حکمتِ لُقمان اور ترکِ شرک و اختیار شُکر !!

#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَہِ لُقمٰن ، اٰیت 12 تا 15 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
لقد اٰتینا
لقمٰن الحکمة
ان اشکر للہ ومن شکر
فانما یشکر لنفسهٖ ومن کفر
فان اللہ غنی حمید 12 واذ قال
لقمٰن لابنهٖ یٰبنی لا تشرک باللہ ان الشرک
لظلم عظیم 13 ووصیناالانسان بوالدیه حملته
امه وھنا علٰی وھن وفصٰله فی عامین ان اشکرلی
ولوالدیک الی المصیر 14 وان جٰھدٰک علٰی ان تشرک بی
مالیس لک بهٖ علم فلا تطعھما وصاحبھما فی الدنیا معروفا
واتبع سبیل من اناب الیّ مرجعکم فانبئکم کنتم تعملون 15
ہر تحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق ہوچکی ھے کہ ھم نے لُقمان کو دانائی کا یہ علم دیا تھا کہ تُم اللہ کا اسی طرح سے شُکر اَدا کرتے رہنا جس طرح سے تُم اَب تک کرتے رھے ہو کیونکہ جو انسان اللہ کا شُکر کرتا ھے اُس کی رُوح و نفس میں ایک توازن قائم رہتا ھے اور جو انسان کُفر کرتا ھے تو یہ اَمر بھی ھمارا تصدیق شُدہ ھے کہ کسی انسان کا شُکر یا کُفر اللہ کی عظمت و شان میں کسی کمی یا کسی اضافے کا باعث نہیں ہوتا ، ھم نے لُقمان کو جب حکمت کی یہ اعلٰی تعلیم دے دی تو اُس نے اپنے بیٹے کو سب سے پہلی یہ ھدایت کی کہ تُم اپنی شعوری حیات کی پہلی سانس سے لے کر اپنی شعوری حیات کی آخری سانس تک کبھی اللہ کی ذات کے ساتھ کسی اور ہستی کو شریک نہ کرنا کیونکہ مخلوق کی اپنے خالق کے ساتھ سب سے بڑی ناانصافی یہی ھے کہ وہ اپنے خالق کے اقتدار و اختیار میں مخلوق کے کسی فرد کو شریکِ اقتدار و اختیار بنا لے اور ھم نے تو لُقمان کی اِس تعلیم سے پہلے ہی انسانی فطرت میں بھی یہ بات شامل کردی ھے کہ انسان اپنے دل کے سارے تار اپنی اُس ماں کے قرار سے اور اپنی رُوح کے سارے ساز اپنی اُس ماں کی آواز کے ساتھ جوڑ کر رکھے جس نے اُس کو پہلے ایک مُدت تک اپنے پیٹ میں رکھا ھے ، پھر ایک مُدت تک اپنی گود میں اُٹھایا ھے اور پھر دو برس کی مُسلسل محنت کے بعد اُس کا دُودھ چھڑایا ھے اور جب ایک انسان سمجھ بُوجھ حاصل کرنے کے بعد اپنے عمل میں خود مُختار ہو جاۓ تو وہ اُس وقت بھی اصولِ عام کے مطابق اپنے والدین کی اطاعت کرتا رھے سواۓ اِس کے کہ اگر وہ اُس کو اللہ کے ساتھ کسی ہستی کو شریکِ اقتدار و اختیار بنانے کا حُکم دیں تو وہ بِلا خوف و خطر اُن کے اُس حُکم سے انکار کردے ، تُمہارے پاس ھماری اِن ھدایات پر عمل سے فرار کی کوئی وجہ نہیں ھے کیونکہ تُم سب نے ھمارے پاس آنا ھے اور اپنے اعمالِ حیات کا ہمیں جواب دینا ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کی تعارفی سطُور میں اِس سُورت کے علم و حکمت کے زیرِ عنوان ھم نے جس لُقمان کا جو تعارف کرایا ھے اُس تعارف کے مطابق اُس لُقمان کے اقوالِ علم و حکمت اہلِ عرب میں بھی بہت مشہور تھے اور اہلِ عرب میں زبان و بیان میں فردِ کامل سمجھے جانے والے ایک فرد سوید بن صامت کے پاس تو "مُجلّہِ لُقمان" نام کے سے مشہور ہونے والا ایک مجموعہِ اقوال بھی موجُود تھا جس کا اُس نے بذاتِ خود سیدنا محمد علیہ السلام کے ساتھ ذکر بھی کیا تھا ، لُقمان کا تعلق چونکہ یمن سے تھا اِس لیۓ گمان غالب یہ ھے کہ عربی کا وہ مشہور مقولہ { الایمان یمانی والحکمة یمانیة } بھی شعراۓ عرب میں سے کسی عرب شاعر کا قول رہا ہو گا اور جو بعد ازاں سیدنا محمد علیہ السلام کی ذاتِ گرامی کے ساتھ منسوب ہو گیا ہو گا لیکن اقوالِ لُقمان کی یہ شُہرت کُچھ اہلِ عرب تک محدود نہیں تھی بلکہ اقوالِ لُقمان کی یہ شہرت اہلِ عرب سے نکل کر اہلِ مغرب تک بھی پُہنچی ہوئی تھی اور اسی شہرت کی بنا پر صاحبِ تفہیم القُرآن نے تفہیم القرآن میں دیر نبورگ Derenbourg نام کے اُس مُستشرق کا بھی ذکر کیا ھے جس نے پیرس کے کتب خانے کا ایک مخطوطہ "امثال لُقمان الحکیم" کے نام سے شائع کیا تھا ، ہر چند کہ صاحبِ تفہیم نے اپنی تفہیم کے مطابق اِس مخطوطے کو عربی زبان و بیان کے حوالے سے ایک ناقص اور دُوسری زبان سے ترجمہ کیا گیا ایک کم زور اور جعلی مخطوط قرار دیا ھے لیکن ھمارے نزدیک اِس کی یہی اہمیت کافی ھے کہ وہ جس دُوسری زبان سے نقل کیا گیا ھے وہ کتاب اُس دُوسری زبان میں بھی دُنیا میں کہیں نہ کہیں پر موجُود رہی ھے اور جو بذاتِ خود اقوالِ لُقمان کی عالمی شُہرت کی ایک قوی دلیل ھے تاہَم اقوالِ لُقمان کے اصلی و نقلی کے اِن تاریخی مباحث کے بعد ھمارے نزدیک اقوالِ لُقمان کا وہی ایک گوشہ مُعتبر ھے جس کو قُرآنِ کریم نے رَدِ شرک اور تائیدِ توحید کے ایک مُعتبر تاریخی حوالے کے طور پر نقل کیا ھے اور جس کی بنا پر سیدنا محمد علیہ السلام نے اِس سے یہ استدلال فرمایا ھے کہ توحید کی جس تعلیم کو اہلِ عرب ایک نئی تعلیم کہہ کر رَد کرنا چاہتے ہیں وہ دعوت کوئی جدید دعوت نہیں ھے بلکہ وہی قدیم دعوت ھے جس کا اُس مُجلّہِ لُقمان میں بھی ذکر موجُود ھے جس کی اَمثال اہلِ عرب کے اپنے اقوال میں بھی جابجا موجُود ہیں اِس لیۓ اہلِ عرب کا انکارِ قُرآن اُن کی اپنی تاریخ اور اُن کی اپنی روایات کی بھی ایک کُھلی تکذیب ھے ، قُرآنِ کریم نے اپنی اٰیاتِ بالا میں لُقمان کے جن اقوال اور اُن کی جن اَمثال کو نقل کیا ھے اُن کی بُنیاد اظہارِ شُکر و رَدِ شرک اور اِثباتِ توحید ھے اور قُرآنِ کریم کی بیان کی ہوئی تاریخ کے مطابق اللہ تعالٰی نے لُقمان کو جو حکمت عطا فرمائی تھی اُس کا مقصد جان و ایمان اور رُوح و وجدان کی اُن نعمتوں کا شکر اَدا کرنا تھا جو اللہ تعالٰی نے اُن کو دی ہوئی تھیں مگر یہاں پر قُدرتی طور پر انسان کے سامنے یہ سوال آتا ھے کہ کیا اُن نعمتوں کا شُکر اَدا کرنا مُمکن بھی ھے یا نہیں ھے اور یہ سوال اِس لیۓ سامنے آتا ھے کہ اِن نعمتوں پر اظہارِ تشکر انسان کا ایسا اختیاری عمل نہیں ہوتا ھے کہ اللہ تعالٰی کی کوئی نعمت اچانک یاد آگئی تو اُس کے یاد آنے پر اُس نے زبان سے شکر کا ایک لفظ ادا کر دیا بلکہ اِس کی مثال تو صحراۓ آتش کے اُس مُسافر کی طرح ھے جو پیاس سے نڈھال ہوتا ھے اور اچانک ہی اُس کو ٹھنڈے پانی کا وہ چشمہ مل جاتا ھے جس کی پہلی گھونٹ حلق سے اُترتے ہی اُس کے دل کی گہرائی سے تشکر کی ایک لہر اُبھر کی اُس کی زبان پر آجاتی ھے اور اِس لحاظ سے تشکر اور اظہارِ تشکر انسان کا ایک نفسیاتی مسئلہ ھے جس کے مطابق انسان کو جو نعمت جتنی محنت و مُشقت کے بعد ملتی ھے اُس کا قلبی تشکر بھی اتنا ہی گہرا اور اتنا ہی بامقصد ہوتا ھے اور اِس اعتبار سے اظہارِ تشکر کے اِس حُکم میں پہلی چیز محنت اور صبر ھے اور اِس محنت کے بعد انسان کو شکر کے لیۓ کسی نعمت کے یاد آنے کی ضروت نہیں ہوتی بلکہ دیانت داری اور ایمان داری سے وہ محنت کرنے کی ضرورت ہوتی ھے جس کا پھل ملتے ہیں انسان سراپا تشکر بن جاتا ھے ، اٰیاتِ بالا میں شُکر اور شرک کو اعمالِ متقابل کے طور پر لایا گیا ھے جس کا مطلب یہ ھے کہ جو انسان صبر اور شکر کو ترک کردیتا ھے تو اُس کو شیطان اتنی ہی آسانی کے ساتھ شرک کی طرف لے جاتا ھے جتنی آسانی کے ساتھ انسان { شکر } کے حرفِ کاف کو حرفِ را کے بعد لے جاتا ھے اور پلک جھپکنے کی دیر میں ہی وہ شُکر کو { شرک } میں بدل دیتا ھے ، یہی وجہ ھے کہ اللہ تعالٰی نے جب لُقمان کو ایک مُعلّم کے طور پر سب سے پہلے جو تعلیم دی ھے وہ شکر کی تعلیم دی ھے جس کا چشمہ اُس کی رُوح میں پہلے ہی موجزن تھا اور لُقمان نے ایک مُعلّم کے طور پر اپنے بیٹے کو سب سے پہلے جو تعلیم دی ھے وہ شرک سے بچنے کی تعلیم دی ھے کیونکہ اُس کے دل میں شُکر کا چشمہ اپنے باپ کی حکیمانہ تربیت کی بنا پر پہلے ہی موجزن ہو چکا تھا اور اُس کو اَب اتنا ہی بتا دینا کافی تھا کہ تُم نے اپنی شعوری حیات کی پہلی سانس سے لے شعوری حیات کی آخری سانس تک شرک کا ارتکاب کبھی بھی نہیں کرنا اور جب لُقمان کے علمی چراغ سے لُقمان کا بیٹا بھی ایک علمی چرغ بن گیا تو اللہ تعالٰی نے اُس کو اُس کی عُمر کے مطابق کتابِ فطرت کا وہ ورق یاد کرایا ھے کہ تُم اپنے دل کے سارے تار اپنی اُس ماں کے قرار اور اپنی رُوح کے سارے ساز اپنی اُس ماں کی آواز کے ساتھ جوڑ کر رکھو جس نے تُم کو پہلے ایک مُدت تک اپنے پیٹ میں اُٹھا کر رکھا ھے ، پھر ایک مُدت تک تُم کو اپنی گود میں اُٹھایا ھے اور پھر دو برس کی مُسلسل محنت کے بعد اُس نے تُم کو اپنے جسم کے خون سے ہٹا کر عام انسانی خوراک پر لگایا ھے ، جہاں تک باپ کا تعلق ھے تو اُس کی اپنی روزی کی کے لیۓ صبح و شام تک کی جانے والی مُشقت اُس بیٹے کے سامنے ہوتی ھے جس سے وہ جان لیتا ھے اُس کی جان پر جتنا احسان اُس کی ماں کا موجُود ھے اتنا ہی احسان اُس کے باپ کا بھی موجُود ھے ، لُقمان کا بیٹا چونکہ لُقمان کی حکیمانہ تربیت سے ماں اور باپ دونوں کے احسانات کو سمجھ چکا تھا اِس لیۓ اللہ تعالٰی نے اُس کو اُس کی عُمر کے مطابق یہ ھدایت کی کہ تُم نے اپنے والدین کا ہر حُکم ماننا ھے سواۓ اِس ایک حُکم کے کہ اگر وہ تُم کو شرک کی تعلیم دیں تو اُس سے انکار کر دینا ، حکمت کے اِن اَحکام میں مخاطب ایک زمانے کا ایک لُقمان اور ایک زمانے کا ابنِ لُقمان ھے لیکن اِن اَحکام کا خطاب ہر زمین اور ہر زمانے کا ہر وہ انسان ھے جس کے پاس ھدایت کے لیۓ اللہ تعالٰی کا یہ آخری اور یہ دائمی حکم نامہ قُرآن ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 558071 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More