شیخ صاحب مجھے دیکھ کر کچھ لمحوں کے لئے گھبرائے مگر پھر
سنبھل کر کہنے لگے کہ میں یہاں سے گزر رہا تھا تو یہ بچی تھکی ہوئی تھی ۔
کہنے لگی کہ مجھے چائے پینی ہے۔ تھوڑا سا فالتو وقت بھی تھاتو ہم لوگ یہاں
آ گئے۔میں نے بچی پر نظر ڈالی۔ انیس بیس سال کی نوجوان لڑکی تھی۔ جین کی
پینٹ اور چھوٹے سائز کی قمیض پہنے کچھ کچھ نیم عریاں سا لباس، بولتی آنکھوں
کے ساتھ اس بچی نے خود ہی اپنا تعارف کروانا شروع کر دیا۔ پہلے اس نے اپنا
نام بتایا پھر کہا کہ میں سر کی شاگرد ہوں۔ پچھلے چھ ماہ سے سر کے ساتھ ہی
ہوتی ہوں ۔مجھے کام سیکھنے کا شوق ہے اور اسی شوق کی تکمیل میں سارا دن سر
کو تنگ کرتی ہوں۔یہ کہتے ہوئے اس نے مسکرا کر سر کی طرف دیکھا، مسکراہٹ کا
جواب بھی مسکراہٹ سے ملا۔میں نے بچی کی باتیں سنی ان سنی کر تے ہوئے انہیں
بیٹھنے کا کہا۔بڑھاپے میں قدم رکھتے شیخ صاحب اور خوبصورت جسم کی سجی سنوری
نوجوان لڑکی، دونوں کا اس طرح اکھٹے رہنا مجھے عجیب سا لگا۔ استاد شاگرد
کابھی آپس میں حد سے زیادہ بے باک ہونا تھوڑا مشکوک ہوتا ہے۔ اکٹھے چائے
پینے کے دوران شیخ صاحب کچھ پریشان تھے مگر وہ لڑکی پوری طرح چہک رہی
تھی۔میری پوری توجہ نہ ہونے کے باوجود اس بچی یا نوجوان لڑکی نے مجھے اپنے
اور اپنے خاندان کے بارے بہت کچھ بتایا۔اس کا باپ کہیں باہر دوسرے ملک میں
ملازم تھا اوراس کی ماں بچوں کو لے کر یہاں مقیم تھی۔ وہ لڑکی گھر میں سب
سے بڑی تھی اور کسی حد تک خود مختار تھی۔بتا رہی تھی کہ مجھے سیکھنے کا اس
قدر شوق ہے کہ جب تک سر دفتر سے نہ ہلیں میں گھر نہیں جاتی۔ میری ماں کہتی
ہے کہ جلدی آیا کرو مگر میں کام میں ایسی مگن ہوتی ہوں کہ گھرکا خیال ہی
نہیں آتااور بہت رات ہو جاتی ہے۔ سر کا دفتر گھر ہی میں ہے ۔ زیادہ دیر ہو
جائے تو میں اماں کو فون کرکے وہیں رہ جاتی ہوں۔ اماں کو پتہ ہے کہ سر کے
بیوی بچے بھی وہیں ہوتے ہیں اس لئے وہ خوشی سے اجازت دے دیتی ہیں گھومتی
آنکھوں اور بغیر وقفے سے اس کی باتیں جاری تھیں کہ مجھے اپنے ملنے والے کی
گاڑی نظر آئی اور میں خدا حافظ کہتا وہاں سے نکل آیا۔
یہ ملاقات بس اتفاقی تھی۔مجھے ایک دوست سے ملنا تھا جس نے مجھے اس جگہ
پہنچنے کا کہا تھا۔میں پہنچ تو گیا مگر اس کے آنے میں ابھی آدھ گھنٹے سے
زیادہ وقت تھا۔ گھر جا کر واپس آنے میں دو گھنٹے لگتے۔ سوچا گھر گیا تو
شاید واپس آنے کو جی نہ چاہے ، اگر آیا بھی تو دو ڈھائی گھنٹے لگ جائیں گے
اور مجھے ملنے کے لئے آنے والا لمبے انتظار سے تنگ آ کر شاید واپس چلا جائے
۔یہ سب سوچ کر میں نے گاڑی قریب ہی مقررہ جگہ پرپارک کی اور فیصلہ کیا کہ
سامنے جو ریسٹورنٹ نظر آ رہا ہے اسی میں چائے پی جائے اور آدھ گھنٹے بعد جب
وقت ہو جائے تو باہر واپس آ کر وہیں انتظار کیا جائے۔ریسٹورنٹ میں داخل ہو
کر میں نے اس پر نظر ڈالی۔بڑا ویران سا ریسٹورنٹ تھا چھوٹا سا ویران ہال
مگر ارد گرد بہت سے کیبن تھے ،ان کیبنوں سے جوان جوڑوں کی مہکتی اور چہکتی
آوازیں آ رہی تھیں۔مجھے اندازہ ہو گیا وہ ریسٹورنٹ کسی نے جوان جوڑوں کے
تنہائی میں ملنے ہی کے لئے خاص طور پربنایا ہے۔ جو جگہ باہر ہال میں تھی
وہاں بھی گو میزیں خالی تھیں مگر ان کو اس ترتیب سے لگایا گیا تھا کہ کسی
دوسرے کو معلوم ہی نہ ہو کہ وہاں کون بیٹھا ہے۔شاید ریسٹورنٹ والے کو پردے
داروں کی عزت کا خیال تھا۔میں اس ویران ہال میں بہت ڈھونڈھ کر دروازے کے
قریب ایک ایسی جگہ بیٹھ گیا کہ جہاں سے باہر گزرنے والے ہر آتے جاتے شخص پر
نظر رہے تا کہ اگر میرا دوست وقت سے پہلے آ جائے تو میں سڑک پر اسے دیکھ
سکوں۔میں چائے پی رہا تھا کہ اچانک میرے ایک دیرینہ آشنا شیخ صاحب ایک لڑکی
کے ہمراہ باتیں کرتے اندر آتے دکھائی دئیے۔میں نے احترام سے کھڑے ہو کر ان
کا استقبال کیا اور اپنے ساتھ ہی بیٹھ کر چائے پینے کی دعوت دی۔شیخ صاحب نے
کچھ پس و پیش کی مگر لڑکی نے بڑی باکی سے وہیں یوں شیخ صاحب کی وساطت سے اس
لڑکی سے یہ میری پہلی تعارفی ملاقات تھی۔
پھر ایک دن میں ایک لیکچر میں مدعو تھا۔ لیکچر کے دوران میرے ساتھ بیٹھے
میرے دوست نے کہا کہ ذرہ دائیں جانب سامنے دیکھو، کیا چیز بیٹھی ہے۔ میں نے
نظر ڈالی مردوں کے اس ہجوم میں وہ اکیلی لڑکی اور شیخ صاحب ساتھ ساتھ بیٹھے
تھے۔ شیخ صاحب تو وہی عمر کے لحاظ سے تھکا تھکا چہرہ لئے تھے ، مگر اس لڑکی
کے چہرے پر عمر کے تناسب سے پوری شگفتگی تھی، بڑی نفاست سے کیا گیا میک اپ،
لڑکوں والی انتہائی تنگ پینٹ اور شرٹ جس میں جسم کے سارے خدوخال پوری طرح
نمایاں۔اکیلی لڑکی اور اس قدر ہجوم میں ، ہر شخص حریص نظروں سے اسے دیکھ
رہا تھا۔ اپنی طرف مجھے متوجہ پا کر وہ مسکرائی اور ہاتھ ہلایا۔ میں نے
اپنے دوست کو بتایا کہ وہ ساتھ بیٹھ ہوئے شیخ صاحب کی شاگرد ہے۔ میرا دوست
ہنس کر بولاکیا شیخ صاحب کی بیگم حیات ہیں کیونکہ یہ لڑکی شاگرد کم اور
سراپا دعوت زیادہ ہے، شیخ صاحب کیسے خود کو بچاتے ہوں گے۔ میں نے جواب دیا
کہ میں ایسی باتوں پر کم غور کرتا ہوں ویسے بھی شیخ صاحب کی اپنی بیٹیاں
اور بیٹے اس لڑکی سے بڑے ہی ہوں گے۔ اس لئے میں کیوں غلط سوچوں۔
چند دن بعد وہ مجھے ایک پلازہ میں نظر آئی ۔ مجھے دیکھا تو بھاگتی ہوئی
میرے پاس پہنچ گئی اور کہنے لگی،میں آپ سے ناراض ہوں۔ میں نے اپنے مخصوص
لہجے میں پوچھا، ـ’’کیوں بیٹا، مجھ سے کیا غلطی ہوئی‘‘ جواب ملا کہ اس دن
آپ کے ساتھ ایک صاحب بیٹھے تھے مجھے بڑے برے انداز میں گھورتے رہے آپ نے ان
کو روکا ہی نہیں۔ میں نے اس کی طرف دیکھا آج بھی انتہائی فضول لباس میں وہ
ہر شخص کی نظروں میں تھی۔ میں ہنس کر بولا،معاف کرنا مگرتمہارا یہ لڑکوں
جیسالباس اس دن بھی آج کے لباس کی طرح توجہ دلاؤ تھا۔ توجہ دلاؤ لباس دیکھ
کر کسی کے متوجہ ہونے میں اس کا قصور نہیں، تمہارے لباس کا قصور ہے ایسا
لباس خصوصاً مردوں کی محفل میں تو بالکل بھی نہیں پہننا چائیے۔ میری مانو
اور آج سے ایک اچھا اور باوقار لباس پہننا شروع کر دو ۔ کوئی تمہاری طرف اس
طرح توجہ نہیں کرے گا۔اور اگر کرے تو پھر مجھے آ کر بتانا۔کچھ ناراض لہجے
میں کہنے لگی، میں تو سب سے شاندار لباس پہنتی ہوں ، مہنگا بھی ہوتا ہے،
لوگوں کی پہنچ سے بہت باہر اس لئے لوگ ویسے ہی جل جاتے ہیں، یہاں لوگوں کو
خوداچھے کپڑے پہننے ہی نہیں آتے لیکن کسی کو اچھے کپڑے پہنے دیکھ بھی نہیں
سکتے۔ شیخ صاحب تو میرے کپڑوں کی ہمیشہ تعریف کرتے ہیں۔آپ کو پتہ ہے وہ بہت
فہم و فراست رکھنے والے شخص ہیں اورہر بات بہت سوچ سمجھ کر کرتے ہیں ان کی
بات غلط نہیں ہوتی۔ ان کے کہنے کے مطابق میرا ذوق بہترین ہے ، بہت کم
لڑکیاں اچھا لباس پہننے کی حس رکھتی ہیں۔ آپ تو ان سے بھی اختلاف کر رہے
ہیں۔وہ میرے استاد ہیں جن کا میں دل سے احترام کرتی ہوں۔میں نے پھر کہا
بیٹا انسانی فطرت بدل نہیں سکتی، تمہارا لباس کھلی دعوت ہے ۔ آپ اس طرح کے
حلئے میں ان کے ساتھ ہوتی ہو۔ یہ کوئی اچھی بات نہیں۔وہ بڑے غصے میں بولی
آپ میرے استاد پر شک کر رہے ہیں۔ جو روز مجھے بڑے پیار سے ہر بات، ہر اونچ
نیچ سمجھاتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں میں خوبصورت ہوں اور مجھے خوبصورت ہی نظر
آنا چائیے۔ اب میں آپ کی بات مانوں یا ان کی۔ویسے مجھے افسوس ہوا ہے آپ
اپنے دوست کو سمجھانے کی بجائے مجھ پر ہی تنقید شروع ہو گئے ہیں۔میں نے ہار
مان لی ، اس سے بحث کا فائدہ ہی نہیں تھا۔مگر میری خامشی کے باوجود اس نے
پندرہ بیس منٹ اپنی تقریر جاری رکھی اور پھر جواب نہ پا کر پیر پٹکتی غصے
میں وہاں سے چلی گئی۔ اس کے بعد مجھے کبھی کبھار وہ اور شیخ صاحب نظر آئے
مگر مجھے دیکھ کر وہ راستہ تھوڑا سا بدل لیتے کہ مجھ سے بات نہ ہو۔
پھر ایک لمبے عرصے تک شیخ صاحب اور وہ لڑکی نظر نہ آئے۔میں اس دن ایک شادی
کی تقریب میں موجود تھا۔ کہ ایک لڑکی دلہنوں والے لباس میں قریب سے گزرتی
دکھائی دی۔ تھوڑا سا گھونگھٹ نکالا ہوا تھا۔میرے قریب آ کر وہ کھڑی ہو گئی
، لگتا تھا کسی کا انتظار کر رہی ہے۔ میری نظر پڑی تو شکل سے بہت جانی
پہچانی لگی ۔ سوچنے لگا کہ کون ہو سکتی ہے۔ اف ،یاد آیا یہ تو وہی شیخ صاحب
کی چہیتی شاگرد ہے جس کوکم لباسی بڑی مرغوب تھی، آج لباس سے لدی پھندی اس
محفل میں موجود تھی۔میں نے سوچا اس سے پوچھوں کہ یہ انقلاب کیسا۔ شادی ہو
گئی ہے کیا۔میں اٹھا کہ اس سے بات کروں۔ اس سے پہلے کہ میں اس کے پاس پہنچ
کر اس سے مخاطب ہوتا ، شیخ صاحب بڑی تیزی سے آئے، اسے بازو سے کھینچ کر پرے
کیا اور یہ کہتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔یہ میری بیگم ہیں مسز فلاں۔ میں مسکراتے
ہوئے استاد اور شاگرد کے ڈرامے کے فطری انجام پر غور کر رہا تھا۔
|