دین بطور آب حیات اور کامیابی کی موٹر

دین اور مذہب میں فرق ہے، دین سماجی نظام کا نام ہے اور مذہب دین کے لائحہ عمل کا نام ہے۔ یعنی مذہب اس طریقہ کار کو کہتے ہیں جس پر چل کر انسان دیندار بنتا ہے یعنی نظام اور نظم و ضبط کا حامل بنتا ہے۔ اس کی آخری شکل حکومت کا قیام ہے جس کے ذریعے مذہب اپنی تمام خوبصورت ابعاد کے ساتھ معاشرے کو اخلاقی حُسن اور کردار کے معطر جذبوں سے مزین کرتا ہے۔ دین کے نظامات جیسے سیاسی، معاشی، ثقافتی و تہذیبی، تعلیمی، دفاعی وغیرہ کے اپنانے اور روبہ عمل لانے کے ڈھنگ یعنی مذہب کے ذریعے ہی تکمیل پاتے ہیں۔

رسول اکرم ﷺ کے دور تک انسانی شعور کی تاریخ منظم سماج کو درک کرلینے کے بعد اس امر کی متقاضی ہوگئی کہ سماج کا حاکم دیانت دار، شجاع، صادق، امانت دار اور دیگر بیش قیمت اخلاقی کرداروں کا حامل ہونا چاہیے۔ اسی حکومت و حاکمیت کے تناظر میں رسول اکرم ﷺ کو نبوت کے ساتھ امامت کا منصب بھی دیا گیا اور اسی امامت کو اگلے زمانے میں معصوم قائدین کے سپرد کرکے رسول اکرم ﷺ نے منت کنت مولا فھذا علی مولا کو مستند کردیا۔ تاکہ آئندہ معاشرہ تمام اخلاقی صفات کے حامل شخص کی سربراہی میں اپنا تکامل حاصل کرے اور دنیا و آخرت کی سعادتوں سے ہمکنار ہو۔ قرآن کی حکمتیں، استعارے، کنائے اور تشبیہات کو رسول اکرم ﷺ نے اپنے فرامین مقدس سے روشن کیا اور معاشرے کی مرکزی اکائی "امامت" سے متمسک رہنے کیلئے بھرپور راہنمائی فرما دی۔رسول اکرم ﷺ کی حکومت اسلامی قائم ہونے کے ساتھ انسانی معاشرے میں اس انقلابی فکر نے شعور انسانی میں جگہ بنائی کہ خدا اپنے نمائندوں کے ذریعے معاشرے کو منظم کرتا ہے اور قدیم مذاہب اور غیر مذہبی افکار کے تناظر میں مذہب صرف چند سکون آور رسوم کی عبادات کے بجائے معاشرے کے انتظام و انصرام میں فوقیت کا حامل ہوسکتا ہے۔ جس دور میں ہندوستانی مذاہب، رومی اور فارسی مذاہب جو حکومت و انتظام کی مذہبی تعلیمات سے بے بہرہ تھے رسول اکرم ﷺ نے قرآن و اہلِبیت ؑ کی زندگی کو بطور نمونہ پیش کرکے اس مغالطہ کو دور کیا کہ دین صرف خانقاہوں، مزاروں یا معبدوں میں تسکین آور مقدس عبادتوں کے علاوہ انسانی سماج کے نظم کی برقراری اور معاشرتی و اجتماعی امور کو منظم کرنے کو بھی عبادت گردانتا ہے۔مکہ میں حکومت قائم ہونے کے بعد رسول اکرم ﷺ کی سیرت تبلیغ، تربیت، فکر سازی، اصلاح نفس کی اسٹریٹیجی سے مملو رہی اور آپ نے کبھی بھی فکری جمود اور شعوری انجماد کو تلوار کے زور سے توڑنے کی کوشش نہیں فرمائی۔ ابتدائی طور پر تبلیغ، تربیت اور فکری مہمیز سے کام لیا۔ فتح مکہ کے بعد عالمی فتح اور غلبہ دین کیلئے نبی اکرم ﷺ نے جو اسٹریٹیجی اپنائی جو منہج اختیار کیا وہ یہی تھا کہ فکروں کو جھنجوڑا جائے۔۔۔۔
اھل تشیع میں دوران غیبتِ امام عصر، ولایت فقیہ جو منہج نبوی ص اور اھلبیت ع کو فالو کرتے ہیں ان میں کثیر تعداد شیعہ حضرات ہیں جو اس منہج کے پیروکار ہیں اور اسی الہی منہج کو جو عقل و شریعت سے بھی ہم آہنگ ہے اس امر میں کامیاب ہوئے کہ ایران میں اسلامی حکومت بنائیں۔۔۔۔منہج نبوی ص و اھلبیت ع دو مراحل پر مشتمل ہے پہلا مکی مرحلہ یعنی ذہن سازی، ذہنی قبولیت کا دور دوسرا مرحلہ مدنی مرحلہ ہے۔۔۔۔جس میں نظام کے نفاذ و قیام اور انتظام کے امور پیں۔۔۔۔۔قرآن کریم کی منہج نزول یعنی ترتیب نزولی جو ایک طرح رسول اکرم ص کی وحیانی سیرت بھی ہے منہج رسول ص اور ہدایات الہی برائے غلبہ دین ہمارے پاس نمونے اور ہدایت کی کافی شافی دستور کے ساتھ موجود ہے۔۔۔۔
منہج نبوی و اھلبیت کے مطابق اسلام تربیتی نظام ہے جس میں اصلاح کی کوشش آخری وقت تک کی جاتی تاآنکہ انسان اتنا بدقماش ہوجائے جو سزا کے علاوہ سدھرنے کے لائق نہ رہے ۔۔۔۔۔منہج نبوی و اھلبیت زبردستی اور تشدد اور قتل و قتال کا قائل نہیں عسکری جہاد قلمی فکری تعلیمی جہاد اور شعوری تربیت کے بعد کا مرحلہ ہوتا ہے ۔
سطور بالا کے مطابق رسول اکرم ﷺ کے بعد سے یا کچھ پہلے سے انسانی سماج کا مطالبہ انسانی شعور کی بالیدگی کے ساتھ منظم حکومت اور منظم سماجی کیلئے پیدا ہوچکا تھا اور دین کو خانقاہوں، معبدوں سے نکال کر عائلی اور اجتماعی نظام کی تنظیم کیلئے آمادہ کرچکا تھا۔ لہذا آج بطور خصوص بھلا کیسے دین صرف مسجدوں کے سجدوں، خانقاہوں کی منقبتوں اور نعتوں، مزاروں پر حاضریوں، محرم میں عزاداریوں سے مربوط رہ سکتا ہے۔ کیا آج خدا کے دشمن موجود نہیں؟ کیا آج انسان کی سعادتوں کے دشمن ناپید ہوچکے ہیں؟
کیا آج انسانی سماج کو تنظیم اور صراط مستقیم (stream line) ہونے کی ضرورت نہیں؟
یہی دنیا کا سماج ہے جو آخرت کی کھیتی ہے، جس کی دنیا خراب ہوگی وہ کیسے اس دنیا سے آخرت کا زادِ راہ حاصل کرسکتا ہے؟
تسکین قلب بغیر معرفت کے کیسے ہوسکتی ہے؟ علم و دانش کے بغیر کوئی فرد یا معاشرہ بھلا کس طرح دنیا و آخرت کی بھلائی حاصل کرسکتا ہے؟
دشمنان اسلام ہی دراصل دشمنان انسانیت ہیں۔۔۔اسلام و انسانیت ، دین و ترقی الگ الگ راستے نہیں ہیں، آخرت اسی دنیا سے مربوط ہے۔۔۔ اسی دنیا میں نیک اعمال آخرت کی کامیابی ہیں۔ نیک اعمال صرف مسجد، خانقاہ، مزار، لنگر، نعت و منقبت و نوحے سے مربوط نہیں بلکہ انسانی سماج کی فلاح و بہبود سے بھی وابستہ ہیں، انفرادی نہیں۔۔۔ بلکہ اجتماعی طور پر مستحکم حکومت ہی ایسی پوزیشن میں ہوتی ہے کہ سماج کی فلاح و بہبود کیلئے انتظام و انصرام کرسکتے۔ لہذا دینی حکومت کیلئے جدوجہد غیر دینی حکومت کیلئے محنت کرنے سے زیادہ افضل ہوتی ہے، دین دار کی غلطیاں بے دین کے مقابلے میں خدا پھر جلد سنبھال لیتا ہے، مگر خودسر، مغرور، لالچی دنیا پرست کی حکومت معاشرے کیلے عظیم ظلم اور معاشرے کی تباہی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ایسا معاشرہ طولانی مدت میں نہ تو دنیاوی فوائد حاصل کرپاتا ہے اور آخرت کیلئے تو ویسے بھی صرف افسوس ہی رہ جاتا ہے۔
اسلامی حکومت دنیاوی اور اُخروی دونوں کامیابیوں کیلئے وسیلہ ہے۔ مگر آج پہلی دنیا اور دوسری دنیا اور تیسری دنیا کی تقسیم کرنے والے مفکرین تو اپنی جگہ مجرم ہیں ہی تیسری دنیا کے وہ باسی بھی مجرم ہیں جو علم و دانش کو صرف دنیاوی فوائد کے حصول کیلئے وقف سمجھتے ہیں اور اخلاق و کردار اور اُخروی سعادتوں کو اہمیت نہیں دیتے بلکہ اخلاق کو بھی صرف اس لئے اہمیت دیتےہیں کہ اس سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنی طرف جذب کرسکیں اور معاشرے میں ساکھ بناسکیں۔۔۔اس نیت کے بجائے اگر دوسروں سے ہمدردی اور انسانیت کے احترام اور مخلوق خدا کی خدمت کی نیت کی جائے تو یہی بہتر ہوتا ہے۔دین کو افیون بنانے والے لوگ جو دین کو الہٰی اہداف کے حصول کی جدوجہد سے عاری سمجھتے ہیں اور زندگی کو آرام و سکون، عیش و راحت کے ساتھ بسر کرنا چاہتے ہیں ان کی علامات یہی ہیں کہ یہ صرف دعاؤں اور زیارتوں، سجدوں اور بے بصیر تلاوتوں سے جنت کے حصول کے طلبگار ہوتے ہیں یا پھر دعا درود میں کثرت صرف دنیا کی آسائشوں کے حصول کیلئے ہوتی ہے، انہیں دین کے ہدف اللہ کے معین کردہ منزلوں سے نہ آشنائی ہوتی ہے نہ ہی اس کیلئے کوشش ہوتی ہے، یہ بلاد کفر میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور قرآن کریم کے مطابق کہتے ہیں: " انہی ظاہر پرستیوں کی طرف رغبت کے باعث ایمان لانے والوں کے بارے میں ایک آیت ہے۔ کیا آپ ﷺ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں (آسمانی) کتاب کا حصہ دیا گیا ہے(پھر بھی) وہ بتوں اور شیطان پر اور کافروں (کی دنیاوی ترقی دیکھ کر ان ) کے بارے میں کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی نسبت یہ (کافر) زیادہ سیدھی اور حق کی راہ پر ہیں"۔ (سورہ نساء 51) اور جدید تقسیم عالم کے مطابق تیسری دنیا کاہل سست اور ناکارہ گردانتے ہیں اسی وجہ سے جدید تعریف کے مطابق مادیات میں ترقی یافتہ بلاد کفر میں اکثر تیسری دنیا کے لوگ آدھے تیتر آدھے بٹیر ہوتے ہیں ۔تیسری دنیا کے وہ مجاہدین جو مشکلات سے نبرد کے ساتھ ساتھیوں کی کمی کے باوجود اپنے حصے کی شمع جلائے جیسے تیسے اخلاقیات ، تقویٰ، پرہیز گاری قائم کرنے کی جدوجہد میں لگے ہیں مگر یہ دیسی ماڈرن کوا چلا ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول گیا کے مصداق طویل مدتی اہداف اور آئندہ کی نسلوں کی دنیا وی ترقی عزت و وقار اور قومی غیرت میں اپنا حصہ ڈالے بغیر اور اصلاح احوال کیے بنا مغرب کی تعریف میں شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بنے اپنی نام نہاد ہجرت کا بھرم قائم رکھنے کیلئے ڈینگیں مارتے رہتے ہیں, اپنے فرار کی تاویلات دیتے رہتے ہیں۔۔۔۔" اگر تم قتل یا موت کے خوف سے بھاگنا بھی چاہو تو فرار کام آنے والا نہیں ہے اور دنیا میں تھوڑا ہی آرام کرسکو گے"۔(سورہ احزاب- 16)خود مغربی سمجھ دار دانش مند اپنے معاشرے کی اخلاقیات پر رونا رو رہے ہوتے ہیں مگر دیسی مغربیے اپنی ہجرت کو جسٹیفائی کرنے کے لئے نت نئی تھیوریز لاتے رہتے ہیں, مغرب کو فرشتہ اور خدا کی منتخب قوم فرض کرکے ان سامراجی اعمال کو چھپا کر تیسری دنیا کو مورد الزام ٹہراتے ہوئے اپنی کاہلی سستی اور عیش طلب مزاج کی تسکین کررہے ہوتے ہیں۔ نتیجتاً کافر دشمن بھی حوصلہ پاتا ہے اور مومنین کومخاطب کرتا ہے ۔ بقول قرآن کریم: " ان کافر لوگوں کو جب ہماری کھلی کھلی آیات سنائی جاتی ہیں تو انکار کرنے والے ایمان لانے والوں سے کہتے ہیں کہ " بتاؤ ہم دونوں گروہوں میں سے کون بہتر (اقتصادی) حالت میں ہے اور کس کی (سماجی) مجلس/ محفلیں زیادہ شاندار ہیں؟" (سورہ مریم – 73)
تیسری دنیا کے بیشتر حکمران بنی اسرائیل کی مادیت اور دنیا پرستی سے متاثر ان کے غلام بنے ہوئے ہیں اور اسی طرح حکومتوں کی غلامی کے ساتھ بیشتر عوام بھی بنی اسرائیل کی نقل کو اپنی کامیابی اور عزت تصور کرتے ہیں۔ جبکہ صورتحال یہ ہے کہ بنی اسرائیل کے یہ کافر گروہ اپنی حماقت اور بے وقوفی کے باعث خود تو ناکامیاں اٹھا رہے ہیں جس سے صرف با بصیرت مومنین دیکھ رہے ہیں ورنہ باقی غلامان کفر ترقی اور کامیابی کے مغالطے میں اپنے اور اپنی اولادوں کے دنیاوی اور اُخروی مستقبل سے ناآگاہ جھوٹی ترقی کے جھانسے میں گہری کھائی میں گرتے جارہے ہیں۔ ہمیں طویل المدتی اسٹریٹیجی پر عمل کرتے ہوئے اپنے معاشروں کو کامیاب کرنے کیلئے بلاد کفر کے رعب میں آنے کے بجائے مرحلہ بہ مرحلہ اپنے سماج میں رہتے ہوئے جدوجہد کی ضرورت ہے۔ اور اولادوں کے مستبقل کے کفر سے بچتے ہوئے اور صرف اپنی کامیابی اور سکون کی خاطر کفار کی ترقی سے مرعوب ہوکر بلاد کفر فرار کرجانے کے بجائے نام نہاد اسلامی معاشروں کو حقیقی اسلامی معاشروں میں ڈھالنے کے عمل میں مصروف ہوجانا ہے۔تیسری دنیا میں رچائی گئی سازشوں سے ہشیار رہتے ہوئے ان سے دامن بچاتے ہوئے اپنے شعور و توجہ کو خدا اور خدائی رہبران کی طرف موڑ رکھنا ضروری ہے۔
معاشرے کو عزت و وقار کے ساتھ، خود اعتمادی اور خود کفائی اور حوصلے کیلئے صرف قرآن حکیم اور رسول ﷺ و اہلبیت ؑ سے وابستہ ہونا ضروری ہے، خصوصا ایسا معاشرہ جو توحید اور حضرت محمد ﷺ کی رسالت پر یقین رکھتا ہے۔ اس وابستگی کا لازمی نتیجہ تزکیہ نفس، دنیا اور دنیا پرستی سے دوری، اسلامی معاشرے کی فلاح و بہبود کیلئے اجتماعی جدوجہد ہے۔ اس جدوجہد کا لازمی وسیلہ علم ودانش کا حصول اور خضوع و خشوع ہے۔دشمن توحید اور مسلمین سے ہوشیاری اور دفاع کے بغیر اجتماعی جدوجہد ایسے ہی جیسے گندے گلاس کو صاف کیے بنا اس میں پاک و صاف پانی ڈالا جائے تو وہ بھی نجس و ناپاک ہوجائے۔۔۔ اور اس جدوجہد کیلئے علم و دانش بنیادی وسیلہ ہے اس کے بعد انتھک محنت و جدوجہد ہی کامیابی سے ہمکنار کرسکتی ہے۔ لہذا تیسری دنیا کے عوام خواہ مسلمان ہوں یا غیر مسلمان اسلام یعنی رسول اکرم ﷺ ، قرآن و اہلِبیت ؑ سے بھرپور طور پر ہدایت لینے کیلئے دن رات ایک کریں، تعلیمات اسلام کو عقل و دانش اور کامیابی کو ہدف قرار دیتے ہوئے جدوجہد کو لازمی قرار دیں۔ایک دوسرے کی اصلاح اور بیداری کیلئے ، فکری مہمیز کیلئے، شعوری ارتقاء کیلئے، علمی بصیرت کیلئے، حکمت کو منتشر کرنے کیلے اپنے اخلاق و کردار کو رحمت للعالمین سے مربوط کرنا ہوگا، کیونکہ حکومت اسلامی بغیر شعوری ارتقاء اور علمی بصیرت کے ممکن نہیں اور شعوری ارتقاء رحمت و عفو و کرم کے بغیر ممکن نہیں۔ اس حکومت جو رسول ﷺ اور اہلِبیت علیہم السلام سے درس اور حوصلہ لیتے ہوئے ایسا وسیلہ ہے جو انسانی سماج کو عدل و عدالت، پیار و محبت، رحم و مہربانی، خدمت و فلاح سے ایسے پُر کردیتی ہے جو دنیا و آخرت دونوں کیلئے سعادت، ترقی ، خوشحالی اور مسرت کا وسیلہ ہوتی ہے۔
خداوند عالم سے دعا ہے کہ ہم تمام 99٪ انسانوں کو اپنی توحید، رسالت اور منصوب ائمہ ؑ کی معرفت عطا فرمائے، ان کی سیرت پر عمل کرنے کیلئے توفیقات عطا فرمائے، صبر و حلم و برداشت، شجاعت و حمیت، حریت و عبودیت جیسے جواہر عطا فرمائے اور حضرت بقیۃ اللہ (ارواح لنا فدا ) کی عالمی الہٰی حکومت کے قیام کیلئے ہماری سیاسی،معاشی، تعلیمی، ثقافتی، تہذیبی جدوجہد کو تقوا اور پرہیز گاری سے متصل کردے اور اس جدوجہد اور اپنے اپنے خطوں میں اسلامی حکومت کے قیام کے ذریعے دشمنان انسانیت و اسلام کو کمزور، لاغر اور اپاہج بنادے۔ مسلمین و مستضعفین کمزوروں، محروموں کو طاقت و قوت عطا فرما کر اس جدوجہد و قیام کو ظہور حضرت حجت (ارواح لنا فدا) کیلئے وسیلہ قرار دے۔ آمین یارب العالمین


 

سید جہانزیب عابدی
About the Author: سید جہانزیب عابدی Read More Articles by سید جہانزیب عابدی: 68 Articles with 58585 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.