جنگ سے تباہ حال افغانستان، پاکستانیوں کے لئے بھی خطرے کی گھنٹی - چند بڑے نقصانات

image
 
کہا جاتا ہے کہ جنگ کی تمنا نہ کرو، جنگ بہت بری چیز ہے، یقیناً کوئی صحیح الدماغ آدمی یہی چاہے گا کہ اس کی زندگی امن اور سکون سے گزرے- لیکن ہمارے پڑوس میں، ہمارے بھائیوں کے گھر جو مسئلہ سر اٹھائے کھڑا ہے وہ ایک تباہ حال افغانستان ہے-
 
بظاہر افغان طالبان کے قبضے میں، لیکن نظام جو غیر واضح ہے، وہاں بے یقینی ہے، اس وقت افغانستان میں جو صورتحال ہے،بظاہر پر امن ، لیکن بھوک افلاس، غربت، طبی وسائل کی کمی، طلب تو ہے رسد بھی درکار ہے، لیکن سپر طاقت جس جنگ کے خاتمے کے بعد یہاں سے مفرور ہوئی ہے، اب شاید اس جنگ زدہ قوم سے اپنی شکست کا انتقام، افغانستان کے بچوں، بوڑھوں، بزرگوں،عورتوں سے لینا چاہتی ہے، اور افغانستان کے بعد اس کی سزا کا حق دار ان کے نزدیک پاکستان ہے۔
 
افغان طالبان اس وقت ایک ڈیفیکٹو حکومت چلا رہے ہیں جن کو باقاعدہ تسلیم کسی نے نہیں کیا، لیکن روس، چین ایران، پاکستان کا رجحان بظاہر ان کے حق میں نظر آرہا ہے- نئی حکومت کے قیام کے بعد 21 اکتوبر کی صبح وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی افغانستان کے دورے پر کابل پہنچے، جہاں عبوری حکومت کے اہم ارکان کے ساتھ ان کی ملاقات ہوئی۔
 
image
 
 بات یہ ہے کہ امریکہ کے جانے بعد لگنے والی پابندیوں سے افغان اور پاکستان پر کیا اثر پڑ رہا ہے- سابق افغان صدر حامد کرزئی نے پاکستان کے حوالے سے بیان دیا کہ پاکستان افغان قوم کا ترجمان نہ بننے کی کوشش کرے، اس تصویر کو جس رخ سے دیکھیں اول متاثر افغان دوسرے پاکستانی ہیں- وہ ایسے کہ پاکستان کوئی امیر صنعتی ملک نہیں، افغانستان میں بھی محدود پیمانے پر کھیتی باڑی ہورہی ہے-
 
لیکن افغان عوام بالخصوص وہاں بچوں، خواتین اور بزرگ افراد کے لئے غلے اور کھانے پینے کی سامان کی قلت ہے، جو ہے وہ غربت کے باعث خریدنا محال ہے- جہاں جنگ کے بعد ایک اورقحط سر اٹھا رہا ہے، جس کی جانب دھیان دینے کی اشد ضرورت ہے۔اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق ہر تین میں سے ایک بچہ بھوکا ہے، دو ملین بچے مالنیوٹریشن یعنی کھانے میں مناسب غذائی اجزاء کی کمی کا شکار ہیں۔ اب اس پر سوچنے کی بات یہ ہے ، یہ بچے افغانستان پر لگی عالمی پابندیوں کے ذمہ دار نہیں، لیکن یہ پابندیاں جنگ کے خاتمے کا تعاون ان کی صحت اور زندگی سے وصول کر رہی ہے-
 
سرد موسم کی ابتداء بھی ہو گئی ہے ، افغان عوام کو جاڑے کے حساب سے کھانا، کپڑے اور مناسب پناہ گاہوں کی ضرورت ہوگی- وہاں ڈاکٹر، پیرا میڈیکل اسٹاف، فیلڈ ہسپتالوں کی بھی کمی ہے، تیل، ایندھن کی فراہمی بھی اشد ضروری ہے- عالمی قوتوں، خطے کے ملکوں کو افغان عوام کے بارے میں سوچنا چاہیے، کہیں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے یا نا کرنے کی بحث میں افغان عوام کا نقصان نا ہوجائے- اس کے اثرات جہاں افغان قوم پر پڑیں گے، پاکستان کی معیشت کون سی بہت تگڑی ہے، ایسے حالات میں انتہا ء پسندی اور دہشت گردی ہی پھیلا کرتی ، داعش کا خطرہ بھی سامنے موجود ہے۔
 
image
 
تجارتی سرگرمیاں محدود ہیں اس کی ایک وجہ عالمی سطح پر لگنے والی پابندیاں ہیں، عالمی مالیاتی اداروں نے افغانستان کے فنڈز، اس کے اکاؤنٹ منجمد کر رکھے، جس کا نقصان افغان عوام کے ساتھ پاکستانیوں کے حصے میں بھی آرہا ہے- وہ ایسے یہاں سے ڈالر کی اسمگلنگ کے حوالے سے بار بار خبریں آرہی ہیں، پاکستان کی معیشت پر افغانستان پر لگنے والی پابندیوں کے اثرات بھی پڑیں گے-
 
اس صورتحال میں ایک بڑا مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے، ایک ملک کے اندر یعنی پاکستانی قائدین سطحی سیاست سے بالاتر ہو کر سوچیں، وزیراعظم ، صدر، اپوزیشن سب کو اپنے چھوٹے سیاسی فائدوں کو نظر انداز کرنے، بڑے دل اور بڑی سوچ کا مظاہرے کے بغیر دائمی کامیابی ممکن نہیں، معیشت آپ کی سخت گیریت کا بوجھ اٹھانے کی اہل نہیں- ذرا خیال کریں، افغان بچے آپ کے رویے کی بھینٹ نہ چڑھ جائیں- وہاں مسئلہ ہوا تو آگ پاکستان تک آئی گی خاکم بدہن،اس مصیبت میں ایک آپر چونیٹی (اچھا موقع) بھی ہے وہ یہ اگر ہم اس موقع پر اپنے ساتھ اپنے افغان بھائیوں کی مدد کریں گے تو ماضی میں ہوئی غلط فہمیوں کا ازالہ بھی ہوجائے گا۔ بھارت ہمیشہ دونوں بھائیوں کی غلط فہمیوں کی خلیج کا استعمال کرتا آیا ہے- یہ پہلی بار ہے کے خطے کے ممالک اور پاکستا ن ایک صفحہ پر ہیں، اس کا فائدہ اٹھانے ضرورت ہے، ورنہ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔
YOU MAY ALSO LIKE: