جمہوری حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ لوگوں کو بہتر سہولیات
فراہم کرے خاص کر دیہاتی علاقوں میں رہنے والوں کو زیادہ سے زیادہ آسانیاں
فراہم کی جائیں کیونکہ وہیں سے ہمیں روٹی کھانے کے لیے گندم اور سالن پکانے
کے لیے سبزی اور دالیں ملتی ہیں چائے میں ہم جو چینی استعمال کرتے ہیں اور
جس گنے سے چینی حاصل کی جاتی ہے وہ کماد بھی دیہاتوں میں آگایا جاتا ہے
ہمارے کسان جتنے محنتی اور انتھک ہیں اتنے ہی ہم شہری لوگ کاہل اور سست
ہوتے ہیں ہم نے سامنے والی مارکیٹ میں بھی جانا ہو تو گاڑی یا موٹر سائیکل
پر جاتے ہیں ایک میل کا پیدل سفر نہیں کرسکتے اور ہمارے گاؤں کے لوگ کئی
کئی میل پیدل چل لیتے ہیں زرعی اجناس کو منڈیوں تک لانے کے لیے حکومت سڑکیں
بناتی ہے بہتر طبی سہولیات کے لیے بی ایچ یو بنائے جاتے ہیں اور بجلی
پہنچانے کے لیے لمبی لمبی لائیں بچھائی جاتی ہیں میرا تعلق بھی گاؤں سے ہے
اور ہماری عمر کے لوگوں نے وہ وقت بھی دیکھا ہوا ہے جب بجلی کا نام نشان
نہیں ہوتا تھا لالٹن اور دیوے کا دور ہوتا تھا اس دور میں شہر میں بتیاں
گننے کا لطیفہ بڑا مشہور ہوا کرتا تھا بہاولپور کے ساتھ ہیڈ راجکاں اور اس
سے تھوڑے ہی فاصلے پر چک 36/DNBہے جہاں پر میں نے ہوش سنبھالی میری والدہ
اﷲ تعالی انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے (آمین) اپنے
گھرساہیوال سے جب گاؤں کے لیے روانہ ہوتی تو ہم تینوں بھائی اور بہن شازیہ
پلیٹ فارم سے اباسین ایکسپریس میں بیٹھتے اور ڈیرہ نواب صاحب احمد پو
رشرقیہ ریلوے اسٹیشن پر اتر جاتے صبح سے شروع ہونے والا یہ سفر شام تک جاری
رہتا پھر وہاں سے گاؤں جانے کے لیے بس پر بیٹھتے جو رات گئے ہمیں گاؤں کے
باہر جرنیلی سڑک پر اتارتی وہاں سے پھر ٹارچ لائٹوں کی روشنی میں ہمارے
ماموں چوہدری ارشاد اور چوہدری اعجاز ہمیں گھر لے کر آتے (دونوں اﷲ کو
پیارے ہوچکے ہیں اﷲ تعالی انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے
آمین)جہاں ہم سکول کی چھٹیاں گذارتے اس علاقے میں زمینی پانی نمکین ہونے کی
وجہ سے کھال اور نہر کا پانی کنویں میں ملا کر پیا جاتا تھا بجلی کا نام و
نشان نہ تھا اور طبی سہلولیات کے لیے کوئی ہسپتال بھی نہیں تھا مگر زندگی
بڑی خوشحال تھی پرسکون تھی اور رشتے بھی پائیدار تھے جیسے جیسے ترقی کا سفر
شروع ہوا ہم نے اپنے راستے بدل لیے پیسے کمانے کی دوڑ میں ہم اتنے آگے نکل
گئے کہ رشتوں کی پہچان کھو گئے ترقی کے اس سفر میں کرپشن کو ہم نے اپنا
ساتھی بنا لیا اور لوٹ مار کا بازار گرم ہوگیا شہروں میں کرپشن کے قصے عام
ہوگئے تو دیہاتوں میں بھی لوٹ مار شروع کردی گئی ابھی پچھلے دنوں گاؤں میں
میری نانی کا انتقال ہوا تو میں گاؤں چلا گیا واپسی پر بہاولپور میں منظور
گیلانی صاحب لاہور سے پہنچ گئے پھر ہم دونوں رحیم یار خان چلے گئے جہاں پر
اختر میتلا کے ساتھ فیروزہ ،خان پور ،بستی ارائیاں سمیت بہت سے دیہی علاقوں
میں گئے ایک رات ہم نے فیروزہ میں جام عاصم کے گھر بھی گذاری جہاں دیسی
گندم کی روٹی نے بہت مزہ دیاجب ہم نئی بستی ارائیاں گئے تو وہاں کے سادہ
لوح لوگوں کے ساتھ بھی لوٹ مار کا بازار گرم تھا آپ صرف ایک محکمے کا
اندازہ لگالیں کہ انکے اہلکار کیسے کیسے لوٹ مار کرنے میں مصروف ہیں باقی
کے 36محکموں کا کیا حال ہوگا پورا گاؤں صرف ایک شخص سے تنگ تھا افضل نامی
یہ شخص واپڈا میں معمولی ملازم ہے مگر اس نے پورے علاقے کی ناک میں دم کیا
ہوا ہے اس کے کارناموں سے محسوس ہوتا تھا کہ ایکسیئن واپڈا اور ایس ڈی او
واپڈا کی تعیناتیاں وہی کرتا ہے پورے علاقے سے پیسے اکھٹے کرتا ہے جسکی
چاہتا ہے بجلی بند کرکے میٹر اتروا دیتا ہے جسے چاہتا ہے ڈائریکٹ بجلی کی
لائن لگوا دیتا ہے پورا علاقہ تنگ ہے مگر کسی بھی افسر کی کیا مجال ہے جو
اسکے کسی کام میں رکاوٹ ڈالے اسی طرح وہاں کی پولیس ہے جو قابو سے باہر ہے
تھانے کیا ہیں عقوبت خانے ہیں اسی طرح باقی محکمے ہیں جو عوام کا سانس
نکلنے نہیں دے رہے حکومت جتنی کوشش کرتی ہے اس نظام کو درست کرنے کی یہ
کرپٹ ملازمین اسے اتنا ہی ناکام بنانے پر تلے ہوئے ہیں مقامی ایم پی اے اور
ایم این اے کا رویہ دیکھ کر ایسے لگتا ہے کہ یہ بھی اسی مافیا کا حصہ ہیں
آپ اندازہ لگائیں کہ الیکشن کے دنوں میں کروڑوں اربوں روپے خرچ کرکے جیتنے
والے کوئی پاگل لوگ تو نہیں ہیں کیا انہیں نہیں معلوم کہ کون کیا گل کھلا
رہا ہے انہیں سب معلوم ہوتا ہے پریشان حال فرد ہر جگہ کنڈی کھڑکاتا ہے اپنے
نمائندوں کو بھی بتاتا ہے مگر کیا مجال ہے انکی جو وہ کچھ بول جائیں عمران
خان اور بزدار سرکار لاکھ کوشش کرلیں بہتری لانے کی مگر جب تک ایسے ناسور
معاشرے میں موجود ہیں تب تک کسی طرف سے کوئی بہتری نہیں ہوسکتی ہمارے
تحقیقاتی ادارے بھی سوئے ہوئے ہیں سپیشل برانچ ہے ،انٹیلی جنس بیورو ہے ،آئی
ایس آئی ہے حیرت ہے کہ وہ بھی ان لٹیروں کی لوٹ مار سے واقف نہیں ہے اگر
واقف ہیں تو اپنی رپورٹوں میں واضح کیوں نہیں کرتے اگر یہ ادارے حکومت کو
اپنی رپورٹیں بھجواتے ہیں تو پھر ان لٹیروں،چوروں اور ڈاکوؤں کے خلاف
کاروائی کیوں نہیں ہوتی حکومت کا کام عوام کو تحفظ اور ریلیف دینا ہے پنجاب
حکومت اپنے طور پر اسکے لیے بھر پور کوشش بھی کررہی ہے مگر جب تک اداروں
میں عوام کا خون چوسنے والے گدھ نما انسان موجود ہیں تب تک حکومتی کوششیں
مٹی میں ملتی رہیں گی یہی ہمارا گراس روٹ لیول ہے سب سے پہلے اسی لیول کو
لیول کرنے کی ضرورت ہے تب ہی ہم ترقی اورخوشحالی کے پہلے زینے پر قدم رکھ
سکیں گے۔
|