ظہیر الدین بابر جب کوئی بڑا فاتح نہیں تھا تو ہندوستان کو فتح کرنے میں کیسے کامیاب ہوگیا؟

image
 
 تاریخ پڑھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ جنگیں، شہزادے، بادشاہتیں، ان سب چیزوں کے قصوں سے تاریخ بھری پڑی ہے- ماروا نہر کے شیر کے نام سے تاریخ کا حصہ بننے والا بابر، پے درپے شکستوں کے بعد ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھنے والا بابر، مسلمانوں کا ایک طبقہ اس کو اگر غازی قرار دیتا ہے تو ہندوستان کٹرہندو اس کو ایک غاصب، ظالم لٹیرے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
 
بہرحال گر گر کے اٹھنے کے حوالے سے اگر انگریزی کی کسی اسکول کی کتاب میں میں نے یہ نظم پڑھی تھی جس کا عنوان Try Again نظم میں والے گنگ بروس اور مکڑی کا قصہ ہے کسی قید خانے میں قید کنگ بروس ایک مکڑی پر غور کرتا ہے ، کہ وہ بار بار گرتی اور پھر اپنے مقصد کے حصول کے لئے نکل کھڑی ہوتی- آخرکار کنگ بروس نے دیکھا وہ مکڑی اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئی،ٹھیک ایسا ہی سبق ظہیر الدین بابر کی زندگی سے ملتا ہے۔
 
وسطی ایشیاء میں بابر کوئی کامیاب حکمران نہیں تھا، کوئی بہت بڑا فاتح بھی نہیں، لیکن ہندوستان جیسے بڑے ملک کو فتح کرنے میں کیسے کامیاب ہوگیا، کیا تھا اس کی ذات میں اور کیا تھا اس کی فوج کے پاس، یہی آج اپنے دوستوں خصوصاً ان دوستوں کے لئے جو زندگی میں ناکامیوں سے سیکھنے، اور پھر کچھ کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ پہلا قدم منزل کی جانب اٹھانا ایک مشکل کام ہوتا، سمت بھی واضح نہیں ہوتی، لیکن تھوڑا غور اور خود شناسی کے گر اگر کسی میں پیدا ہو جائیں تو یقیناً وہ اپنے وقت کا بابر ثابت ہو سکتا ہے۔
 
 بابر کے والد امیر تیمور کے پڑپوتے تھے اس لحاظ سے وہ تیموری کہلاتا تھا، جبکہ ماں کا نصب چنگیز خان سے جاملتا ہے ، بابر بارہ برس کا ہی تھا، جب والد عمر شیخ مرزا کا انتقال ہو گیا، اور فراغانہ کی حکومت کی ذمہ داری بابر کے کاندھوں پر آگئی- فراغنہ کی ریاست کے اردگرد بابر کے خاندان کے لوگوں کی ہی سلطنتیں تھیں، لیکن بابر بہت عرصے اس میراث کی حفاظت نہیں کرسکا، کچھ عرصے تاشقند کا رخ کیا (بحوالہ بی بی سی اردو)
 
image
 
خود اپنی خود نوشت سوانح عمری میں بابر لکھتا ہے، تاشقند میں جتنا وقت رہا وہاں تنگ دستی مصیبت اٹھائی۔ بعد میں بابر نے کابل کا رخ کیا جہاں حاکم کابل نے شکست کھائی اور کابل پر بابر کو کامیابی ملی، گو کہ امیر تیمور نے بھی دہلی پر قبضہ کیا تھا اور بابر اس کو اپنی میراث سمجھتا تھا، لیکن کابل پر بیس برس حکمرانی کرتے ہوئے بابر کو ہندوستان فتح کرنے کا خیال نہیں آیا- اس زمانے میں ہندوستان پر ابراہیم لودھی کی حکومت تھی، جس کے خلاف سازشوں میں عزیز رشتے دار اور دشمن سب ہی شامل تھے۔
 
پنجاب کے حاکم دولت خان لودھی، ابراہیم لودھی کے چچا عالم خان میواڑ کے حاکم رانا سانگا نے خود خط لکھ کر بابر کو ہندووستان پر حملے کے لئے بلاوا بھیجا، انکو خیال ہوگا ، کہ بابر ابراہیم لودھی کی حکومت کے خاتمے کے بعد واپس چلا جائے گا(ویسے غور کیا جائے تو ٹریک ریکارڈ بڑی ریاست سنبھالنے کا نہیں تھا بابر کا، لیکن بابر کے دل میں کیا سمائی تھی، یہ خط لکھنے والے کہاں جانتے تھے)-
 
ہندوستان کی فتح اور توپوں کا استعمال
بابر وہ پہلا حملہ آور تھا جس نے ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار گولہ بارود اور بالخصوص توپوں کا استعمال کیا، توپ خانے کے بار میں بابر کے اپنے الفاظ یہ ہیں (بحوالہ defencexp.com ) توپ خانہ سلطنت کے تالے اور چابی ہیں۔ اگر الفاظ پر غور کیا جائے تو تالے سے مراد دفاع میں توپوں کی اہمیت کو تسلیم کرنا، اور اگر حملے کی بات تو بھی توپخانہ اہم ترین گویا ایک چابی۔
 
image
 
1526 ء میں پانی پت کی پہلی جنگ لڑی گئی، توپ خانے نے براہیم لودھی کے خلاف جنگ میں ایک اہم کردار ادا کیا، اسی طرح بندوق کا استعمال پہلی بار برصغیر کی تاریخ میں ہوا، پانی پت کی جنگ کو مشہور مورخ Paul k Davis پانی پت پہلی جنگ کو دنیا کی سو تاریخی جنگوں میں شمار کرتے ہیں- آٹھ گنا بڑی ابراہیم لودھی کی فوج ظہیر الدین بابر کے ہاتھوں شکست ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ جنگ میں ابراہیم لودھی کو نا صرف شکست ہوئی بلکہ وہ مارا بھی گیا، لیکن بابر اس جنگ کے بعد بابر اور اس کی افواج کو ایک اور دشمن کا سامنا تھا۔
 
رانا سانگا انہی شخصیات میں شامل تھے جنہوں نے خط لکھ کر بلوایا تھا بابر کو لیکن جب انھیں معلوم ہوا، بابر کی نگاہ صرف فتح تک نہیں، بلکہ وہ ہندوستان میں حکمرانی کی نیت سے متحرک ہو گیا، تو خیر سگالی ،دشمنی میں تبدیل ہو گئی- رانا سانگا کے ساتھ جنگ میں ایک وقت ایسا بھی آیا ، جب بابر نے دیکھا اس جنگ کو جیتنے کا کوئی امکان نہیں ، تو اس نے اپنی فوج کے سامنے ایک زبردست تقریر کی-
 
فوج پر اس کی تقریر کا اثر ہوا، اور رانا سانگا میدان جنگ سے فرار ہو گئے، خیر اس جنگ کے بعد بھی بابر کو ہندوستان کی گدی آرام سے نہیں مل گئی ، بلکہ اس کو اپنی حیثیت منوانے کے لئے مختلف علاقوں کے سرداروں جن میں راجپوت اور افغان دونوں شامل تھے، جنگیں لڑیں، تاہم وہ جنگ پانی پت کی پہلی لڑائی جتنی اہم نہیں تھیں جس نے ہندوستان کی تاریخ کا دھارا موڑ دیا۔بابر نے دسمبر1530 انتقال کیا ۔
YOU MAY ALSO LIKE: