#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ لُقمٰن ، اٰیت 16 تا 19
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
یٰبنیّ
انھا ان تک
مثقال حبة من
خردل فتکن فی
صخرة او فی السماء
او فی الارض یات بھااللہ
ان اللہ لطیف خبیر 16 یٰبنیّ اقم
الصلٰوة وامر بالمعروف انه عن المنکر
واصبر علٰی مااصابک ان ذٰلک من عزم الامور
17 ولا تصعر خدک للناس ولا تمش فی الارض مرحا
ان اللہ لایحب کل مختال فخور 18 واقصد فی مشیک
واغضض من صوتک ان انکرالاصوات لصوت الحمیر 19
اے میرے بیٹے ! یاد رکھ کہ خالق کی جس مخلوق کے جس فرد کا جو علمی و مالی
حصہ ہوتا ھے ، چاھے وہ مقدار میں رائی کے ایک دانے کے برابر ہی ہوتا ھے ،
چاھے وہ زمین کی چٹانوں میں چُھپا ہوا ہوتا ھے ، چاھے آسمانوں میں چھپا ہوا
ہوتا ھے اور چاھے وہ زمین کے نہاں خانوں میں چُھپا ہوا ہوتا ھے اللہ اپنی
مخلوق کے اُس فرد کی ضرورت کے مطابق اُس کے اُس علمی و مالی حصے کو جس وقت
چاہتا ھے اُس کو وہاں سے نکال کر اُس انسان کے سامنے لے آتا ھے کیونکہ
عالَم کی ہر تحقیق سے اِس اَمر کی تصدیق ہوچکی ھے کہ اللہ کی جہاں بینی سے
کوئی بھی چیز نہاں نہیں ھے ، اے میرے با صلاحیت بیٹے ! تُم اللہ کے قانُون
کی خود بھی اطاعت کرتے رہنا اور دُوسرے انسانوں کو بھی اِس کی تلقین کرتے
رہنا اور حق کے اِس راستے پر خود چلتے ہوۓ اور دُوسرے انسانوں کو چلاتے ہوۓ
تُم پر حالات کا جو بھی جبر آۓ تُم اُس پر صبر کرتے رہنا اور جب کسی عمل کا
عزم کرلینا تو اپنے اُس عزم پر جسم و جان کی پوری استقامت کے ساتھ قائم
رہنا ، لوگوں کے ساتھ کبھی بھی بے رُخی اختیار نہ کرنا اور زمین پر جب بھی
چلنا تو اعتدال و اعتماد کے ساتھ چلنا کیونکہ زمین پر اللہ کو صرف وقار کی
عالمانہ چال پسند ھے فخر کی جاہلانہ چال پسند نہیں ھے اِس لیۓ تُم زمین
چلتے ہوۓ ہمیشہ ہی اپنی چال میں بامقصد اعتدال قائم رکھنا اور اہلِ زمین کے
ساتھ بات چیت کرتے ہوۓ اپنی آواز میں با مقصد استدلال و استقلال کو بھی
قائم رکھنا اور یہ بات بھی یاد رکھنا کہ زمین پر صرف گدھے کی آواز ہی بے
مقصد و بے وقت بلند ہوتی رہتی ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
حکمت انسان کی جان اور اُس کے وجدان میں پرورش پانے والا وہ ملکہِ افہام و
تفہیم ھے جو اللہ تعالٰی نے اپنی ہر ایک مخلوق کے ہر ایک فرد کو اُس کی
ضرورت کے مطابق دیا ہوا ھے اور اِس ملکہِ تفہیم کا مقصد خالق کی ہر ایک
مخلوق کے ہر ایک فرد کو اُس کی ضروت کے مطابق اُس کی جان اور اُس کے ایمان
کی حفاظت کا اختیار دینا ھے اور اِس حوالے سے اِس حکمت کا سارا مالہ وما
علیہ اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا میں اپنی پوری شرح و بسط کے ساتھ آچکا ھے
تاہَم اگر اِس تفصیل کی مزید تفصیل کی جاۓ تو حکمت کی جمع اگرچہ "حَکم" ھے
لیکن اِس کا ایک مصدر حَکم ھے تو ایک مصدر حُکم بھی ھے جس مطلب یہ ھے کہ
اللہ تعالٰی نے اپنی جس مخلوق کے جس فرد کو بھی فہم و فراست کا یہ ملکہ دیا
ھے وہ کوئی ایسا مُجرد ملکہ نہیں ھے جو صرف اُس کی ذات تک محدُود رہتا ھے
بلکہ وہ ایک ایسا ملکہِ مزید ھے جو فرد کی اپنی مُجرد ذات سے گزر کر اُس کی
ذات سے جُڑے ہوۓ اُن مزید اَفراد تک بھی جاتا ھے جن افراد کو جس وقت اِس
ملکہِ افہام و تفہیم کی ضرورت ہوتی ھے ، تفہیمِ ذات و تربیتِ غیرِ ذات کا
یہی وہ ملکہِ تفہیم تھا جو اللہ تعالٰی نے اپنے بندے لُقمان کو بھی اُس کی
ضرورت کے مطابق دیا تھا اور لُقمان نے اُس کو اللہ تعالٰی کے حُکم اور اپنی
ضرورت کے مطابق استعمال کیا تھا اور لُقمان نے جب اپنے بیٹے کو تفہیم کا یہ
ملکہِ ذات مُنتقل کیا تھا تو اُس کو یہ حُکم بھی دے دیا تھا کہ { لاتصعر
خدک للناس } یعنی تُم ہمیشہ ہی اپنے جذبہِ اخوت و موانست کے ساتھ انسانوں
کے درمیان رہنا اور انسانوں کے ساتھ کبھی بھی بیمار اونٹ کی طرح بے رُخی کا
مظاہرہ کرکے انسانوں سے دُور نہ ہونا ، حکمتِ لُقمان کے اِس حُکم میں
"تصعر" کا جو لفظ آیا ھے اُس کے لُغوی پس منظر کی رُو سے "صعر" اونٹ کی
گردن میں پیدا ہونے والی وہ بیماری ھے جو جس اونٹ کی گردن میں پیدا ہوجاتی
ھے تو وہ اُس اونٹ کی گردن کو ایک طرف موڑ دیتی ھے جس کی وجہ سے اُس کا
مُنہ ہر وقت ایک ہی طرف کو مُڑا ہوا رہتا ھے جس سے {صعرہ خدہ } کا یہ عربی
محاورہ بنا ھے کہ فلاں آدمی نے بیمار اونٹ کی طرح اپنا رُخ اِس طرح ایک طرف
موڑ لیا ھے کہ وہ دُوسری طرف اَب دیکھتا ہی نہیں ھے ، فہمِ لُقمان و تفہیمِ
لُقمان کا یہی وہ ملکہِ ذات ھے جس کا قُرآنِ کریم اٰیات بالا سے پہلی چار
اٰیات میں اور اُن پہلی چار اٰیات کے بعد اَب اِن دوسری چار اٰیات میں بھی
ذکر کیا ھے ، عُلماۓ روایت کہتے ہیں کہ لُقمان نے اپنے کلام میں حکمت کے 12
ہزار دروازے کھول دیۓ تھے جن کو لوگوں نے اپنے کلام اور معاملات میں شامل
کر لیا تھا لیکن ظاہر ھے کہ یہ اُن کا ایسا ہی ایک روایتی مبالغہ ھے جس کے
مطابق لُقمان ہی اِس زمین کے وہ پہلے انسان تھے جنہوں نے پہلی بار اہلِ
زمین میں حکمت و دانائی تقسیم کی تھی اور اُن سے پہلے اہلِ زمین میں کوئی
حکمت و دانائی موجُود ہی نہیں تھی لیکن اِن روایات میں حقیقت وہی ھے جو
قُرآنِ کریم نے اِس سُورت کی اِن 8 اٰیات میں بیان کردی ھے اور جو حقیقت
قُرآنِ کریم نے بیان کردی ھے اُس میں ایک رائی برابر کمی بھی نہیں ہوسکتی
ھے اور ایک رَتی برابر اضافہ بھی نہیں ہو سکتا ھے ، اٰیاتِ بالا میں سب سے
پہلی جو تشریح طلب شئی آئی ھے وہ "اِنہا" کی وہ ضمیرِ اشارہ ھے جس کے بارے
میں عُلماۓ روایت کہتے ہیں کہ اِس ضمیر کا مرجع انسان کی وہ "خطا" ھے جو
قُرآنِ کریم میں تو موجُود نہیں ھے لیکن اُن عُلماۓ روایت کے خیال میں
موجُود ھے کیونکہ اُن کے خیال میں "انہا" کی اِس ضمیر کو راجح الی الخطا
بنانے کے لیۓ یہ کہانی موجُود ھے کہ لُقمان کے بیٹے نے لُقمان سے یہ سوال
کیا تھا کہ اگر میں انسانوں سے چُھپ کر کوئی ایسا گناہ کروں جس کا کسی
انسان کو علم نہ ہو تو اللہ تعالٰی کو کیسے معلوم ہو گا کہ میں نے وہ گناہ
کیا ھے اور عُلماۓ روایت کے مطابق لُقمان نے اپنے بیٹے کے اسی سوال کے جواب
میں کہا تھا کہ اگر تُم کسی چٹان کے سینے میں اُتر کر یا آسمان کی بلندی
میں پُہنچ کر یا پھر زمین کی کسی تہہ میں اُتر کر بھی گناہ کرو گے تو اللہ
تعالٰی تب بھی ضروو جان لے گا تُم نے وہ گناہ کیا ھے لیکن یہ کہانی گھڑتے
وقت کہانی گھڑنے والوں نے اِس بات پر غور نہیں کیا ھے کہ انسان کوئی نیکی
یا بدی کرنے کے لیۓ کسی چٹان کے سینے میں نہیں سما سکتا ، آسمان کی وسعت
میں بھی نہیں جا سکتا اور زمین کی تِہہ میں بھی نہیں اُتر سکتا ، عُلماۓ
روایت کی اِس ضمیر راجع الی الخطا کے بعد اِس اٰیت میں آنے والا دُوسرا
قابلِ تشریح لفظ وہ "صخرة" ھے جو اِس سُورت کی اِس اٰیت کے علاوہ سُورَہِ
کہف کی اٰیت 63 میں بھی آیا ھے اور چٹان کے معنی میں آیا ھے اور عُلماۓ
روایت اپنی روایت کے مطابق چٹان کے اِس لفظ سے بھی یہ دُور کی کوڑی لے آۓ
ہیں کہ صخرة سے مُراد وہ پہاڑ ھے جو سات زمینوں کے نیچے ھے اور اُس پہاڑ پر
کافروں کے گناہ لکھے جاتے ہیں اور وہ پہاڑ ایک مچھلی کی پُشت کے اُوپر ھے
جو پانی کے نیچے اُس چٹان پر موجُود ھے اور وہ چٹان ایک فرشتے کی پُشت پر
رکھی ہوئی ھے جو فرشتہ بذاتِ خود بھی ایک بڑے پَتھر پر کھڑا ھے اور یہ وہی
پتھر ھے جس کا لُقمان نے اپنے بیٹے کو کی جانے والی اِس نصیحت میں ذکر کیا
ھے اور یہ وہ پتھر ھے جو زمین میں بھی نہیں ھے اور آسمان میں بھی نہیں ھے
بلکہ ہوا کے اُس گولے یا بُلبلے پر رکھا ھے جو سات زمینوں کے نیچے گڑے ہوۓ
اُن تین پتھروں کے نیچے موجُود ھے ، اسلام کے اِن مذہبی کاہنوں کی اِن
واہیاتی کہانیوں اور لَغویاتی کہاوتوں سے قطع نظر کر لیں تو حقیقت صرف یہ
ھے کہ حکمتِ لُقمان کے حوالے سے اٰیاتِ بالا میں جو حکیمانہ اَحکام بیان
ہوۓ ہیں اُن کی حکمت ہر زمین اور ہر زمانے کے ہر انسان کے لیۓ عام ھے ، اِن
اَحکام سے جو انسان جتنا علمی و مالہ فیض پانا چاہتا ھے وہ اُتنا ہی علمی و
مالی فیض پا سکتا ھے اور جو انسان علم و مال کے اِس فیض سے جتنا محروم رہنا
چاہتا ھے وہ بھی اتنا ہی محرومِ علم و مال رہ سکتا ھے ، کسی پر کوئی بھی
پابندی نہیں ھے ، اِن اَحکام کی علّتِ غائی انسان کے اُس عمل میں وہ کامل
اعتدال اور اُس کے اُس عزم میں وہ کامل استقلال پیدا کرنا ھے جس سے وہ اپنی
جان اور اپنے ایمان کی حفاظت کر سکے ، اِس سے زیادہ جو کُچھ بھی ھے وہ اہلِ
روایت کا ایک بے مقصد روایتی رویہ ھے ، حکمتِ لُقمان کی اِن نصیحتوں میں
آخری نصیحت وہ میٹھا بول اور وہ دھیما لہجہ ھے جس کی بُنیاد میں گدھے کی بے
تکی آواز کا شور شرابا نہیں ہوتا بلکہ اُس کی بنیاد میں ایک علمی انسان کا
ایک حکیمانہ علمی استدلال ہوتا ھے جو اُس کے علمی و اَخلاقی کمال کی دلیل
ہوتا ھے اور جو اُس کی بات سننے والے کسی انسان کو حق کی طرف لا سکتا ھے !!
|