1974میں عروس البلاد شہرکراچی کے آدم جی ہال میں لگے ایک
اسٹیج ڈرامہ میں ایک کریکٹر جو تشی کا تھا کریکٹڑ کرنے والے فنکار کو اچانک
ایک فوتگی پہ جانا پڑا تو اس کریکٹر کے لئے ایک لڑکے کا انتخاب فی الفور
کرنا پڑا ڈارمہ شروع ہونے سے صرف دو گھنٹے قبل نئے لڑکے کو کریکٹر کا
اسکرپٹ تھما دیا گیا پورے ڈرامے میں اس نئے لڑکے کی صرف تین بارانٹری تھی
اپنی پہلی ہی انٹری میں نئے لڑکے نے زبردست پرفارمنس دے کر شائقین کے دلوں
میں جگہ بنا لی ان کی انٹری کے بعد شائقین نے دل کھول کا داد دی ڈرامے کے
آخری روز اس نئے فنکار کو پانچ ہزار روپے ستر سی سی موٹر سائیکل اور سال
بھر کا پٹرول بطور انعام دیا گیا چودہ سال کی عمر میں اسٹیج پہ پہلی انٹری
دینے والا بعد میں اسٹیج کی دنیا کا ’’کامیڈی کنگ ‘‘ بنا اور دنیا اسے عمر
شریف کے نام سے جانتی ہے اسی کامیڈی کنگ نے ستر سے زائد ڈراموں کی کہانیاں
لکھیں ان ڈراموں کی ہدایات دینے کے ساتھ ساتھ بطور اداکار بھی اپنی
صلاحیتوں کا لوہا منوایا محمد عمر کراچی میں 19 اپریل 1960 کو پیدا ہوئے
ابھی چار سا ل کے تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا ان کی فیملی شدید مالی
مشکلات کا شکار ہوگئی اس فیملی کی رہائش ایسی جگہ تھی جہاں قوال رہتے تھے
یہی وجہ تھی کی اس بچے کو بچپن ہی سے شوبز سے منسلک افراد کے بچوں کے ساتھ
پلنے بڑھنے کا وقت ملاہوش سنبھالتے ہی نامور فلمی لوگوں کی نقالی کرنے لگے
لطیفہ گوئی ،بذلی سنجی اور برجستہ جملہ بازی نے انہیں پورے علاقہ میں ہر
دلعزیز بنا دیا ان کے گرد محلے کے لڑکوں کا ایک ہجوم رہتا جنہیں اپنی
پرفارمنس سے خوب محظوظ کرتے-
اسٹیج پر ان کا ایک ڈرامہ’’بہروپیا‘‘تھا جس میں ان کی عمدہ پرفارمنس ان کے
اندر چھپے ہوئے ٹیلنٹ کو کھل کر سامنے لے آئی’’بڈھا گھر پہ ہے‘‘ان کا
بہترین ڈرامہ تھا جب انہوں نے ’’بکرا قسطوں پہ‘‘ بنایا تو ان کی شہرت کو
چار چاند لگ گئے ہمسایہ ملک بھارت میں بھی مقبول ہوئے اس طرح برصغیر میں
بہترین کامیڈین کے طور پر اپنا لوہا منوایا’’بکراقسطوں پہ‘‘ کی مقبولیت کا
اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اس ڈرامے کے پانچ پاٹ بنائے
گئے اسٹیج ڈرامہ ’’بکرا قسطوں پہ‘‘ پارٹ 2 نے بالی وڈ کے قدآور اداکار
امیتابھ بچن کی مہنگے بجٹ کی فلم ’شہنشاہ‘ کو مات دے دی تھی جس وقت عمر
شریف کا اسٹیج ڈرامہ ’ ’بکرا قسطوں پہ‘‘ پارٹ 2 مارکیٹ میں آیا ٹھیک اسی
وقت امیتابھ بچن کی فلم ’شہنشاہ‘ ریلیز ہوئی اور اس موقع پر ایک بہت ہی
انوکھا اور تاریخی منظر دیکھنے کو ملا کہ عمر شریف کے اسٹیج ڈرامے کی کیسٹ
خریدنے والوں اور کرائے پر کیسٹ لینے والوں کی تعداد ’شہنشاہ‘ کے مقابلے
میں کئی گنا زیادہ تھی اور عمر شریف کے ویڈیو ڈرامے نے بالی وڈ کے ایک بڑے
بجٹ کی نامور ستاروں سے سجی فلم کو مات دے دی تھی دلچسپ بات یہ ہے کہ اس
وقت ہالی وڈ، بالی وڈ اور لولی وڈ کی فلموں کی کیسٹ کا کرایہ 24 گھنٹوں کے
لیے 10 روپے تھا مگر عمر شریف کا اسٹیج ڈرامہ بلیک میں 24 گھنٹے کے 50 روہے
پر شائقین نے کرائے پر لیا۔
سٹیج ڈراموں کی بے پناہ بھیڑ کی وجہ سے اکثر شائقین ٹکٹ سے محروم رہ جاتے
تھے اسٹیج کے ان شوقین افراد کے لیے عمر شریف نے ایک بہت ہی انوکھا قدم
اٹھایا اور اپنے ایک اسٹیج ڈرامے وی آئی پی روم کی ریکارڈ نگ دبئی میں
کروائی اس ڈرامے کو ویڈیو کیسٹ پر ریلیز کیا یہ تجربہ اس قدر کامیاب رہا کہ
جس کی نظیر اس سے قبل پاکستان میں نہیں ملتی عمر شریف نے اس مقبولیت کی وجہ
سے اپنے بعد میں آنے والے اسٹیج ڈراموں کی ویڈیو فلمبندی شروع کردی اور ان
ڈراموں کو وی ایچ ایس کیسٹ کے ذریعے شائقین کے گھروں کی دہلیز پر پہنچا دیا
اس دور میں کراچی میں وی سی آر کے ذریعے فلمیں دیکھنے اور اس ایک اگلی شکل
کیبل پر یہ اسٹیج ڈرامے لوگوں کو دیکھنے کو ملے یہ ان دنوں کا تذکرہ ہے جب
صدر ایمپریس مارکیٹ کے بالمقابل پاکستان کی سب سے بڑی مارکیٹ فلموں کی
مارکیٹ رینبو سینٹر وی ایچ ایس کیسٹ فلموں، ڈراموں گیت مالا اور فنون لطیفہ
کے دیگر شعبوں کی آماجگاہ ہوا کرتا تھاعمر شریف کے اسٹیج ڈراموں کی شہرت کا
یہ عالم تھا کہ رینبو سینٹر کی ہر دکان اور روڈ پر عمارت کے ستونوں پر عمر
شریف کے ڈراموں کے رنگین اشتہارات آویزاں ہوتے تھے
فلمی کامیڈین منورظریف کو اپنا روحانی استاد مانتے ہیں یہی وجہ تھی کہ شوبز
میں اپنی شروعات میں عمرکے ساتھ ظریف لکھا کرتے تھے منور ظریف کے ساتھ ان
کی کوئی ملاقات نہ ہوسکی تھی ایک بار منور ظریف کراچی آئے تو عمر انہیں
ملنے کے لئے گئے لیکن منور کی مصروفیت کی وجہ سے ملاقات نہ ہو سکی منور
ظریف سے انہیں بہت عقیدت تھی ایک بار کراچی سے لاہوتشریف لائے داتا گنج بخش
کے مزار پر حاضری دی اور سیدھے ٹیگور پارک میں منورکے گھر گئے اور گھر کی
دیواریں چومی 70 کی دہائی میں مصری اداکار عمر شریف کی فلم ’’لارنس آف
عریبیا‘‘ کی نمائش ہوئی تو محمد عمر، عمر شریف بنے اور امر ہو گئے
عمر شریف ٹی وی، اسٹیج اداکار، فلم ڈائریکٹر کے طور پر جانے جاتے ہیں انہوں
نے تقریبا 5 دہائیوں تک شوبز میں کام کیا ہے اور درجنوں، ڈراموں، اسٹیج
تھیٹرز اور لائیو پروگرامز میں پرفارم کیاان کے مقبول اسٹیج ڈراموں میں’’
دلہن میں لے کر جاؤں گا‘‘،’’ سلام کراچی‘‘،’’ انداز اپنا اپنا‘‘، ’’میری
بھی تو عید کرا دے‘‘،’’ نئی امی پرانا ابا‘‘، ’’یہ ہے نیا تماشا‘‘،’’ یہ ہے
نیا زمانہ‘‘، ’’یس سر عید نو سر عید‘‘،’’ عید تیرے نام‘‘، ’’صمد بونڈ
007‘‘،’’ لاہور سے لندن‘‘،’’ انگور کھٹے ہیں‘‘،’’ پٹرول پمپ‘‘،’’ لوٹ
سیل‘‘،’’ ہاف پلیٹ‘‘،’’ عمر شریف ان جنگل‘‘اور’’ چوہدری پلازہ‘‘ ودیگر شامل
ہیں اسٹیج پہ تو اپنا لوہا منوانے کے ساتھ ساتھ انہوں نے فلموں میں بھی
اپنے ان مٹ نقوش چھوڑے سٹیج ڈراموں کے ساتھ ساتھ عمر شریف نے ’’مسٹر420
‘‘،’’ مسٹر چارلی ‘‘اور ’’چاند بابو ‘‘جیسی فلمیں پروڈیوس کیں واضح رہے کہ
’’مسٹر 420 ‘‘کے لیے انھیں دو نیشنل اور چار نگار ایوارڈز ملے جو پاکستان
میں ایک ریکارڈ ہے علاوہ ازیں انھوں نے حساب، کندن، بہروپیا، پیدا گیر،
خاندان اور لاٹ صاحب فلموں میں مختلف نوعیت کے کردار ادا کئے ایک شو ’’عمر
شریف ورسز عمر شریف‘‘‘میں وہ 400 سے زیادہ بہروپوں میں نظر آئے 90 کی دہائی
میں عمر شریف کراچی سے لاہور منتقل گئے جہاں شمع سنیما کو لاہور تھیٹر میں
بدل دیاگیا مذکورہ تھیٹر میں عمر شریف نے کئی یادگار ڈارمے پیش کئے جو کہ
ایک منفرد اور تاریخی ریکارڈ ہے عمر شریف کی خدمات کے عوض انہیں نگار
ایوارڈ اور تمغہ امتیاز سمیت کئی اعزازات سے نوازا گیا۔
عمر شریف نے تین شادیاں کی تھیں ان کی پہلی شادی اپنی ہمسائی کے ساتھ ہوئی
دوسری شادی اداکارہ شکیلہ قریشی سے ہوئی اور زیادہ نہیں چل سکی جب کہ تیسری
شادی ا سٹیج اداکارہ زرین غزل سے ہوئی ان کی تیسری بیوی زرین ہی ان کے ساتھ
بیرون ملک علاج کے لئے گئی تھیں ان کی جواں سالہ بیٹی حرا شریف ایک آپریشن
کے بعد انتقال کر گئیں تھیں بیٹی کے انتقال کا صدمہ ان کے دل و دماغ پر
گہرے اثرات چھوڑ گیا بیٹی کی وفات کے بعد بیمار رہنے لگے بیٹی کو یاد کرتے
رہتے اور رونے لگتے عارضہ قلب سمیت مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوگئے
سوشل میڈیا پہ شیئر کی گئی ایک تصویر سے ان کے پرستاروں کو بیماری کا پتا
چلا اس تصویر میں ان کی شیو بڑھی ہوئی اور ایک ویل چیئر پہ بیٹھے بیمار
دکھائی دیئے حکومت سندھ اور وفاقی حکومت نے ان کا علاج کروانے کا اعلان کیا
اور اس سلسلے میں حکومت سندھ نے چار کروڑ روپے بھی جاری کئے جس کے بعد
انھیں کراچی سے خصوصی ایئر ایمبولینس کے ذریعے امریکہ منتقل کیا جا رہا تھا
جہاں مقبول فلمی اداکارہ ریما کے شوہر ڈاکٹر شہاب نے ان کا علاج کرنا تھا
عمر شریف کو پاکستان سے علاج کی غرض سے 28 ستمبر 2021ء کو ائیر ایمبولینس
کے ذریعے امریکا روانہ کیا گیا تھا تاہم طویل سفر اور تھکاوٹ کے باعث انہیں
جرمنی کے اسپتال میں داخل کروایا گیاوہاں ان کی ٹریٹ منٹ جاری تھی بخار
اورنمونیہ نے حملہ کیا طبیعت زیادہ بگڑ گئی 2 اکتوبر 2021ء کو 61برس کی عمر
اپنے خالق حقیقی سے جا ملے |