تحریر: روبینہ شاہین، لاہور
انسان ایک معاشرتی حیوان ہے۔ معاشرے سے تشکیل پاتا ہے اور معاشرے میں ہی
زندگی گزارتا ہے اور اسی معاشرے میں ہی اس کو موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یہ معاشرہ چاہے جیسا بھی ہو، حالات کیسے بھی ہوں، واقعات جیسے بھی ہوں،
مجبوریاں جیسی بھی ہوں، زندگی تے بہرکیف گزارنی ہوتی ہے اور یہ زندگی
معاشرے کے بغیر ناممکن ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے تمام مخلوقات سے افضل اور
سوچنے کیلئے سب سے بہترین تحفہ عطا کیا۔ دماغ اور کائنات کا سارا دارومدار
اس دماغ کے گرد گھومتا ہے لیکن جب انسان اس دنیا میں آتا ہے تو اس کیس وچ
کا دائرہ صرف اس کی اپنی خواہشات کے گرد گھومنے لگ جاتا ہے۔ وہ صرف وہی
سوچتا ہے جو اس کے دل کی خواہشات میں ہوتا ہے۔ ان خواہشات کے آگے انسان کو
دنیا کم تر نظر آتی ہے۔ ان خواہشات کو پورا کرتے کرتے انسان دنیا سے چلا
جاتا ہے اور وہ خواہشات اس کی موت کا سامان تیار کر دیتی ہیں لیکن انسان کو
آخر تک اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنے ساتھ کیا کیا کر رہا ہے۔
معاشرے کی تمام برائیاں اور اچھائیاں انسانوں کے گرد اپنے ہی کردار کے ساتھ
گھوم رہی ہوتیں ہے اور الزام ہم معاشرے کو دے رہے ہوتے ہیں۔ کبھی اے انسان
اپنا محاصرہ بھی کیاکراس معاشرے کی ہزارہا برائیوں کے ساتھ ہمیں پھر بھی
اسی معاشرے میں زندہ رہنا ہوتا ہے۔ ہم اس معاشرے سے دور رہنا بھی چاہیں تو
اکیلے کبھی زندگی نہیں گزار سکتے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
اپنی معاشرتی برائیوں میں ایک برائی یا لعنت ’’جہیز‘‘ کی ہے۔ جہیز کی خواہش
ہمارے اندر کی خواہشات میں ہی ترویج پاتی ہے، لینے والے کی ہوس اور دینے
والے کی مجبوری کہلاتی ہے۔ ’’جہیز ‘‘ ہمارے معاشرے کا ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔
خاص طور پر ان لڑکیوں کیلئے جو غریب والدین کی اولاد ہوتی ہیں اور جہیز کے
نہ ہونے کی وجہ سے شادی کی عمر کو والدین کے گھر میں ہی گزار دیتی ہیں۔ وہ
والدین کے گھر میں ہی بوڑھی ہو جاتی ہیں۔ کم جہیز لے کر جائیں تو سسرال
والے جینے نہیں دیتے۔ بے جا مطالبات اور خواہشات ایسی ہوتی ہیں جو سسرال
والے کی امیدیں اسی بیٹے اور بہو سے وابستہ ہوتی ہیں۔ اسی جہیز کی شکل میں
انہوں نے بہت سے کام پورے کرنے ہوتے ہیں۔ ڈھیر سارا سونا، الیکٹرونکس،
فرنیچر، کپڑے اور بڑے بڑے ہالز میں تقریبات کا اہتمام لڑکے والوں کو یہ
یقین ہوتا ہے کہ ان کا لڑکا ہی دنیا کا بہترین شخص تھا جس کیلئے دنیا کی
حسین ترین عورتیں مرتی تھیں۔
یہ سب لوازمات پورے کرتے کرتے چاہے لڑکی والوں کے گھر بک جائیں یا ماں باپ
مر جائیں لیکن یہ ہوسانی خواہشات لڑکے والوں کے دل کا ہوس بنی ہوتی ہیں۔
گھروں کی رجسٹریاں گروی پڑ جاتی ہیں، جائیدادیں بک جاتی ہیں پھر بھی لڑکی
کو سسرال میں وہ عزت اور مقام نصیب نہیں ہوتا۔ لڑکی کا سلیقہ مند ہونا
سگھڑایا اعلیٰ تعلیمی اسناد اور سب سے بڑھ کر اس کا کردار بھی ان لوگوں
کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتا جن کو مادی اشیاء سے لگاؤ ہوتا ہے۔
اگر جہیز کا سامان کم ہے تو اس میں نہ ہونے والی اشیاء کے متعلق طعنے
برداشت کرنے کیلئے حوصلہ اور ضبط لڑکی کے کردار میں ہونا ضروری ہے۔ ہماری
فیملی میں ایک ایسا واقعہ ہوا ہے کہ جہیز کی کمی یا نہ ہونے کی صورت میں وہ
لڑکی اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھی اور ساری عمر پاگلوں والی زندگی گزار دی
اور اسی کسمپرسی کی حالت میں اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔
لیکن آج بھی دور نہیں بدلا، حالات پہلے سے زیادہ خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ اب
تو گلیمر کی دنیا ہے ، اب تو جتنے زیادہ خوبصورت فنکشنز کا ارینج کیا جائے،
لڑکی کی قدروقیمت اتنی ہی بلند ہوتی ہے۔ ان حالات میں وہ لڑکیاں کیا کریں
جن کے والدین یہ سب افورڈ نہیں کرتے۔
ذرا سوچئے! ہمیں اس موضوع پر نہ صرف سوچنے بلکہ بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
کوئی ایسا نظام معاشرے میں متعارف کرایا جائے کہ جہیز جیسی لعنت سے ہمارے
معاشرے کو نجات مل سکے۔آیئے اس نیک کام میں قدم اٹھائیں اور مل کر ایسا
سسٹم ترویج کریں جس سے آنے والے وقت میں ہمارے بچوں میں یہ شعور پیدا ہو کہ
وہ شادی کو ایک مبارک ار مقدس رشتہ سمجھ کر ادا کریں۔
نبی کریمؐ کی سنت صرف نکاح ہے۔ اعلیٰ ترین شادی سسٹم اور جہیز نہیں۔ حضرت
بی بی فاطمہؓ کا نکاح حضرت علیؓ کے ساتھ سادگی سے انجام پایا جس کی مثال
رہتی دنیا تک رہے گی۔
کیا ہم ان کی مثال کو زندہ رکھ سکتے ہیں بلکہ خود کوئی مثال بنا سکتے ہیں۔
اس سوچ کو بدلنے کیلئے اس معاشرے کے مردوں کو اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔
جب مرد حضرات کی سوچ بدل جائے گی تو گھر والوں کیس وچ خود بخود بدل جائے
گی۔
جہیز میں اگر گاڑی نہ ہو موٹرسائیکل نہ ہو یا عروسی ملبوسات میں ایک لاکھ
کا جوڑا نہ ہو تو دلہن کسی بھی عزت کے قابل نہیں ہوتی۔ اس معاشرے کا نظام
صرف اور صرف عرت اورمرد کے گرد چلتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو کائنات کا وجود
حضرت آدم علیہ السلام اور بی بی حوا سے وجووجود میں آیا تو آج کے دور میں
یہ معاشرتی نظام جہیز کے گرد کیسے قائم ہو گیا۔ آج شادی کے مبارک رشتے میں
جڑنے کیلئے یہ جہیز جیسی لعنت کیوں پیدا ہو گئی۔ نکاح کو ایک مبارک رشتہ
سمجھیں اور خوبصورت معاشرہ ترویج کرنے کیلئے اس رشتے کو خوبصورتی اور سادگی
سے ادا کریں۔ بدلے ہوئے دور کو خوبصورت بدلا ہوا رشتہ دیں تاکہ ہماری وہ
بیٹیاں جو والدین کے گھر میں شادی کی عمر بتا رہی ہیں وہ بھی معاشرے کی اس
گھٹن سے نجات حاصل کر سکیں۔ آج کے نئے دور کے مردوں کو اپنی سوچ مثبت رکھنے
کی ضرورت ہے۔ عورت کو دنیا میں تحفظ چاہیے، عزت چاہیے، اس کے کردار کو ایک
آہنی دیوار چاہیے، جینے کیلئے ایک مضبوط سہارا چاہیے جس کے سائے تلے نیک
ماں باپ کی نیک اور باکردار بیٹیاں تحفظ کی زندگی گزار سکیں نہ کہ چند مادی
اشیاء کی خاطر یا تو ماں باپ کے گھر زندگی بتاتی رہیں یا طلاق جیسی لعنت لے
کر واپس آ جائیں جس کے اثرات تو ایسی شادی کے بعد پیدا ہونیو الے بچوں کو
ساری زندگی احساس کمتری کا شکار ہو کر گزارنے پڑتے ہیں اور پھر ایسے مسائل
سے اور بہت سے معاشرتی مسائل پیدا ہوتے جاتے ہیں جو زندگیوں کو ایسے
گھناؤنے جال میں قید کر دیتے ہیں کہ آخری دم تک انسان ان سے چھٹکارا حاصل
نہیں کر سکتا اور اس کا الزام دوسروں کو دیتا رہتا ہے۔
درحقیقت یہ سب مسائل انسان کے اپنے ہی پیدا کردہ ہوتے ہیں جو انسان کی دل
کی خواہشات سے جڑ کر دماغ کی نسوں پر حاوی ہو جاتے ہیں اور پھر زندگی ان کی
خطرناکیوں کا شکار ہو جاتی ہے۔
یاد رکھیں عورت کم کمانے والے مرد کے ساتھ خوشی سے گزارا کر سکتی ہے لیکن
عزت نہ کرنے والے ساتھ وقت گزارنا مشکل ہوتا۔ آیئے مل کر اپنی سوچ کو نئے
دور میں داخل کریں اور جہیز جیسی رسم کو ختم کرنے کیلئے مل کر کام کریں
تاکہ آنے والے وقت میں نئے معاشرتی سسٹم کو قائم کر سکیں۔ یہی ایک بدلی
ہوئی سوچ کئی معاشرتی برائیوں کا خاتمہ کر سکتی ہے۔
|