انسان کی حَدِ نظر اور انسان کا حَدِ سفر !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ لُقمٰن ، اٰیت 10 ، 11 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
خلق
السمٰوٰت بغیر
عمد ترونھا والقٰی فی
الارض رواسی ان تمید بکم
وبث فیھا من کل دابة وانزلنا من
السماء ماء فانبتنا فیھا من کل زوج
کریم 10 ھٰذا خلق اللہ فارونی ماذا خلق
الذین من دونه بل الظٰلمون فی ضلٰل مبین 11
اللہ تو وہ خالقِ عالَم ھے جس نے آسمانوں کو بنایا ھے اور اُن آسمانوں کو اُن نادیدہ سہاروں پر اُٹھایا ہوا ھے جن کو تُم نہیں دیکھ سکتے ، وہ وہی خالقِ عالَم ھے جس نے زمین کو بنایا اور تُم کو اپنے اُن ہی نادیدہ سہاروں کے ذریعے اِس بھاگتی زمین کے ساتھ بھاگنے سے بچایا ہوا ھے جن پوشیدہ سہاروں کو تُم نہیں دیکھ سکتے ، وہ وہی خالقِ عالَم ھے جس نے زمین کی ہر جہت میں ہر طرح کے جان دار بناۓ اور پھیلاۓ ہوۓ ہیں اور وہ بلندی سے زمین پر بارش برساتا ھے اور اُن جان داروں کے لیۓ اِس زمین میں نوع بہ نوع چیزیں بھی اُگاتا ھے اور وہ تو وہی خالقِ عالَم ھے جس نے یہ سب کُچھ بنایا ھے ، تُم کہو کہ اُس خالق کی جس بے اختیار مخلوق کو تُم نے اُس کے اقتدار و اختیار میں شریکِ اقتدار و اختیار بنایا ھے اُس مخلوق نے کیا بنایا ھے لیکن حقیقت تو یہ ھے کہ جو لوگ ناانصاف ہوتے ہیں وہ ہمیشہ اسی کُھلی گُم راہی میں جاتے ہیں اور ہمیشہ اسی کُھلی گُم راہی میں رہتے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیتِ بالا میں لفظِ خلق کے بعد دُوسرا لفظ "السمٰوٰت" ھے جو اسمِ مُفرد "سماء" کی جمع کثرت ھے اور عربی لُغت میں "سماء" ہر اُس بلندی کو کہا جاتا ھے جو کسی پستی پر چھائی ہوئی ہوتی ھے اور آسمان بھی چونکہ زمین کے پست وجُود پر چھایا ہوا ھے اِس لیۓ عربی زبان و لُغت میں اِس کے اِس اِسمِ معروف کو سماء کا نام دیا گیا ھے لیکن اٰیتِ ھٰذا میں اُس ایک سماء کی بات نہیں کی گئ ھے جو ھماری زمین پر چھایا ہوا ھے اور ھم جانتے ہیں کہ وہ ایک آسمان ھماری زمین پر چھایا ہوا ھے بلکہ اٰیت ھٰذا میں اُس ایک سماء کے بجاۓ اُن سات سمٰوات کی بات کی گئی ھے جو اللہ تعالٰی نے بناۓ ہوۓ ہیں اور وہ ھماری زمین پر چھاۓ ہوۓ ہیں اور ھم نہیں جانتے کہ وہ سات آسمان ھماری زمین پر چھاۓ ہوۓ ہیں اِس لیۓ اٰیت ھٰذا میں یہ ارشاد فرمایا گیا ھے کہ تُمہاری اِس زمین پر ھمارا یہی ایک آسمان چھایا ہوا نہیں ھے جو تُم کو نظر آتا ھے بلکہ تُمہاری زمین پر ھمارے تُم کو نظر آنے والے اِس ایک آسمان کے علاوہ ھمارے اور بھی چھ آسمان ہیں جو تُمہاری اِس زمین پر چھاۓ ہوۓ ہیں مگر وہ آسمان تُم کو نظر نہیں آتے اور جس طرح تُم کو ھمارے وہ چھ آسمان نظر نہیں آتے اسی طرح تُم کو ھمارے بناۓ ہوۓ وہ سات سہارے بھی نظر نہیں آتے جو ھمارے اِن سات آسمانوں کو اُٹھاۓ ہوۓ ہیں جو سات آسمان تُمہاری زمین پر ھم نے بناۓ ہوۓ ہیں ، اٰیتِ ھٰذا کے الفاظ { بغیر عمد ترونھا } میں یہ مفہوم بھی موجود ھے کہ تُم خود بھی دیکھ رھے ہو کہ یہ آسمان اُن سہاروں کے بغیر قائم ہیں اور یہ مفہوم بھی موجُود ھے کہ یہ آسمان اُس سہاروں پر قائم ہیں جو تُم کو نظر نہیں آتے ہیں لیکن اِس اٰیت میں آنے والے لفظِ { عمد } کا مفہوم وہ ستون نہیں ھے انسان اپنے گھر کی چَھت کو سہارا دینے کے لیۓ استعمال کرتا ھے بلکہ اِس لفظِ "عمد" کا اصل مفہوم انسان کا وہ مُثبت یا مَنفی قصد و ارادہ ھے جس کے تحت وہ کسی مجبور انسان کی مدد کر کے اُس کو ایک قلبی و رُوحانی سہارا دیتا ھے یا پھر وہ انسان کسی دُوسرے انسان کو ذہنی و جسمانی اذیت سے دوچار کر کے اُس کا اطمینان و سکون ہی غارت کردیتا ھے ، انسان جو ستونی سہارا اپنی چھت کے لیۓ استعمال کرتا ھے اُس سہارے کو دیکھا جا سکتا ھے لیکن جو سہارا وہ ایک دُوسرے انسان کو دیتا ھے اُس سہارے کو صرف محسوس کیا جا سکتا ھے اور "عمد" کا یہی لفظ ھے جس سے قتلِ عمد کی وہ قانُونی اصطلاح وضع ہوئی ھے جس سے اُس مُجرم کا قصد و ارادہ مُراد ہوتا ھے جس قصد و ارادے کے ساتھ اُس نے وہ قتل کیا ہوتا ھے ، عُلماۓ روایت چونکہ زیادہ تر انسانی گھروں کے ستون ہی دیکھتے رہتے تھے اِس لیۓ اُنہوں نے عمد سے وہی ستون مُراد لیۓ ہیں جو اُن کے مُشاھدے میں موجُود تھے لیکن اُن کی یہ مُراد قُرآنِ کریم کے مقصدی مفہوم کے مطابق نہیں ھے ، اسی طرح اٰیتِ بالا میں اسم ارض کے ساتھ اسمِ واحد "راسی" کی جو جمع "رواسی" ھے اُس کے مُتعدد معنوں میں سے ایک معنٰی وہ وزنی دیگ ھے جو وزنی ہونے کی وجہ سے ایک ہی جگہ پر پڑی رہتی ھے اور اِس کے اِن ہی متعدد معنوں میں سے ایک معنٰی وہ زمینی ٹیلا ھے جو سطحِ زمین سے اُونچا ہوتا ھے لیکن اِس کے اِن متعدد معنوں میں کوئی معنٰی جبل یا پہاڑ نہیں ھے اور اِس کا جو معنٰی پہاڑ کیا گیا ھے وہ اِن ذہین و فطین لوگوں نے لُغت کی اُس وزنی دیگ کے وزن اور اُس اُونچے ٹیلے کی اُونچائی کو ذہن میں رکھ کر کیا ھے جو ایک ایسا دُور از کار معنٰی ھے جو قُرآنی الفاظ کے اُس مقصدی مفہوم کو ادا نہیں کرتا ھے جو قُرآن کا مقصود ھے ، عُلماۓ روایت نے زمین میں پہاڑ گاڑنے کے اِس معنی کے حق میں دلیل یہ دی ھے کہ اللہ تعالٰی نے زمین میں یہ پہاڑ اِس لیۓ ڈالے ہیں تا کہ زمین انسان کو لے کر اِدھر اُدھر نہ لُڑھک سکے لیکن یہ بات خلافِ عقل بھی ھے اور خلافِ واقعہ بھی ھے کیونکہ قُرآنِ کریم نے اِس مقصد کے لیۓ جو لفظ استعمال کیا ھے وہ { ان تمید بکم } جو مَد یمد سے کھینچنے کا معنٰی دیتا ھے اور عربی کے جس لفظ کو کھینچ کر پڑھا جاتا ھے اُس پر بھی ایک علامتِ مَد ڈالی جاتی ھے جس کا مطلب یہ ھے کہ ھم نے آسمانوں کو دیۓ جانے والے نادیدہ سہاروں کی طرح زمین کو بھی ایک نادیدہ سہارا دے کر ہَموار کیا ہوا ھے تاکہ وہ خلاۓ بیکراں میں جس طرف جاۓ تُم کو بھی کھینچ کر اپنے ساتھ لے جاۓ اور یہ بات خلافِ واقعہ نہیں ھے بلکہ مطابقِ واقعہ ھے کیونکہ زمین خلا کے درمیان اپنے مدار میں رہ کر سال کے 365 دنوں کے عرصے میں 58 کروڑ 40 لاکھ میل کا جو خلائی سفر کرتی ھے زمین کے اُس خلائی سفر میں زمین پر 60 برس کی عُمر گزارنے والا ہر ایک انسان بھی اِس 60 برس کی مُدت میں زمین کے ہمراہ اربوں میل کا خلائی سفر کرتا ھے اور زمین انسان کو خلا کی کسی منزل میں گراۓ بغیر ہی کھینچ کھانچ کر اپنے ساتھ رکھتی ھے اور زمین کے 25 ہزار میل کے اِس گولے پر بھی اللہ تعالٰی نے 250 میل کا ایک ہوائی غلاف چڑھا رکھا ھے جو زمین کے وجُود سے نہ تو خود الگ ہوتا ھے اور نہ ہی کسی اور جان دار چیز کو الگ ہونے دیتا ھے ، مُدعاۓ کلام یہ ھے کہ آسمان جس سہارے پر قائم ہیں وہ اللہ تعالٰی کا حُکمِ ثبات ھے جو اُن کو دے دیا گیا ھے اور زمین اللہ تعالٰی کے جس سہارے پر قائم ھے وہ بھی اللہ تعالٰی کے حُکم کا ہی ایک مُحکم سہارا ھے اور قُرآن کا مقصد بھی پہلے اللہ تعالٰی کی اُس قُوت و قُدرت کو ظاہر کرنا اور پھر مُشرکینِ سے یہ سوال کرنا ھے کہ اللہ تعالٰی نے تو یہ سب کُچھ بنایا ھے جو تُم سب کو نظرآرہا ھے ، اَب تُم بتاؤ کہ تُم لوگوں نے جن لوگوں کو اللہ تعالٰی کے اقتدار و اختیار میں شریک کر رکھا ھے اُنہوں نے کیا بنایا ھے ، اِس مفہوم کی اِس تفہیم کے مطابق آسمان انسان کے لیۓ ایک حَدِ نظر اور زمین انسان کے لیۓ ایک حَدِ سفر ھے اور انسان حَدِ نظر و حَدِ سفر کی اِن دونوں خدائی حدُود سے باہر نہیں جا سکتا !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 470154 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More