اخبار کی آٹو بائیو گرافی

یہ مضمون اخبار کے متعلق ہے جس میں خود اخبار اپنے متعلق حقائق آشکار کر رہا ہے کہ میں کیسے وجود میں آیا کیسے میری فیملی بنی۔ اخبار کا ماضی اور مستقبل ان کے درمیان فرق

میرا نام اخبار ہے یوں تو میری پیدائش کو صدیاں بیت گئیں ہیں مگر جب میں نے ہوش سنبھالا تو ملک چین کو آنکھوں کے سامنے پایا۔صحافت نامی گھرانے نے شروع میں مجھے گود لیا تھا اور آج تک ان کے گھر رہتا آرہا ہوں۔میں نے دنیا کے تمام ممالک کا سفر کیا ہے اسی لئے پوری دنیا میں میری اولاد مختلف ناموں سے آباد ہے ۔میرا بنیادی مقصد لوگوں کو باخبر رکھنا ہے میں اپنا یہ فرض پوری مستعدی سے سر انجام دیتا ہوں البتہ کہیں کہیں کوتاہی بھی ہو جاتی ہےمیری اس پھرتی کو دیکھتے ہوئے بہت سے لوگ مجھ سے حسد کرتے ہیں چنانچہ اکثر اوقات قیدو بند کی صعوبتوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔چونکہ میں پیدائشی طور پر تیز طرار واقع ہوا ہوں لہذا صحافتی گھرانے کے افراد اپنی بات میرے کانوں میں ڈال دیتے ہیں میں اس امانت کو لوگوں تک پہنچا دیتا ہوں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میری فیملی میں بھی اضافہ ہوا ہے ٹی وی،ریڈیواور سوشل میڈیا جیسے ہوشیار بھائی بھی اس دنیا میں اپنا نام کے جھنڈے گاڑ چکے ہیں تاہم بڑا بھائی ہونے کے ناطے آج بھی میری بات سنجیدگی کے ساتھ سنی جاتی ہے۔کیونکہ نئ نسل کان اور پیٹ کی کچی نکلی ہے اور ہر ایرے غیرے کے ساتھ دوستی لگا لیتی ہےجو ان کو ذاتی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔بڑی دفعہ سوچا ہےکہ ان کو اپنی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد سے عاق کر دوں مگر اپنے تو اپنے ہوتے ہیں وقت کے ساتھ خاندانی عزت کا احساس ہو جائے گا۔ بچپن میں میرے کپڑے اور رہن سہن کچھ خاص قابل ذکر نہیں تھا غریبی تھی اور حالات بھی سازگار نہیں تھے مگر جیسے ہی جوانی میں قدم رکھا تو میرے رنگ ڈھنگ ہی بدل گئےآج کل رنگ برنگے کپڑے پہنتا ہوں اور میک اپ بھی فیشن کے مطابق کرتا ہوں کیوں کہ جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔ بچپن میں میرا حلقہ احباب بہت کم تھا جوانی کی رنگینیوں کو دیکھتے ہوئے میرے دوستوں میں بھی اضافہ ہوا ہے سیاست سے لیکر مذہب تک کھیل سے لے کر تجارت تک اور تعلیم سے لیکر جرائم تک کے ساتھ محفل رہتی ہے۔ایک دوست ہونے کے ناطے جہاں ان کی تعریف میں زمین آسمان ایک کرتا ہوں وہیں ان کے کمزور پہلوؤں پر کڑی تنقید کا حق بھی رکھتا ہوں ۔سیاست میرا گہرا اور دیرینہ دوست ہے مگر کچھ مظلوم واقع ہوا ہے لہذا اس کے ساتھ ہونے والی ہر زیادتی کے بارے چیخ چیخ کر دنیا والوں کو بتاتا ہوں۔بہت سے لوگ مجھے اہل اقتدار کی باندی قرار دیتے ہیں مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ جہاں میں حاکم وقت کی زبان ہوں وہیں غریب اور مظلوموں کا ہاتھ بھی ہوں۔ مجھے غیر جانبداری کی گھٹی پڑی ہے میں معاشرتی اونچ نیچ کو بالائے طاق رکھ کر ہر مکتبہ فکر کا ترجمان ہوں میرا ہر دلعزیز ہونا اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ مجھے ناشتہ کے ساتھ ہی بلا لیتے ہیں اور دن بھر میری بتائ ہوئی باتیں دہراتے دکھائی دیتے ہیں۔

میں اس معصوم بچے کی مانند ہوں جو اپنا دکھ اور خوشی ہر کسی کے سامنے بیان کر دیتے ہیں میں کبھی اس کڑیل جوان کی مانند بن جاتا ہوں جو مظلوم کی طرف بڑھنے والا ہر ہاتھ کاٹ دیتا ہے۔ حالات کی سنگینی دیکھتے ہوئے عورت کی طرح لمبی زبان بھی رکھتا ہوں اور اس بوڑھے کا دماغ بھی میرے اندر ہے جو زندگی بھر کا تجربہ رکھتا ہے۔

انسانوں کی طرح میں بھی خوش ہوتا ہوں اور میرے اندر بھی بہت سے غم پوشیدہ ہیں کسی بھی اندوہناک واقعہ کا اثر میری پیشانی پر عیاں ہوتا ہے کہیں کوئی شرمناک واقعہ ہو جائے تو میرا انگ انگ اس کے خلاف سراپا احتجاج بن جاتا ہے۔ مجھے دنیا کی عالی شان لائبریریوں میں بھی دیکھا جا سکتا ہے مگر وقت کے بے رحم تھپیڑے پکوڑوں والی دوکان کا رزق بھی بنا ڈالتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
 

Muhammad shams ul haq
About the Author: Muhammad shams ul haq Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.