خیر خواہی کے ثمرات

وہ بھی کیا دن تھے کہ ابا حضور کے قدموں کی چاپ سنتے ہی گھر بھر کو سانپ سونگھ جاتا تھا۔ ایسا سناٹا کہ سوئی گرنے کی آواز بھی بخوبی سنی جا سکتی تھی۔ ان کے آگے زبان چلانا تو دور کی بات منہ کھولنے کا تصور بھی دشوار تھا۔ ہر معاملے میں ان کی رائے حرف آخر نہیں حرف اول و آخر ہوا کرتی تھی۔ اپنے بچے تو رہے ایک طرف محلہ بھر کے بچوں کا ایک دوسرے کے اباؤں سے پتہ پانی ہوتا تھا۔ چونکہ اس زمانے میں فیملی پلاننگ کا دستور نہیں تھا اس لیے ہر گھر کی اپنی قومی ٹیم ہوا کرتی تھی۔ پورے گھرانے کی کفالت کی ذمہ داری اکیلے ابا حضور کے کندھوں پر ہوتی تھی جن کی آ مدنی عموماً محدود ہوا کرتی تھی اس لیے بے جا خواہشات پوری ہونے کا سوال ہی نہ ہوتا تھا۔نئی نسل کی تہذیب واصلاح کا فریضہ ہر بزرگ اپنا فرضِ منصبی گردانتا تھا۔ بات چیت، چال چلن پر ان کی نگاہیں خفیہ اداروں کی طرح ہر وقت چوکنا رہتی تھیں۔ کس دوست سے ملنا ہے، کب ملنا ہے، کتنا ملنا ہے یہ سارے امور اپنی خواہش کے بجائے بزرگوں کی چشم ابرو کے اشاروں سے طے ہوتے تھے۔ جوتوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں ہمارا مشترکہ المیہ نغمہ ہوا کرتا تھا۔

خیر پابندیوں کے وہ دن بھی گزر گئے اور زمام اقتدار ہماری نسل کے ہاتھوں میں آیا۔ آمدنی کے ذرائع بھی وقت کے ساتھ بڑھے تو خوشحالی نے اکثر گھروں کی حالت بدلی۔ کچھ میڈیا کی کرامات کہیں اور کچھ اپنی ناتمام خواہشوں اور حسرتوں کی تکمیل کا شوق کہ ہم نے اپنی اولادوں کی ہر جائز ناجائز فرمائش پوری کرنا اپنا وطیرہ بنالیا۔ بچوں کو اپنے سے بے تکلف کرنے کے نام پر اپنے سر چڑھانا شروع کر دیا۔ تعلیم و تربیت کی ذمہ داری تعلیمی اداروں اور کوچنگ سینٹروں کے سپرد کر کے خود ہاتھ جھاڑ کر فارغ ہو بیٹھے۔ روک ٹوک کی عادت یہ سوچ کہ ترک کردی کہ اس سے بچہ میں خود اعتمادی کی کمی واقع ہوتی ہےاور اس کی شخصیت متاثر ہوتی ہے۔ چونکہ نماز روزے سے ہم خود دور ہوچکے تھے تو اولاد کو کس منہ سے نیک بننے کی تلقین کرتے۔ مسجد کے مکتب سے دین کی بنیاد رکھنے کا جوتصور ہمارے معاشرے میں پہلے رائج تھا اس کی جگہ قاری صاحبان کی ٹیوشن نے لے لی جس کی بدولت دینی تعلیم و تربیت کا سلسلہ بھی کمزور ہوتا گیا۔ نتیجہ ان سب باتوں کا یہ برآمد ہوا کہ ہماری نئی نسل ہمارے ہاتھوں سے نکلتی جارہی ہے۔ بڑے چھوٹے کی تمیز ختم ہو رہی ہے۔ ادب آداب قصہ پارینہ بنتے جارہے ہیں۔ دینی اقدار روبہ تنزل ہیں۔ تعلیمی ڈگریاں تو بڑھتی جارہی ہیں مگر تربیت کے فقدان کی وجہ سے معاشرتی برائیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ اس معاشرتی گرواٹ کی حالیہ بد ترین مثال اسلام آباد میں ہونے والے نور مقدم کے اندوہناک واقعے سے لی جا سکتی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب خواب غفلت سے بیدار ہوں ۔ اپنی زمہ داریوں کا ادراک کریں اور اپنے خاندانی نظام کو پھر سے مضبوط بنانے کی فکر کریں۔ ہمارے بزرگوں کی پابندیاں اور سختیاں جو ہمیں اس وقت ہمیں زہر معلوم ہوتی تھیں اگر سوچیں تو انہیں میں ہماری بھلائی کا راز مضمر تھا۔ ان کی روک ٹوک نے کتنے ہی بگڑے ہوؤں کو سنبھالا، کتنے ہی بھٹکے ہوؤں کو سیدھی راہ دکھائی۔ خدارا آج ہم اپنی اولادوں کے ساتھ وہی خیر خواہی کارویہ اپنائیں۔ وہی تعلیم وترتیب کے سنہرے اصول اپنائیں تو ان شاءاللہ ہم اپنے معاشرے کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچا سکتے ہیں۔
 

Muhammad Faisal
About the Author: Muhammad Faisal Read More Articles by Muhammad Faisal: 27 Articles with 21683 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.