عورت کا استحصال ہر دور میں ہوتا آیا ہے اور جاری ہے خواہ
وہ پیغمبروں کا دور ہو، قبل از مسیح کے واقعات ہوں یا موجودہ صدی ہو جب ہم
تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھتے ہیں تو تاریخ میں ہم عورت کیساتھ ہونے والی
ہولناکیوں کیتذ کرے پڑھ کر انگشت بددان رہ جاتے ہیں۔ اور شرم سے ہمارے سر
جھک جاتے ہیں۔ عورت کو ہر دور میں ایک جنس سمجھ کر اسکا استحصال کیا جاتا
رہا، کبھی وہ قبیلوں میں ہونے والی جنگوں کے دوران رسوا ہوتی رہی، کبھی وہ
کئی کئی مردوں کی جنسی ہوس کا شکار ہوتی رہی، کبھی اسے بازاروں میں جنس کی
مانند بھیڑ بکریوں کی طرح بیچا گیا۔ کبھی جنگ کے میدان میں اسے لونڈی بنا
کر اسکی عزت کواسکی اجازت کے بغیر لوٹا جاتا رہا اور اسے خس و خاشاک سمجھ
کراسکی عزت کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ عورت کیلئے تعلیم یافتہ ہونا جہاں بہت
ضروری ہے وہیں اسکے تحفظ کیلئے بھی ایسے قوانین کی ضرورت ہے جہاں وہ اپنے
کو محفوظ سمجھ سکے۔ تعلیم اور زندگی گزارنے کا سامان مہیا کیا جانے ہمارے
حکمرانوں کا فرض بنتا ہے تاکہ وہ مردوں کے اس استحصالی معاشرے میں عزت اور
احترام سے نہ صرف دیکھی جائے بلکہ وہ اپنے ان حقوق کے ساے میں اپنے آپکو
محفوظ بھی سمجھ سکے۔ تعلیم کے زیور سے ایک عورت کی آراستگی اسکے لئے وہ
ہتھیار جس سے وہ مقابلہ کرکے اپنے آپکو منوا سکتی ہے مگر مردوں کے اس
استحصالی معاشرے میں عورت کی حقوق زنی عورت کر مذید کمزور سے کمزور کرتی
چلی جا رہی ہے۔ ہمارے معاشرے کے عورت کے لئے بنائے جانے والے قوانین جن میں
جان بوجھ کر سقم رکھے گئے اسی طرح ہمارے معاشرے میں عورت کیلئے خود ساختہ
مذہبی پابندیاں اور قوانین عورت کے حقوق کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
آئیں ہم آپکو ایک ایسے خاندان سے ملواتے ہیں جو ایک ماں، دو معذور بیٹوں
اور دو بہنوں پر مشتمل ہے اس خاندان کا سربراہ انتقال کر چکا ہے اوراس
خاندان کی ایک ایسی بیٹی ہے جو پڑھی لکھی خاتون ہے اور وہ اپنے اس خاندان
کی واحد کفیل ہے۔ وہ ملازمت کرکے اپنی بوڑھی ماں اور اپنے ان دو جوان
بھائیوں کو جو کہ پیدائش سے لیکر تا حال صاحب فراش ہیں اور چلنے پھرنے اور
بیٹھنے سے بھی معذور ہیں انکا کھانا، پینا، اور بول براز بستر پر ہی ہوتا
ہے۔ اس عورت کی ہمت کے بارے میں سوچیں جو اپنے اس گھر کے تمام معاملات کو
سنبھالتی ہے اور کیسے سنبھالتی ہے وہ کہتی ہے کہ یہ میں جانتی ہوں یا
پھرمیرا خد ہی جانتا ہے مردوں کی بھوکی اور مجھے تاڑتی ہوئی جنس زدہ نظریں،
انسے بچ بچا کر، لڑ کر انہیں جوتے مار کر وہ اس مقام پر پہنچی ہے اور اب
کسی جنس زدہ زنخ? کی ہمت نہیں ہے جو اسکے قریب بھی پھٹک جائے۔ وہ کہتی ہے
کہ شروع شروع میں مجھے مردوں کی انتہائی ہوس زدہ اور بھوکی نظروں کا سامنا
رہا مگر میں نے ہمت نہ ہاری اور ان میں سے کئی ایک کی جوتوں سے ٹھکائی بھی
کی مگر اس استحصالی معاشرے میں کسی نے ان مردوں کیلئے انکی حرمزدگی کا نوٹس
نہ لیا اور میں نے اکیلے ہی ان کمینوں کا مقابلہ کیا اور آج میں اس مقام پر
ہوں کہ میں ایک انتہائی با ہمت اور بہادر خاتون ہوں۔ میں نے ہر حال میں اﷲ
کا شکر ادا کرتے ہوئے حالا ت کا مقابلہ کیا ہے۔ وہ کہتی ہے کہ ہم ایسے بدبو
دار اور انتہای تعفن زدہ معاشرے میں رہتے ہیں جہاں ایک عورت جنسی خواہش یا
پھر بچے پیدا کرنے والی مشین سے ذیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ عورت کو ہمارے
معاشرے میں آج بھی مرد کے پاؤں کی جوتی سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے اسلامی معاشرے
کا شعار رہا ہے کہ عورت کو مقید کرکے رکھا جائیجہاں عورت پر ہر قسم کی قد
غن لگا کر اسے چار دیواری تک محدود کردینے کی سازش آج بھی جاری ہے۔ اسکی
ماں کہتی ہے کہ میری بیٹی نے تعلیم حاص کی اور وہ اپنے روزگار سے وابسطہ ہے۔
میرے دو بچے معذور ہیں جنکی عمریں 20 اور 25 سال کی ہیں۔ مجھے انکی بیماری
کیلئے ادویات خریدنے پر ہزاروں روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ بعض اوقت تو کئی
کئی دن گزر جاتے ہیں انہیں ادویات نہیں ملتیں۔ میری بیٹی کی تنخواہ اتنی
نہیں کہ ہم اپنے اخراجات سے باہر نکل سکیں۔ گھر کا کرایہ، بجلی اور گیس کے
بل، کرایہ مکان اتنی مشکل سے ادا کئے جاتے ہیں ہم اﷲ کا شکر ادا کرتے ہیں
اور صبر سے گزار اوقات کرتے ہیں۔ بعض اوقات زندگی اتنی مشکل ہو جاتی ہے کہ
جینا محال نظر آتا ہے مگر ہر حال میں اﷲ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ حکومت بھی
ہماری کوئی امداد نہیں کرتی۔ ہم ان بے حس اور بے ضمیروں کے معاشرے میں رہتے
ہیں جہاں اکیلی عورت کی حفاظت کرنے والے بھی اسے بھوکی نظروں سے دیکھتے ہیں۔
اسنے روتے ہوئے کہا کہ اﷲ جس حال میں رکھے ہم خوش ہیں۔ ایک وہ لوگ ہیں جوہر
قسم کے جرائم بھی کرتے ہیں مگر انہیں نہ کوئی سزا دیتا ہے اور نہ ہی انہیں
کوئی پوچھنے والا ہے۔ میری تو اﷲ سے ہر وقت یہی دعا ہوتی ہے کہ اﷲ ہماری
بیٹی کی عزت کو محفوظ رکھے۔ وہ کہتی ہے کہ میری بیٹی جب تک گھر واپس نہ
آجائے میں اسکے لئے پریشان رہتی ہوں۔ وہ کہتی ہ? کہ اگر میں آج اس معاشرے
کے ہوس پرست اور جنسی کتوں کے خوف اور ڈرسے اپنے گھر بیٹھ جاتی تو میری ماں
اور میرے معذور بھائی آج مر گئے ہوتے۔ مگر اﷲ کا شکر ہے کہ میری ہمت تا حال
میرے ساتھ ہے ورنہ ہمارے گھر میں تو فاقے ہوتے، اور موت کے سائے ہمارے گھر
پر منڈلا رہے ہوتے۔ ہمارے اس مردوں کیغالب معاشرے میں عورت کو مکمل حقوق
ملنے چاہئں اور ایسے قوانین بنانے ضروری ہیں جن سے عورت کا تحفظ ہو سکے۔
عورت کو مرد کے مقابے میں ہر میدان میں شانہ بشانہ کام کرنے کے مواقع میسر
نہیں ملتے عورت ایسے ہی پستی رہیگی۔ ہمارے معاشرے میں عورت کو مرد کی نسب ت
کم سمجھا جاتا ہے۔ مگر ہمارے معاشرے اور اور مذہبی عوامل اس بت پر مضر ہیں
کہ عورت مرد کی نسبت کم تر ہے اور اس روئے نے عورت کی صلاحیتوں کو زنگ آلود
کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے علماء
اور سیاستدان ایک ہی زبان بولتے ہیں اور عورت کا استحصال جاری ہے۔ جن
معاشروں میں عورت کو چار دیواری میں مقید کرکے رکھا جائیگا، اسے صنف نازک
کہہ کر اسے صرف جنسی خواہش اور بچے پیدا کرنے کی مشین سے ذیادہ اہمیت نہیں
دی جاتی وہ معاشرے ترقی یافتہ معاشرے نہیں کہلاتے اور وہ زوال پذیری کا
شکار ہو کر تباہ و برباد ہو جایا کرتے ہیںَ۔ |