کونسے 6 اہم اقدامات کرنے ہوں گے اگر عمران خان خود کو دوبارہ وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں تو!

image
 
عمران خان کی طرز حکومت پر غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے جس بات کا عمران خان دعویٰ کرتے تھے کہ وہ ٹیم بنانا جانتے ہیں، اور ان جیسی ٹیم کوئی بنا ہی نہیں سکتا یہ خیال ان کی حکومتی ناکامیوں کی وجہ سے کافی حد تک پس پشت جاچکا ہے - حالیہ حکومت میں کوئی کامیاب ماڈل نہیں دے سکی۔
 
1)پی ٹی آئی کو ادارہ بنانے کا دعویٰ
 پاکستان تحریک انصاف آج صرف ایک ہی شخص کے گرد گھوم رہی ہے۔ وہ شخص کوئی اور نہیں وزیر اعظم عمران خان ہی ہیں، عمران خان دعویٰ کیا کرتے تھے پاکستان تحریک انصاف ایک ادارہ بنے گی تاحال اس پرعمل نہیں ہوسکا- شاید 2018 کے الیکشن میں عمران خان نے اس حوالے سے سمجھوتے کیے، ورنہ حکومت میں آنا ممکن نا ہوتا لیکن اس کا نقصان یہ ہوا یہ پارٹی بھی دیگر پارٹیوں کی طرح بھیڑ چال یا معتبر زبان میں Status Quo کی پارٹی بن کر رہ گئی- جب کبھی پی ٹی آئی کی تاریخ لکھی جائے گی تو سوال آئے گا عمران خان نے بیرسٹر حامد خان اور جسٹس وجیہہ الدین جیسے بہترین انسانوں کے بجائے جہانگیر ترین اور الیکٹیبلز کو فوقیت دی، نتیجہ پارٹی سے نظریاتی کارکن کا انخلا ء شروع ہوگیا۔ جہانگیر ترین کے معاملے کے بعد پارٹی میں دھڑے بندیاں واضع ہوگئیں ہیں۔
 
 2) احتساب کے دعوے
 احتساب کا عمل نہ شفاف ہوا، نہ تیز تر ہوا، بلکہ اگر غور کیا جائے تو جیسے شفقت محمود جو موجودہ حکومت کے وفاقی وزیر تعلیم ہیں انہوں ایک ٹی وی شو میں کہا اس عمل نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا، ایسا ہی ایک بیان موجودہ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے دیا کہ سرکاری مشینری سے فائلیں آگے نہیں بڑھ رہی ہیں ،کوئی فائلوں کو ہاتھ لگانے کے لئے تیار نہیں- خیر اس حوالے سے نئی پیش رفت یہ ہوئی کہ ایک آرڈیننس کے ذریعے بظاہر نیب کے قوانین میں کچھ تبدیلی لائی گئی، لیکن ناراض اپوزیشن جن کی شمولیت کی بغیر مثبت قانون سازی نہیں ہو سکتی، وچ ہنٹنگ کا الزام عام پر طور پر لگتا ہے، جس پر مین اسٹریم میڈیا کا ایک بڑا حصہ بھی تنقید کرتا ہے۔ اگلی بار یہ نعرہ نہیں چلے گا، ڈلیوری درکار ہے۔
 
3) رائے عامہ میں جانے والا تاثر
عمران خان کو کسی مضبوط اپوزیشن کا سامنا نہیں، گزشتہ سال تو مرحوم مغفور پی ڈی ایم ہوا کرتی تھی، جو پی پی پی اور اے این پی کے خارج ہونے کے بعد اپوزیشن میں دراڑ کی علامت ٹھری، لیکن عمران خان کی اصل اپوزیشن خود عمران خان کا ماضی ہے، عمران خان کے کہے ہوئے الفاظ آئے روز ٹی وی پر ان کے خلاف ایک ثبوت کے طور پر نشر ہوتے ہیں- عمران خان بلاشبہ اچھے شعلہ بیان ہیں ، لیکن شعلہ بیانی اپنی جگہ زہر قاتل بھی بنی ہوئی ہے، ابھی ڈالر کے مہنگے ہونے کے حوالے سے عمران خان کا بیان بار بار نشر ہوتا اگر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر گھٹتی تو سمجھ لو تمہار حکمران چور ہے۔ تو عمران خان کو ایک تو احتیاط کرنے کی بھی ضرورت ہے، پھر میڈیا سے اس وقت لڑائی کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
 
image
 
4)گیس اور توانائی کے مسائل پر توجہ درکار ہے
 دہشت گردی کے خلاف جنگ اختتام پزیر ہو چکی تقریباً، کرونا وائرس کا بھی بظاہر اختتام ہی ہے، لیکن معیشت خصوصاً افغان مسئلے کے ساتھ بحال کرنا مشکل کام ہوگا، عمر ایوب ، ندیم بابر کے حوالے سے ایل این جی اور توانائی کے معاملات صحیح ہینڈل نہ کرنے کے شواہد خاصے واضح ہیں، ان کے معاملات میں مناسب انکوائری وقت کی ضرورت، اگر ثابت ہوجائے تو سخت کارروائی کی جائے، ویسے بھی کوئی تو ذمہ دار ہے۔
 
5) صنعتوں کی بحالی کے اقدامات
 کاروبار میں آسانی، صنعتوں کی بحالی کے حوالے سے اقدامات سامنے آئے، ان کو بڑھانے کی ضرورت ہے، فیصل آباد میں دوبارہ فعل ہونے والے صنعت سے پارٹی کو لانگ ٹرم میں فائدہ ہو سکتا ہے، فیصل آباد اور گردو نواح میں صنعتوں کی بحالی ایک مثال ہے- لارج اسکیل مینوفیکچرنگ یعنی نئے بڑے پلانٹس کی پاکستان میں تنصیب سے دور رس نتائج بر آمد ہونگے۔گیس اور ایندھن کی فراہمی کے ساتھ سستے خام کی فراہمی بھی یقینی بنائے جانے کی اشد ضرورت ہے- جس سے ملک کے امپورٹ بل میں کمی ہونے کا امکان پیدا ہو گا، جو ایک جانب روزگار میں اضافے کا سبب بنے گا ، دوسری جانب ڈالر پر انحصار کم ہو جائے گا۔پھر کراچی حب ہے صنعتوں کا، اس کا خصوصی خیال رکھنے کی ضرورت ہے ورنہ سندھ میں حکومت سازی کا خواب پورا نہیں ہو پائے گا۔
 
image
 
6) مہنگائی پر قابو پانا
 کارٹلز بنے (سرمایہ داروں نے خفیہ اجارداریاں قائم کیں )خاص کر چینی اورآٹے کے معاملے پر، ان معاملات پر یا تو پردہ داری کی گئی، اور تاثر آیا اصل لوگوں کو جیسے بچالیا گیا، تو مہنگائی بڑھی تو جو کام اپوزیشن نہ کر سکی مہنگائی نے کردیا- مہنگائی کا جن ہر حال میں بوتل میں واپس بھیجنا ہوگا، یہی سب سے بڑا اپوزیشن لیڈر ہے، اگر عمران خان اس پر ڈھنگ سے قابو پاگئے تو عوام ان بہت سارے معاملات پر صرف نظر کر سکتی ہے۔ بیس سے چالیس بنیادی استعمال کے آئٹم کی قیمتوں میں کمی کی فوری ضرورت ہے، اسی طرح ادویات کی قیمتیں بھی کافی بڑھ چکی ہیں، یہ مسئلہ بھی اگلے الیکشن سے پہلے صحیح ڈھب سے حل ہونا چاہیے۔ پیٹرول اور ڈالر کی قیمتوں کو قابوں میں رکھنا بہت اہم ہے ، مہنگائی کا جن انھی دو چراغوں سے طاقت حاصل کرتا ہے-
 
آخری نقطہ
 ویسے تو عمران خان کہا کرتے تھے کہ سیاست دان اگلے الیکشن کا سوچتا ہے، لیکن لیڈر اگلی نسل کا سوچتا ہے- لیکن فی الحال ان کو اس وقت اتنے محدود وقت یعنی تقریباً دو سال میں اگلے الیکشن کی مناسب تیاری کرنا ہوگی، ورنہ حالات قابو سے باہر ہوتے جارہے ہیں۔
YOU MAY ALSO LIKE: