سبت کے قانون کو مسخ کر دیا لہٰذا
ان کے لیے سزا بھی ’’مسخ‘‘ ہی کی تجویز ہوئی۔
حافظ ابن کثیر اس حقیقت کا اظہار کچھ یوں بیان فرماتے ہیں:
’’بس جب یہود نے نافرمانی کی تو اﷲ تعالیٰ نے ان کو بندروں کی شکل میں مسخ
کر دیا اور یہ اس لیے کہ ظاہری شکل میں بندر انسان سے زیادہ مشابہ ہے اگرچہ
حقیقت میں وہ انسان نہیں ہیں۔ یہود کے اعمالِ بد اور حیلے ظاہر میں حق کے
مشابہ اور باطن میں مخالف تھے لہٰذا انہیں سزا بھی جنسِ عمل ہی سے دی
گئی۔‘‘
اعاذنا اﷲ من ذالک
(اﷲ ہم سب کو ان چیزوں سے اپنی پناہ میں رکھے)
|