علمِ غیب و عالِمِ غیب اور عُلماۓ عیب !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَہِ لُقمٰن ، اٰیت 31 تا 34 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیت !!
الم
تر ان الفلک
تجری فی البحر
بنعمت اللہ لیریکم من
اٰیٰته ان فی ذٰلک لاٰیٰت لکل
صبار شکور 31 واذاغشیہم موج
کالظل دعوااللہ مخلصین له الدین فلما
نجٰھم الی البر فنھم مقتصد ومایجحد باٰیٰتنا
الّاکل ختار کفور 32 یٰایھاالناس اتقواربکم واخشوا
یوما لایجزی والد عن ولدهٖ ولامولود ھوجاز عن والدهٖ شیئا
ان وعداللہ حق فلا تغرنکم الحیٰوةالدنیا ولا یغرنکم باللہ الغرور
33 ان اللہ عنده علم الساعة وینزل الغیث ویعلم مافی الارحام وماتدری
نفس ماذا تکسب غدا وما تدری نفس بایّ ارض تموت ان اللہ علیم خبیر 34
اے ھمارے رسُول ! آپ نے اُن انسانوں کا اَحوال دیکھ لیا ھے جن کے لیۓ اللہ کی مہربانی سے سمندروں اور دریاؤں میں کشتیاں چل رہی ہیں تاکہ وہ اُن سمندروں اور دریاؤں میں اللہ کے بناۓ ہوۓ اُن مظاہرِ قُدرت کو دیکھیں جن مظاہرِ قُدرت میں اللہ نے اپنے صابر و شاکر بندوں کے لیۓ بہت سے عبرت پزیر مقام و مظاہر رکھے ہوئے ہیں لیکن اُن دوغلے لوگوں کا یہ حال ھے کہ جب سمند و دریا کی موجیں اُن کے جسموں کو ڈھانپنے لگتی ہیں تو اُس وقت وہ صدقِ دل کے ساتھ اللہ کو یاد کرتے ہیں اور جب اللہ اُن کو اُن جان لیو موجوں سے بچاکر خُشکی پر پُہنچا دیتا ھے تو اِن میں سے کُچھ صابر و شاکر لوگ تو اپنے صبر و شُکر پر قائم رہتے ہیں اور کُچھ بے صبرے اور نا شُکرے لوگ ھماری اُن سب عبرت انگیز نشانیوں کو فراموش کر کے پھر وہی کفر و شرک اختیار کر لیتے ہیں جس کے وہ عادی ہوتے ہیں ، آپ اِن لوگوں کو خبردار کردیں کہ تُم لوگ اپنے پالنہار کی ناشکری و نافرمانی سے ڈرو اور اپنے پالنہار سے بغاوت و سرکشی نہ کرو اور قیامت کے اُس دن کو یاد کرو جس دن کسی بیٹے کا کوئی باپ بھی اپنے کسی بیٹے کے کام نہیں آسکے گا اور جس دن کسی باپ کا کوئی بیٹا بھی اپنے باپ کو کوئی فائدہ نہیں پُہنچا سکے گا ، قیامت کا وہ وعدہ برحق ھے اِس لیۓ تُم کو دُنیا کی دلفریبی اِس فریب میں مُبتلا نہ کردے کہ تُم اُس دن کا سامنا کرنے سے بچے رہو گے ، یاد رکھو کہ ہر علمی و عقلی تحقیق سے اِس بات کی بھی تصدیق ہو چکی ھے کہ اُس قیامت کے آنے کا علم صرف اللہ کے پاس ھے ، فضا میں بادل بننے اور زمین پر بارش برسنے کا علم بھی صرف اللہ کے پاس ھے ، رحمِ مادر میں موجُود جنین کے خیال و اَحوال کا علم بھی صرف اللہ کے پاس ھے ، جانے والے دن کے بعد آنے والے دن کو کون کیا کرے گا اِس کا علم بھی صرف اللہ کے پاس ھے اور کون کس زمین پر مرے گا اِس کا علم بھی صرف اللہ کے پاس ھے لیکن ہر تحقیق سے اِس اَمر کی بھی تصدیق ہوچکی ھے کہ اللہ کی ذاتِ عالی ہی سب سے زیادہ خبر دار ذات ھے اور اللہ کی ذاتِ عالی ہی سب سے زیادہ آگاہ کار ذات ھے !
مطالبِ اٰیات و مقصدِ اٰیات !
اِس سُورت کی اِن آخری چار اٰیات میں سے پہلی دو اٰیات میں آنے والا پہلا مضمون اِس سے پہلے سُورَةُالبقرة کی اٰیت 164 ، سُورَةُ الاَعراف کی اٰیت 64 ، سُورَہِ یُونس کی اٰیت 73 ، سُورَہِ ھُود کی اٰیت 37 ، سُورَہِ ابراہیم کی اٰیت 32 ، سُورَةُالنحل کی اٰیت 14 ، سُورَةُ الاَ سراء کی اٰیت 66 ، سُورَةُالحج کی اٰیت 65 ، سُورَةُالمؤمنون کی اٰیت 22 ، 27 ، 28 ، سُورَةُالشعراء کی اٰیت 119 ، سُورَةُالعنکبُوت کی اٰیت 65 اور سُورَہِ رُوم کی اٰیت 46 میں بھی آیا ھے اور اِس سُورت کی اِن دو اٰیات کے بعد یہی مضمون سُورَہِ فاطر کی اٰیت 12، سُورَہِ یٰس کی اٰیت 40 و 41 ، سُورَةُالصٰفٰت کی اٰیت 140 ، سُورَہِ غافر کی اٰیت 80 ، سُورَہِ زُخرف کی اٰیت 12 اور سُورَةُالجاثیة کی اٰیت 12 میں بھی آۓ گا اِس لیۓ اِس مقام پر ہمیں اِن دو اٰیات کی مزید تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں ھے لیکن جہاں تک اِس سُورت کی آخری دو اٰیات کا تعلق ھے تو اِن میں سے پہلی اٰیت میں اللہ تعالٰی نے قیامت کے وعدے کو اپنا برحق وعدہ قرار دیتے ہوۓ اُس قیامت کی اُن عملی مُشکلات اور انسان کی بے بسی کی اُن نفسانی کیفیات کا ذکر کرتے ہوۓ بتایا ھے کہ اِس دُنیا میں ایک باپ کا اپنے بیٹے کے ساتھ اور ایک بیٹے کا اپنے باپ کے ساتھ جو تعلق ہوتا ھے وہ اِس دُنیا کا سب سے اھم تعلق ہوتا ھے اور اِس تعلق کی بنا پر یہ باپ اور بیٹا دونوں اِس دُنیا میں ایک دُوسرے کے لیۓ وہ سب کُچھ کرتے ہیں جو اُن کے بَس میں ہوتا ھے لیکن جب اِس دُنیا پر قیامت قائم ہو جاۓ گی تو اُس وقت باپ اپنے بیٹے کے اور بیٹا اپنے باپ کے کسی بھی کام نہیں آسکے گا ، ایک لَمحے کے لیۓ اِس بات سے قطع نظر بھی کرلیا جاۓ کہ قُرآن کی اِس اٰیت کو پڑھنے والا انسان قیامت کو مانتا ھے یا نہیں مانتا لیکن اَمرِ واقعہ بہر حال یہی ھے کہ اِس اٰیت کو جب بھی جو انسان پڑھتا ھے تو اُس کے فطری تجسس کے تحت خود بخود ہی اُس کے دل میں یہ سوال پیدا ہو جاتا ھے کہ جس قیامت کا اِس اٰیت میں ذکر کیا گیا ھے وہ قیامت آۓ گی تو کب آۓ گی اور اُس قیامت کے بعد انسان اِس دیکھی بھالی دُنیا سے نکل کر اُس اَن دیکھی دُنیا میں جاۓ گا تو کب جاۓ گا اِس لیۓ اِس اٰیت کے فورا بعد ہی اللہ تعالٰی نے انسان کے دل و دماغ پر دستک دینے والے اِس سوال کا جواب دیتے ہوۓ بتایا ھے کہ اِس زمین پر اُس لَمحہِ قیامت کے برپا ہونے کا علم صرف اللہ تعالٰی کے پاس ھے ، بارش برسنے کے وقت علم بھی صرف اللہ تعالٰی کے پاس ھے ، رحمِ مادر میں موجُود جنین کی ذات اور اُس کی کیفیات کا علم بھی صرف اللہ تعالٰی کے پاس ھے ، جانے والے دن کے بعد کون سا انسان کیا کرے گا اِس کا علم بھی صرف اللہ تعالٰی کے پاس ھے اور زمین کا کون سا انسان کس زمین پر رہ کر یا کس زمین پر جا کر مرے گا اِس کا علم بھی صرف اللہ تعالٰی کے پاس ھے ، اِس مسئلے پر چونکہ قدیم عُلماۓ روایت نے اپنی روایات کی بنیاد پر اور جدید اہلِ عقلیات نے بھی اپنی اپنی عقل کی بُنیاد پر ایک ہی قسم کی جَھک ماری ھے اِس لیۓ ھم اِس مسئلے پر قدرے تفصیل سے بات کریں گے ، قیامِ قیامت کے اِس مسئلے کو اِس کے صحیح تناظر میں سمجھنے کے لیۓ سب سے پہلی حقیقت یہ ھے کہ علمی و نظری اعتبار سے انسان کے سامنے صرف دو عالَم ہوسکتے ہیں جن میں سے ایک عالَم تو وہ عالَمِ غیب ھے جس کے بارے میں انسان کُچھ بھی نہیں جانتا اور دُوسرا عالَم وہ عالمِ شہود ھے جس میں انسان رہتا ھے اور اِس عالَمِ شہود میں انسان زمین و سمندر ، خلا و ہوا ، آفتاب و ماہتاب اور تاروں سیاروں کو کُچھ اپنے قدیم مشاھدے اور کُچھ اپنے جدید عصری علوم کی بنا پر ایک علمِ گمان کی حد تک ہی کُچھ جانتا ھے علمِ یقین کی حد تک کُچھ بھی نہیں جانتا ، قیامِ قیامت کے بارے میں دُوسری حقیقت یہ ھے کہ قیامت فہمی کا یہ معاملہ جو انسان کے سامنے موجُود ھے اِس کا مُعتبر تصور انسان کو انسان نے نہیں دیا بلکہ اُس کا مُعتبر تصور انسان کو قُرآن اور سابقہ آسمانی اَدیان نے دیا ھے اور اِس سُورت کی اِس اٰیت میں قیامِ قیامت کا جو تصور پیش کیا گیا ھے اُس کی اصل بھی وہی قدیم آسمانی اعتقاد ھے جو عقیدہِ توحید کی بنیاد ھے اور جس اعتقاد کے مطابق ہر انسان نے مرنے کے بعد جینا ھے اور ہر انسان نے جینے کے بعد اللہ وحدہٗ لاشریک کو اپنے کیۓ ہوۓ اعمالِ خیر و شر کا جواب دینا ھے اور اُس جواب کے بعد ہر انسان نے اپنے عملِ خیر کے مطابق اپنے مقامِ خیر تک یا اپنے عملِ شر کے مطابق اپنے مقامِ شر تک جانا ھے ، قیامِ قیامت کے بارے میں تیسری حقیقت یہ ھے کہ اللہ تعالٰی کے لیۓ عالَمِ غیب و عالَمِ شہود دونوں ہی عالَمِ شہود ہیں کیونکہ اُس کا لامحدُود علم اِن دونوں عوالم کی حدُود پر محیط ھے اور قُرآنِ کریم نے قُرآنِ کریم میں اُس کے اِس علمِ لا محدُود کا 708 بار ذکر کیا ھے ، 140 مقامات پر اُس کو ہر محسوس و غیر محسوس علم کا عالمِ مطلق بتایا ھے اور 49 مقامات پر اسمِ تفضیل کے صیغے "اَعلم" کے ساتھ اُس کا تعارف کرایا ھے ، اِس کے بعد سُورَةُالاَنعام کی اٰیت 73 ، سُورَہِ توبة کی اٰیت 94 و 105 ، سُورَةُالرعد کی اٰیت 9 ، سُورَةُالمؤمنون کی اٰیت 92 سُورَةُالسجدة کی اٰیت 6 ، سُورَہِ سبا کی اٰیت 3 ، سُورَہِ فاطر کی اٰیت 38 ، سُورَةُالزُمر کی اٰیت 46 ، سُورةُالحشر کی اٰیت 22 ، سُورَةُالجمعة کی اٰیت 8 سُورَةالتغابن کی اٰیت 18 اور سُورَة الجن کی اٰیت 26 کے 13 مقامات پر اُس کی ذات کو عالمُ الغیب کے طور پر متعارف کرایا ھے ، قیامِ قیامت کی چوتھی حقیقت یہ ھے کہ قیامت اُس عالمِ شہود پر قائم ہونی ھے جس میں انسان رہتا ھے اِس کی علامات بھی اسی جہان میں ظاہر ہونی ہیں اور اسی کتاب کے ذریعے ظاہر ہونی ہیں جو کتاب انسان کو اَحوالِ جہان سے خبردار کرنے کے لیۓ اللہ تعالٰی نے نازل کی ھے ، پانچویں حقیقت یہ ھے کہ اللہ تعالٰی اپنے عالمِ غیب کی کوئی خبر اپنے کسی رسُول کے سوا کسی اور انسان کو ہر گز نہیں دیتا ھے اور مشہور اعتقاد کے مطابق اللہ تعالٰی نے عالمِ غیب سے عالَمِ شہود میں ظاہر ہونے والے کسی رسُول کو بھی یہ خبر نہیں دی ھے کہ قیامت کب آۓ گی لیکن اٰیتِ بالا اِس مشہور اعتقاد کی نفی کرکے یہ بتاتی ھے کہ اللہ تعالٰی قیامت سے پہلے قیامت کی علامات کو بھی ظاہر کرے گا تاکہ انسان قیامت کے ظہور سے پہلے اللہ تعالٰی کے دین کے نُور کا جلوہ دیکھ سکے لیکن اِس بات کو سمجھنے کے لیۓ اِس بات کا سمجھنا لازم ھے کہ علم کا مرکز و مَخرج اللہ تعالٰی کی ذات ھے اور اللہ تعالٰی کے علم کا ایک حصہ اُس کا وہ علمِ خاص ھے جو اَزل سے اَبد تک اُس کی ذات کے ساتھ خاص ھے ، جیسے دُنیا کا قیام اور دُنیا کا اِنہدام وغیرہ ، اللہ تعالٰی کے اُس علم کا دُوسرا حصہ اُس کا وہ علم ھے جو اُس نے اپنے کسی رسُول کو دیا ھے اور جس علم سے قوانینِ دین و شریعت وجُود میں آۓ ہیں اور اللہ تعالٰی کے اُس علم کا تیسرا حصہ اُس کا وہ علمِ عام ھے جو علمِ عام وہ مُختلف زمانوں میں مُختلف انسانوں کو دیتا رہتا ھے اور اُس کے جس علم سے عالَمِ موجُود میں وہ نئی سے نئی اور مفید سے مفید تر ایجادات ہوتی رہتی ہیں جن ایجادات سے انسان فائدہ اُٹھاتا ھے اور یہ اللہ تعالٰی کا وہ علمِ عام اور علمِ ارتقاء ھے جو ہمیشہ اللہ تعالٰی کے پاس محفوظ رہتا ھے اور اللہ تعالٰی اِس علم کو زمین و اہلِ زمین کی ضرورت کے مطابق اپنے اپنے وقت اور اپنے اپنے زمانے میں ظاہر کرتا رہتا ھے ، قُرآنِ کریم نے اللہ تعالٰی کے اُن پہلے علوم میں اور اللہ تعالٰی کے اِس دُوسرے علم میں یہ فرق کیا ھے کہ اُس نے اللہ تعالٰی کے اِس دُوسرے علمِ ارتقاء کو قُرآنِ کریم کے 123 مقامات پر اُس لَفظِ "عند" کی قید کے ساتھ مُقید کر کے بیان کیا ھے جس کا معنٰی اُس علم کا اُس کے پاس ہونا ھے اور اِس موضوعِ سُخن کے حوالے سے قُرآنِ کریم کے اُن 123 مقامات میں سے ایک مقام سُورہِ زُخرف کی اٰیت 85 کا وہ مقام ھے جہاں پر اللہ تعالٰی نے یہ ارشاد فرمایا ھے کہ { وعندہ علم الساعة } یعنی قیامت کا علم اللہ تعالٰی کے پاس ھے اور دُوسرا مقام سُورَہِ لُقمٰن کی اٰیت 34 کا یہ مقام ھے جہاں پر اللہ تعالٰی نے اُن ہی الفاظ کا اسی طرح اعادہ و تکرار کیا ھے کہ { وعندہ علم الساعة } یعنی قیامت کا علم اللہ تعالٰی کے پاس ھے ، اَب یہ سادہ سی بات تو ہر انسان سمجھ سکتا ھے کہ قیامت کا علم اللہ تعالٰی کی ذات کے ساتھ خاص ہونا ایک الگ بات ھے اور قیامت کا علم اللہ تعالٰی کے پاس ہونا ایک دُوسری الگ بات ھے ، جو علم اللہ تعالٰی کی ذات کے ساتھ خاص ہوتا ھے وہ علم مخلوق کو نہیں دیا جاتا لیکن جو علم اللہ تعالٰی کے پاس ہوتا ھے وہ علم اللہ تعالٰی کی مخلوق کے لیۓ ہوتا ھے اور اللہ تعالٰی اپنا وہ علم حسبِ موقع و حسبِ ضرورت اپنی مخلوق کو دیتا بھی رہتا ھے ، عُلماۓ روایت نے اِس سُورت کی اِس اٰیت کے اِس عام فہم مضمون کو ایک مُشکل اور پیچیدہ مضمون بنانے کے لیۓ اِس مضمون کو { مُغیباتِ خمسہ } کے نام اور عنوان سے مشہور کر رکھا ھے حالانکہ اِس مضمون میں دُور دُور تک غیب کا کوئی لفظ موجُود نہیں ھے لیکن عُلماۓ روایت نے پہلے تو اِس مضمون کی تشریح میں غیب کا اپنے خیال سے ایک خیالی لفظ شامل کیا ھے اور پھر اِس مضمون سے مغیباتِ خمسہ کا یہ فاسد اعتقاد بر آمد کیا ھے کہ یہ وہ خاص پانچ چیزیں ہیں جن کو اللہ تعالٰی کے سوا کوئی نہیں جانتا ھے اور کبھی کوئی جان بھی نہیں سکتا ھے ، یعنی باقی تو سارا عالَمِ غیب اِن عالمُ العیب عُلماء نے جان لیا ھے ، بَس یہی پانچ چیزیں رہ گئی ہیں جن کو وہ نہیں جان سکے ہیں اور وہ بھی اِس لیۓ نہیں جان سکے ہیں کہ یہ پانچ چیزیں اللہ تعالٰی کی ذات کے ساتھ خاص ہیں ورنہ ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ یہ پانچ چیزیں اُن کی علمی و عقلی دسترس سے باہر رہ جاتیں ، ھم اِس سُورت کی اٰیت 27 کے ضمنی مضمون میں پہلے ہی یہ بات عرض کر چکے ہیں کہ قُرآنِ کریم کے اُس اٰیت کے اُس مضمون کے مطابق جب آفتابِ جہاں تاب ماہتابِ شب تاب کو روشنی دینا بند کر دیگا تو ماہتابِ شب تاب سمندروں میں مد و جزر پیدا کرنا بھی بند کر دے گا اور جب سمندروں میں مد و جزر پیدا نہیں ہو گا تو ایک طرف سمندری حیات فنا ہونا شروع ہوجاۓ گی اور دُوسری طرف زمین کا وہ توازن بگڑ جاۓ گا جس سے زمین کے چار موسم بننے کا عمل رُک جاۓ گا اور موسم و ماحول کے اِس تغیر کے بعد زمین کی پیداوار ختم ہونا شروع ہو جاۓ گی جس سے دُنیا قحط سے دوچار ہو کر مرنے لگے گی اور یہی بات قیامت کی وہ علامت ہوگی جس علامت کو دیکھ کر انسان کو معلوم ہو گا کہ قیامت کی جس گھڑی کا اللہ تعالٰی نے وعدہ کیا ھے وہ گھڑ اَب سر پر آپہنچی ھے اور ھم نے انسان کے لیۓ اللہ تعالٰی کے جس علمِ عام کا ذکر کیا ھے وہ علمِ عام اِس سُورت کی اِس اٰیت اور اِس اٰیت کے اِن پانچ مضامین بھی موجُود ھے جن کو ھم نے اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا بیان کیا ھے ، یہی وجہ ھے کہ اللہ تعالٰی نے اِن پانچ چیزوں کا ذکر کرنے کے بعد پہلے اپنے "علیم" ہونے کی اطلاع دی ھے اور اِس کے بعد اپنے "خبیر" ہونے کی خبر بھی دے دی ھے جس کا مطلب یہ ھے کہ جس طرح آج کا انسان آج اللہ تعالٰی کے اِس علمِ عام کی بدولت بارش برسنے کا وقت جاننے لگا ھے ، رحمِ مادر میں موجُود جنین کے وجُود و اعمالِ وجُود کو جاننے لگا ھے اسی طرح زمان و مکان کے کسی خاص لَمحے میں جب انسانی عقل مزید بلوغ اور مزید ابلاغ کے قابل ہو جاۓ گی تو اللہ تعالٰی دُوسری چیزیں بھی انسان پر ظاہر کر دے گا ، اُس کے علم ، اُس کے اظہارِ علم اور اُس کے عطاۓ علم پر پہلی بھی کوئی قدغن نہیں تھی اور آئندہ بھی نہیں ہو گی تاھم یہ الگ بات ھے کہ قیامت جب بھی آۓ گی تو اچانک ہی آۓ گی کیونکہ انسان اللہ تعالٰی کے اُس علم عام کے عام ہونے کے بعد اُس وقت بھی قُرآنی اٰیات کے بجاۓ انسانی روایات کے دَھندے اور شیطانی تاویلات کے پَھندے میں اُلجھا ہوا ہو گا !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 461750 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More