ابلیس ایک جن ہے جس کی اولاد ہے - قرآن میں ذکر ہے : "وہ
ایک جن تھا جو اپنے پروردگار کے حکم سے باہر ہوگیا - کیا تم اس کو اور اس
کی اولاد کو میرے سوا دوست بناتے ہو حالانکہ کہ وہ تمہارے دشمن ہیں... "
:50: 18 - ابلیس پیکر تکبر , نہایت ہڈدھرم ہے جسکا بسیرا اچھلتے شعلوں پر
مستقل ہو چکا , بلاشبہ اس کے لئے ایک نام متخص ہے - یہ جن وقت کی شروعات ہی
میں ملعون کر دیا گیا اور بے انتہا گستاخی کے باعث دوزخ کی طرف اس وقت
روندا گیا جبکہ کل کائنات کے لئے حساب کتاب کا زمانہ دور مستقبل میں معین
تھا - اللہ نے فرمایا: "نکلو یہاں سے مردود پاجی - اچھی طرح سمجھ لو تمہارے
لئے دوزخ متعین ہو چکا ہے اور ان لوگوں کے لئے بھی جو تمہارے پیروکار ہو
نگے" - 7:18 ابلیس کا ایک ہی گناہ اتنا بھاری تھا کہ اس کی باقی زندگی کا
ہونا یا نہ ہونا بے معنی اور مزید وقت کی توسیع ختم ہے کیونکہ اس نے ہمیشہ
نافرمانی کرنے کی قسم اٹھائی ہے -
ابلیس شیطان کوئی خیالی کردار نہیں بلکہ یہ حقیقی جن, فرشتوں کے دائرہ کار
میں کافی مانا جاتا تھا - یہ عبادت گزار اور خدا کی ذات میں یقین والا تھا
اور یہی وجہ ہے کہ ذلت اور دائمی دوزخ کی فرد جرم عائد ہونے کے بعد بھی وہ
اللہ تعالی سے با تحریم مخاطب ہوا : "کہنے لگا کہ 'میرے پروردگار مجھے اس
روز تک کہ لوگ اٹھائے جائیں مہلت دے- 'فرمایا تجھ کو مہلت دی اس روز تک جس
کا وقت مقرر ہے' - کہنے لگا 'مجھے تیری عزت کی قسم میں ان سب کو بہکاتا
رہوں گا سوائے ان کے جو تیرے خالص بندے ہیں'" 38:80 - سوال اعتراض تو
فرشتوں نے بھی اٹھایا تھا جب "انہوں نے کہا 'کیا تُو اس میں ایسے شخص کو
نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت وخون کرتا پھرے اور ہم تیری
تعریف کے ساتھ تسبیح وتقدیس کرتے رہتے ہیں' - خدا نے فرمایا 'میں وہ باتیں
جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے'" - 2:30 - فرشتے فورا" سجدہ نشین ہوگئے مگر
ابلیس اٹک گیا - اس واقعے کے بعد اس کا ایمان جھوٹ ثابت ہوا اور انجام
قیامت وعید سے بہت پہلے مسلط کر دیا گیا -
"ابلیس نے کہا کہ تو نے مجھے تو ملعون کیا ہی ہے, میں بھی تیرے سیدھے رستے
پر ان کو گمراہ کرنے بیٹھوں گا پھر ان کے آگے سے اور پیچھے سے, دائیں سے
اور بائیں سے, غرض ہر طرف سے آؤں گا اور ان کی راہ ماروں گا, اور تو ان میں
اکثر کو شکر گزار نہیں پائے گا" 7:16 "ابلیس پر لعنت ہے جو خدا سے کہنے
لگا, 'میں تیرے بندوں سے غیر خدا کی نظر دلوا کر مال کاایک مقررہ حصہ لے
لیا کروں گا اور ان کو گمراہ کرتا اور امیدیں دلاتا رہوں گا اور یہ سکھاتا
رہوں گا کہ جانوروں کے کان چیر یتے رہیں اور یہ بھی کہتا رہوں گا کہ وہ خدا
کی بنائی ہوئی صورتوں کو بدلتے رہیں'" 4:118 اسی وقت ابلیس کی گستاخی پر اس
کیلئے جہنم متعین کر دیا گیا - بعد ازاں جب اس نے انسان کو بہکایا, انسان
شرمسار ہوا مگر اللہ نے فرمایا: " تم سب بھشت سے اتر جاؤ اب تم ایک دوسرے
کے دشمن ہو اور تمہارے لئے ایک وقت خاص تک زمین پر ٹکا نہ اور زندگی کا
سامان کر دیا گیا ہے -" 7:24 - نیک فطرت انسانوں و جنوں کیلئے تو معافی کا
وعدہ ہے مگر ابلیس کیلئے ایسا کچھ مخصوص نہیں -
زمین ارادتا" خرافات کا گڑھ بنائی گئی ہے کیونکہ کہ اس میں نفسانی رجحانات
کی آزمائش مطلوب ہے - یہاں ابلیس کے علاوہ شیاطین اور سب سے بڑھ کر انسان
کے اپنے خیالات اس کے دشمن ہیں - ابلیس اور شیاطین اسی وقت کارگر ہوتے ہیں
جبکہ انسان کا ارادہ کمزور پڑتا ہے - جو لوگ حق ا لیقین کے تابع ہیں ان پر
ابلیس کی کاریگری نہیں چلتی اور نہ ہی شیاطین انہیں برائی کی طرف آمادہ کر
سکتے ہیں - کچھ بھی ہو انسان اپنے اعمال کا مختار اور خود ذمہ دار ہے -
اللہ تعالی نے فرمایا: " بھلا ہم نےاس کو دو آنکھیں نہیں دیں ؟ اور زبان
اور دو ہونٹ نہیں دیے ؟ یہ چیزیں بھی دیں اور اس کو خیر و شر کے دونوں
راستے بھی دکھا دیئے" 90:10 - ہماری ضمیر کے دو رکن : نفس لوامہ 75:2 اور
نفس امارہ 12:53, اچھائی برائی کی تمیز سکھا نے اور انسان کی رہبری کے لئے
ہمہ تن رہتے ہیں - نیک فیصلوں کی تصدیق نفس مطمئنہ 89:27 کے سپرد ہے -
زمین پر وسائل زندگی کے ساتھ آزمائش کا سامان شیطان سیرت انسانوں اور جنوں
کی صورت میں موجود عید ہے - اللہ تعالی فرماتے ہیں "اسی طرح ہم نے شیطان
سیرت انسانوں اور جنوں کو ہر پیغمبر کا دشمن بنا دیا تھا وہ دھوکا دینے کے
لیے ایک دوسرے کے دل میں ملعمہ کی باتیں ڈالتے رہتے تھے اور اگر تمہارا
پروردگار چاہتا تو ایسا نہ کرتے" 6:113 - اس کے علاوہ ارشاد ربانی ہے "اور
شیطان لوگ اپنے رفیقوں کے دلوں میں یہ بات ڈال دیتے ہیں کہ تم سے جھگڑا
کریں اور اگر تم لوگ ان کے کہے پر چلے تو بے شک تم بھی مشرک ہوئے" 6:122
اسی درمیان یہ آیت بھی ہے: "بہت سے لوگ بے سمجھے بوجھے اپنے نفس کی خواہشوں
سے لوگوں کو بہکا رہے ہیں…" 6:120
یہ طے ہے کہ شیطان صرف اسی وقت کامیاب ہوتا ہے جب انسان خود برائی کی طرف
راغب ہوتا ہے - اس بارے میں ایک دل ہلا دینے والی مثال ہے : "اور ان کو اس
شخص کا حال پڑھ کر سنا دو جس کو ہم نے اپنی آیتیں عطا فرمائں اور ہفت پارچہ
علم شرائع سے مزین کیا تو اس نے انکو اتار دیا پھر (یہاں لفظ 'پھر' کو نوٹ
کیجیئے یعنی جب وہ منحرف ہو چکا تو اس کے بعد) شیطان اس کے پیچھے لگا تو وہ
گمراہوں میں ہوگیا - اگر ہم چاہتے تو ان کے درجات کو بلند کر دیتے مگر وہ
تو پستی کی طرف مائل ہو گیا اور اپنی خواہش کے پیچھے چل پڑا تو اس کی مثال
کتے کی سی ہو گئی کہ اگر سختی کرو تو زبان نکالے رہے اور یوں ہی چھوڑ دو تو
بھی زبان نکالے رہے…" 7:175
اسی طرح سورۃ مائدہ میں درج ہے "اے محمد ان کو آدم کے دو بیٹوں ہابیل اور
قابیل کے حالات جو بالکل سچے ہیں پڑھ کر سنا دو کہ جب ان دونوں نے خدا کی
جانب کچھ نیاز چڑھائی تو ایک کی نیاز تو قبول ہو گئی اور دوسرے کی قبول نہ
ہوئی تب قابیل ہابیل سے کہنے لگا کہ میں تجھے قتل کر دوں گا اس نے
کہا...مگر اس کے نفس نے اس کو بھائی کے قتل ہی کی ترغیب دی اور اس نے اسے
قتل کر دیا…" 5:27,30 ان دونوں بھائیوں کے معاملے میں بھی ابلیس یا دیگر
شیاطین کا کوئی عمل نہ تھا بلکہ قابیل کے نفس نہیں اس کو بہکایا - اللہ
تعالی نے مزید فرمایا : "جس نے اپنے نفس کو پاک رکھا وہ مراد کو پہنچا اور
جس نے اسے خاک میں ملایا وہ خسارے میں رہا" 91:9,10 - ارشاد ہے "اور جو
کوئی خدا کی یاد سے آنکھیں بند کر لے ہم اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں
تو وہ اس کا ساتھی ہو جاتا ہے اور یہ شیطان انکو رستے سے روکتے رہتے ہیں
اور وہ سمجھتے ہیں کہ سیدھے رستے پر ہیں" 43:36,37
اس کے برعکس غزوہ بدر کے دوران شیطان خوب مصروف عمل تھا جس کا ذکر سورۃ
انفال میں یوں ہے "اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو اتراتے ہوئے یعنی حق کا
مقابلہ کرنے کے لئے اور لوگوں کو دکھانے کے لئے گھروں سے نکل آئے اور لوگوں
کو خدا کی راہ سے روکتے ہیں اور جب شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کر
کے دکھائے اور کہا کہ آج کے دن لوگوں میں تم پر کوئی غالب نہ ہوگا اور میں
تمہارا رفیق ہوں لیکن جب دونوں افواج ایک دوسرے کے مقابل صف آرا ہوئیں تو
پسپا ہو کر چل دیا اور کہنے لگا کہ مجھے تم سے کوئی واسطہ نہیں میں تو ایسی
چیزیں دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ سکتے مجھے تو خدا سے ڈر لگتا ہے اور
خدا سخت عذاب کرنے والا ہے" 8:47,48 - یہاں بھی شیطان انہیں لوگوں کو مزید
گمراہ کر رہا ہے جو کہ پہلے ہی گمراہی کے راستے پر ہیں -
جنات کہتے ہیں "اور یہ کہ بعض بنی آدم بعض جنات کی پناہ پکڑا کرتے تھے - اس
سے ان کی سرکشی اور بڑھ گئی" 72:6 - شیاطین کا ذکر یوں ہے کہ "جب پیغمبر
آخر الزمان آئے تو (انسانوں) میں سے ایک جماعت نے خدا کی کتاب کو پیٹھ
پیچھے پھینک دیا گویا وہ جانتے ہی نہیں, اور ان ہزلیات کے پیچھے پڑ گئے جو
سلیمان کے عہد میں شیاطین پڑھا کرتے تھے اور سلیمان نے مطلق کفر کی بات
نہیں کی بلکہ شیطان ہی کفر کرتے تھے…" 2:101 ارشاد ہے : "اور جس دن وہ سب
جن و انس کو جمع کرے گا اور فرمائے گا کہ ا ے گروہ جنات تم نے انسانوں سے
بہت سے فائدے حاصل کیے , تو جو انسانوں میں ان کے دوستگار ہوں گے وہ کہیں
گے کہ پروردگار ہم دونوں ہی ایک دوسرے سے فائدہ حاصل کرتے رہے اور آخر اس
وقت کو پہنچ گئے جو تو نے ہمارے لیے مقرر فرمایا تھا- خدا فرمائے گا اب
تمہارا ٹکانہ دوزخ ہے ہمیشہ اس میں جلتے رہو گے, مگر جو خدا چاہے" 6:128 -
بے شک خیال رہے کہ "شیطان تمہارا دشمن ہے تم بھی اسے دشمن سمجھو - وہ اپنے
پیروؤں کے گروہ کو بلاتا ہے تاکہ وہ دوزخ والوں میں ہوں" 35:6 یعنی گمراہوں
کو مزید گمراہی کے راستے پر ڈالتا ہے - |