انڈر 21 کھیل ' کھلاڑیوں کی کمپیوٹرائزڈ فہرستیں لازمی قرار دی جائیں

انڈر 21 کے سترہ مختلف کھیلوں کے مقابلے اگلے ماہ پشاور اور چارسدہ میں ہونگے جس میں سات فیمیل جبکہ دس میل کے کھیلوں کے مقابلے مختلف گرائونڈز پر کروائے جائینگے یہ مقابلے کرونا کی وجہ سے گذشتہ دو سالوں سے التواء کا شکار تھے اور اب صورتحال میں بہتری آنے کے بعد ان مقابلوں کا انعقاد کیا جارہا ہے .ان مقابلوں کیلئے پہلے بھی کئی مرتبہ ٹرائلز کئے گئے جس میں صوبے کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے لڑکوں و لڑکیوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی تاہم ان میں بعض لڑکے اور لڑکیاں اب عمر گزر جانے کے بعد رہ جائینگی کیونکہ یہ مقابلے انڈر 21 کے ہیں اور بعض لڑکوں اور لڑکیوں کی عمریں زیادہ ہونے کے باعث اب وہ ان مقابلوں میں شریک نہیں ہوسکیںگے.کم و بیش دو سال بعد منعقد ہونیوالے ان مقابلوں میں سات ہزار کے قریب کھلاڑی شریک ہونگے .جس سے توقع کی جارہی ہیں کہ انڈر 21 میں ایک نیا ٹیلنٹ سامنے آئے گا.خدا کرے یہ مقابلے جس مقصد کیلئے کروائے جارہے ہیں ان سے یہ مقصد پورا ہو اور کھلاڑیوں کی ایک نئی کھیپ صوبے کو ملے جو کہ مختلف کھیلوں میں ہوں اور وہ صوبائی ' قومی اور بین الاقوامی سطح پر صوبے کی نمائندگی کرے .
اب تک کئے جانیوالے مختلف مقابلوں میں سب سے زیادہ شکایت صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو یہی آئی ہیں کہ بعض مقابلوں میں زیادہ عمر کے کھلاڑی کھیلے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف سپورٹس ڈائریکٹریٹ کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا بلکہ بعض اوقات شرمندگی بھی اٹھانی پڑی .جس کی سب سے بڑی مثال حال ہی میں پاکستان سپورٹس بورڈ کے زیر انتظام ہونیوالے اتھلیٹکس کے مقابلے تھے جو کہ پشاور سپورٹس کمپلیکس میں کروائے گئے جن میں پی پی پی کی دور کی سپیکر اور موجودہ پی ٹی آئی حکومت کی وزیر بین الصوبائی رابطہ فہمیدہ مرز ا تھی- مقابلوں کے دوران یہ شکایت آئی کہ بعض کھلاڑیوں کے ہوتے ہوئے دوسرے کھلاڑیوں نے مقابلوں میں حصہ لیا اور پھر سپیکر خیبر پختونخواہ اسمبلی مشتاق غنی کے سامنے پنجاب کے کھلاڑیوں نے احتجاج کیا ' حالانکہ پنجاب کے کھلاڑیوں نے بھی زائد العمر کھلاڑیوں کو کھلایا تھا لیکن انہوں نے اس کیلئے کاغذی کاروائی پوری کی تھی اور کاغذات میں کم عمر کھلاڑی بتائے گئے جس کا انہوں نے فائدہ اٹھایا لیکن نقصان ہمارے صوبے کا ہوا جس میں زائد العمر کھلاڑیوں کو کھیلنے کا موقع دیا گیا جس کا پتہ چلنے پر بڑا ایشو بنایا گیا ' جس کی میڈیکل رپورٹ بھی بننی ہے اور صوبوں کے مختلف سپورٹس ڈائریکٹریٹ اس پر کب عمل کرینگی یہ ایک الگ سوال اور بحث ہے.
اس وقت صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ سمیت کسی بھی سرکاری و پرائیویٹ سکول میں کسی کے پاس اس حوالے سے کوئی رپورٹ ' سروے ' ڈیجیٹل رپورٹس نہیں کہ کن کن کھیلوں میں کونسے کھلاڑی ان سکولوں سے کھیل رہے ہیں ' یہی صورتحال اس طرح سے بھی ہے کہ سکولوں کے گرائونڈز کے بارے میں بھی معلومات بالکل نہیں کہ اندرون شہر پشاور سمیت صوبے کے کن اضلاع میں واقع سرکاری سکولوں میں کھیلوں کی کون کونسی سرگرمیاں چل رہی ہیں ' اگر سرگرمیاں نہیں چل رہی تو پھر ان سکولوں میں گرائونڈز کتنے ہیں ' ان سکولوں کو ملنے والا سپورٹس فنڈز کتنا ہے اور اب تک کتنے کھلاڑی مختلف کھیلوں سے ان سکولوں سے نکل چکے ہیں اس بارے میں مکمل طور پر خاموشی ہیں . اور نہ ہی ابھی تک کسی نے اس کی ضرورت محسوس کی ہے کہ کم از کم یہ معلومات تو کسی کے پاس ڈیجیٹل فارمیٹ میں ہوں کہ کس عمر کے کھلاڑی کونسا کھیل کھیل رہے ہیں تقریبایہی صورتحال پرائیویٹ سکولوں کی بھی ہے ان میں ایسے سکول بھی شامل ہیں جن کے پاس صرف چار کمرے ہیں اور وہ سکول چلا رہے ہیں مگر اس میں بھی سپورٹس کی سرگرمیاں نہیں ہورہی
اس صورتحال کاسب سے بڑا فائدہ وہ کالجز اور تعلیمی ادارے اٹھا رہے ہیں جو کھیلوں کے نام پر کھلاڑیوں کو ایڈمشن تو دے دیتے ہیں مگر پھر ان کھلاڑیوں کو کھیلنے کے مواقع نہیں دئیے جاتے جس کی وجہ سے یہ ایک شکایت عام ہے کہ ایک مخصوص کالج سے تعلق رکھنے والے طلباء و طالبات ہر کھیل میں کھیل رہے ہیں ' اتھلیٹکس سے لیکر ' فٹ بال ' ہاکی ' فٹ سال' بیڈمنٹن ' ٹیبل ٹینس ' کرکٹ ' والی بال ' باسکٹ بال سمیت تمام کھیلوں میں ایک ہی کالج کے مخصوص کھلاڑی حصہ لے رہے ہیں اوریہی شکایت فیمیل کھلاڑیوں کی سب سے زیادہ ہے جن کے اساتذہ صرف اپنے نام اور ٹی اے ڈی اے کی خاطر چند کھلاڑیوں کو ہر کھیل میں ایڈجسٹ کروا دیتی ہیں اور یہ ایک روٹین کی شکایت ہے جس پر ابھی تک کسی نے توجہ نہیں دی.
آج سے بیس سال قبل اگر کسی مخصوص کالج کے کھلاڑی بشمول میل و فمیل سب کھیلوں میں حصہ لیتے تو پھر بھی کوئی بات ہوتی لیکن آج یعنی سال 2021 میں بھی ایسے کھلاڑی موجود ہیں جو تقریبا چار سے پانچ کھیلوں میں حصہ لے رہے ہیں اور اس کی بڑی وجہ کھیلوں سے وابستہ اساتذہ کی تن آسانی اور سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی بھی غلطی ہے کہ وہ ان سے پوچھیں کہ آخریہ سارے کھلاڑی دوسرے کھیلوں میں کس طرح حصہ لے رہے ہیں ' کھیلوں میں حصہ لینے والے کھلاڑیوں کو شائد ا س بارے میں پتہ نہیں ہوتا لیکن مخصوص لوگ دیگر کھیلوں کے ٹی اے ڈی اے کھا جاتے ہیں اسی طرح سپورٹس کٹس سمیت شوز بھی مخصوص لوگوں میں تقسیم ہو جاتے ہیںحالانکہ مختلف کھیلوں کے مختلف شوز اور کٹس سمیت ٹی اے ڈی اے ہوتا ہے لیکن ..
اگلے ماہ ہونیوالے انڈر 21 کے ان مقابلوں میں اس طرح کی شکایات سے بچنے کیلئے سپورٹس ڈائریکٹریٹ سمیت کھیلوں کی ایسوسی ایشنز کو اس بارے میں کمپیوٹرائزڈ فارمیٹ بنانے کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف کھلاڑیوں کا پتہ چل سکے کہ کس علاقے سے کونسے کھیل میں سب سے زیادہ کھلاڑی ہیں اور ان کی عمریں کیا ہیں اس طرح ان کی ضروریات سمیت ان کی تربیت کا بھی آسانی سے پتہ چل سکے گا اور یوں کم عمری سے صوبے کو کھیلوں کے مختلف شعبوں میں کم عمر کھلاڑی مل سکیں گے جنہیں سپورٹس ڈائریکٹریٹ براہ راست یا پھر ایسوسی ایشنز کے تعاون سے انہی علاقوں میں تربیت فراہم کرسکے گی .یہ ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ اور آن لائن ہونا چاہئیے تاک کسی بھی وقت پتہ چل سکے کہ کہیں پر ایک کھلاڑی دوسرے کھیل میں تو حصہ نہیں لے رہے.ابھی تو یہ حال ہے کہ ایسی ایسوسی ایشنز بھی ہیں جس پر والدین قابض ہیں اور ان کے بچے کھلاڑی بھی ہیں ' کوچ بھی ہیں اور ٹرینر بھی ہیں ایسے میں نئے کھلاڑی کس طرح پیدا ہونگے اور کس طرح میدا ن میں آئینگے یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے.
صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ خیبر پختونخواہ کو انڈر 21کے ان مقابلوں کے بعد صوبے کے مختلف سکولوں میں اپنے کوچز کی ٹریننگ کا سلسلہ شروع کرنا ہوگا تاکہ صرف پشاور سے تعلق رکھنے والے افراد کا مخصوص کھیلوں پر قبضہ نہ ہو بلکہ صوبے کے دیگر پینتیس اضلاع سے بھی نئے کھلاڑی نئے کھیلوں میں سامنے آسکیں . ابھی تو یہ حال ہے کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ملازمین کاغذات میں دیگر شہروں میں تعینات ہیں مگر وہ سب کے سب پشاور میں ڈیوٹی انجام دے رہے ہیں جس میں زیادہ تر دوستیاں چلتی ہیںاورانہی دوستیوں کی وجہ سے وہ صرف صوبائی دارلحکومت پشاور تک ہی محدود ہیں-صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے کھیلوں کے ایک ہزار سہولیات منصوبے کے دیگر علاقوں میں سینکڑوں گرائونڈز بن چکے ہیں جہاں پر سہولیات بھی میسر آنا شروع ہوگئی ہیں اب اگر ان کوچز کو جس کھیل کیلئے لیا گیا ہے انہیں تربیت فراہم کرنے کیلئے دیگر شہروں میں بھیجا جائے اور ان کی حاضری بھی کمپیوٹرائزڈ تعلیمی اداروں کی طرح یقینی بنائی جائے اور انکی پروموشن بھی کارکردگی کی بنیاد پر ہو تو پھر یہی کوچز نہ صرف اپنی پروموشن کے ڈر سے ریکارڈ بھی کمپیوٹرائزڈ بنائیں گے بلکہ وہ کھیلوں کے فروغ کیلئے انفرادی طور پر بھی کام کرینگے جس سے صوبے میں کھیلوں سے وابستہ افراد کی تعدا د میں اضافہ بھی ہوگا اور مثبت سرگرمیاں بھی بڑھ جائینگی.
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 420454 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More