|
|
آزادی بڑی قیمتی چیز ہے، 1947 میں جب قیام پاکستان عمل
میں آیا تو متحدہ ہندوستان کے تمام ریاستوں کو یہ حق دیا گیا یا تو وہ آزاد
رہیں یا ہندوستان اور پاکستان میں سے کسی کا ریاز کا انتخاب کرلیں - |
|
مہاراجہ کشمیر جو جانتا تھا کہ کشمیر جیوگرافیائی
اور عوامی اکثریت کی بنا پر پاکستان ہی کے حصے میں جائے گا تو اس نے اپنا
راج پاٹ بچانے کے لئے قائداعظم محمد علی جناح ؒجو اس وقت گورنر جنرل
پاکستان تھے سے اسٹیٹس کو (Status Quo) کا معاہدہ کیا تاکہ پاکستان کو
کشمیر کی آبادی کو کسی قسم کی امداد میسر نہ آسکے- |
|
لیکن دوسری جانب ریاست میں مسلمانوں
کا قتل عام بھی شروع کر دیا، گو کہ پاکستانی افواج مداخلت نہیں کر سکتیں
تھیں، لیکن کشمیری خود اٹھ کھڑے ہوئے اور ڈوگرا راج کے خلاف علم بغاوت بلند
کیا، جس کے نتیجے میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان آزاد ہو گئے- ڈوگرا راجہ
نے باقی ماندہ کشمیر اپنے ہاتھوں سے جاتا دیکھا تو بھارت سے فوجی امداد کی
درخواست کر دی- |
|
27 اکتوبر 1947 کے دن کشمیر میں سری نگر اور دیگر ہوائی پٹیوں پر
بھارتی افواج اور سامن حرب سے لدے ہوئے ڈکوٹا طیارے اترنے لگے، اس طرح
بھارتی افواج ریاست جموں کشمیر میں داخل ہو گئیں، بھارتی اخبارات 26
اکتوبر1948 کے جو ایڈیشن شائع ہوئے جیسے مثال کے طور پر The Hindustan
Times اس میں ریاست کو بھارت کے حوالے کرنے کا اعلان درج ہے- |
|
|
|
اسی میں نیچے ریاست کے باشندوں کی رائے شماری کے حوالے
سے خبر بھی موجود ہے، مطلب بھارتی افواج قابض بھی ہو گئیں، اور رائے دہی کا
سلسلہ جو ہونا تھا وہ بھی گول کر گئیں۔ چھبیس اکتوبر کو طے پانے والے
معاہدے کی قانونی حیثیت ہی کیا ہے جبکہ ریاست کا راجہ اس قبل قائد اعظم سے
جو معاہدہ کر چکا تھا، اس کی رو سے تو یہ وعدے کی کھلی خلاف ورزی تھی- |
|
اچھا بھارت کا بھی حساب نرالہ ہے، اسی طرح ریاست جونا
گڑھ جس کی آبادی اکثریت ہندوؤں کی تھی،لیکن نواب مسلمان تھے، اس مسئلہ کو
آبادی کی نگاہ سے دیکھا، اور کشمیر کے مسئلے کو راجہ کی نگاہ سے دیکھا-
مہاراجہ کشمیر کشمیر کے بیٹے کرن سنگھ کا بیان آج بھی مختلف ویب سائٹس پر
موجود ہے ، وہ کشمیر کے مسئلے کو بھارت کا داخلی معاملہ سمجھنے کے لئے تیار
ہی نہیں- اس وقت ان حالات میں اس سے بڑی شہادت اور کیا ہو سکتی ہے- |
|
پاکستان اور بھارت کے درمیان اسی مسئلہ کی بنیاد پر
جنگیں لڑی جا چکی ہیں ، یہ ہی مسئلہ خطے میں ایک نیو کلئیر فلیش پوائنٹ بنا
ہوا ہے- ایک سیاہ رات سے دوسری سیاہ رات میں کشمیری قوم کی زندگی داخل ہو
گئی- |
|
31 اکتوبر 2019 کو بھارت نے کشمیرکا خصوصی اسٹیٹس ختم کر
دیا، یکطرفہ طور پر ان تمام معاہدوں سے پیچھے ہٹ گیا جو کشمیر پر قبضے کے
بعد نہرو اور کشمیر قیادت کے درمیان ہوئے تھے- ساری وادی میں لاک ڈاؤن ہے-
ذرائع اطلاعات پر مکمل پابندی ہے، یہاں تک کہ سوشل میڈیا کے استعمال بھی
بند ہے، وہ کٹھ پتلی قیادت جو صبح شام بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کے ڈنکے
بجاتے نہیں تھکتے تھی آج اسی کی قید میں اپنے ماضی پر شرمندہ ہیں- |
|
|
|
ان کے بزرگوں کی لمحوں کی کوتاہی اب اس آنے والی نسل نے
دیکھنی ہے، ایل او سی ایک متحرک خطہ جنگ تو بنا ہوا تھا، ایل اے سی بھی اب
ایک ممکنہ جنگی ماحول کی جانب چلی گئی ہے- یعنی حالیہ چین بھارت کشیدگی میں
اس کی ایک اور اہمیت واضح ہو گئی، کشمیر پر ظلم اور ستم جاری ہے، روز نئے
برہان وانی اور مقبول بھٹ بھارتی درندگی کو مردانہ وار للکارتے ہیں ،
شہادتوں کے جام پیتے ہیں ، پیلٹ گنس سے متاثرہ بوڑھے بچے ، ہاف ویڈو یعنی
آدھی بیواؤں کی بڑی تعداد ایسی خواتین پر مشمل ہے جو یہ بھی نہیں جانتی کہ
انکے شوہر زندہ بھی ہیں یا کسی تنگ گھٹی میں خون کے گھاٹ اتارے جا چکے- |
|
بچے تعلیم سے اور بیمار ہسپتالوں سے محروم ہیں، اس علاقے
کی تاریخ کتنی ہی سیاہ ہے لیکن اس کے رہنے والے آج بھی یہی کلام پڑھتے نظر
آتے ہیں ’’ میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے ایک دن ستم شعاروں سے تجھ کو
چھڑائیں گے ایک دن ــ‘‘ ۔ معروف ترین کشمیری حریت رہنما سید علی گیلانی کا
گزشتہ ماہ یکم ستمبر 2021 کے روز سری نگر میں انتقال ہو گیا- سید علی
گیلانی کو اکثر گھر میں نظر بند رکھا جاتا تھا، لیکن وہ جب بھی اس نظربندی
سے باہر آتے ان کے لبوں پر یہی الفاظ ہوتے ہم پاکستانی ہیں ۔قابض افواج ان
کی میت سے ایسا گھبرائیں کہ ان کی تدفین میں ان کے اپنے گھر والوں کو شریک
نہیں ہونے دیا گیا، بوکھلاہٹ کا اس بڑا مظاہرہ اور کیا ہو سکتا تھا۔ |