#العلمAlil علمُ الکتاب سُورَةُالسجدة ، اٰیت 1 تا 6
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
الٓمٓ 1
تنزیل الکتٰب
لاریب فیه من
رب العٰلمین 2 ام
یقولون افترٰه بل ھو
الحق من ربک لتنذر قوما
مااتٰہم من قبلک لعلھم یھتدون
3 اللہ الذی خلق السمٰوٰت والرض و
ما بینھما فی ستة ایام ثم استوٰی علی
العرش مالکم من دونه من ولی ولاشفیع
افلاتتذکرون 4 یدبرالامر من السماء الی الارض
ثم یعرج الیه فی یوم کان مقداره الف سنة مما تعدون
5 ذٰلک علم الغیب والشہادة العزیز الرحیم 6
اے ھمارے رسُول ! اِس کتابِ نازلہ کو زمان و مکان کے ہر ایک ثانیۓ اور ہر
ایک دورانیۓ سے اُس اللہ نے آپ کے لیۓ جمع کیا ھے جو ہر ایک جان اور ہر ایک
جہان کا تخلیق کار و پالنہار ھے مگر کیا دیدہ دلیری و دریدہ دہنی ھے کہ اِس
کتابِ لاریب کے مُنکر اِس کتاب کی اللہ کی طرف کی جانے والی نسبت کو اللہ
کی ذات پر لگایا گیا ایک بہتان کہتے ہیں لیکن اِس کتاب کی اِس حقیقت سے آپ
تو ہرگز لاعلم نہیں ہیں کہ یہ کتاب آپ کے پروردگار نے آپ پر اِس لیۓ نازل
کی ھے کہ آپ اِس شہر و نواحِ شہر کے اُن لوگوں کو انحرافِ حق کے بدترین
نتائج سے ڈرائیں جن کے پاس اِس سے پہلے انحرافِ حق کے اِن نتائج سے ڈرانے
والا کوئی نہیں آیا ھے اور اِس کتاب کا مقصدِ نزول یہ ھے کہ جو لوگ آپ سے
اِس کتاب کو سنیں وہ اِس کتاب پر ایمان لائیں ، اِس کتاب میں اللہ نے اپنی
جس عاقل مخلوق کے لیۓ اپنے اَحکامِ ھدایت نازل کیۓ ہیں اُس عاقل مخلوق کی
رہائش کے لیۓ اللہ نے جن چھ زمانوں میں اِس زمین و آسمان کو بنایا ھے اِن
ہی چھ زمانوں میں اللہ نے اُس مخلوق کی آسائش کے لیۓ اِس زمین و آسمان میں
وہ سارا ساز و سامان بھی بنایا ھے جو اِس زمین و آسمان کے درمیان موجُود ھے
اور اِس کام کی تکمیل کے بعد اللہ نے اپنے اِس عالَم کے اُس عرشے پر اپنا
ایک مرکزِ نظام بھی قائم کیا ھے جس عرشے کا ایک دن باقی دُنیا کے ایک ہزار
سال کے برابر ھے ، اللہ کے اِسی مرکزِ نظام سے اِس مخلوق کی قضا و قدر کے
فیصلے صادر ہوتے جو زمین پر آباد ھے ، اِس مخلوق کی اِس حرکت و عمل کا یہ
اہتمام اِس لیۓ کیا گیا ھے تاکہ یہ مخلوق جان جاۓ کہ اِس عالَم میں اِس
مخلوق کا اللہ کے سوا کوئی بھی سفارش کار و مددگار نہیں ھے اور یہ بھی جان
جاۓ کہ اللہ ہی اِس عالَم کا وہ ایک عالِم و عامل ھے جو ایک ہی وقت میں
اپنے ہر ایک اَمر اور اپنے ہر ایک مقامِ اَمر پر نگاہ و دستگاہ رکھتا ھے !!
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم کی اِس سُورت کا موضوعِ سُخن تَخلیق عالَم و تَعلیم عالَم اور
تَجدیدِ عالَم ھے لیکن قُرآنِ کریم نے اِن تین موضوعات میں سے پہلے جس
موضوع کو اپنا محور بنایا ھے وہ تَخلیقِ عالَم یا تَجدیدِ عالَم نہیں ھے
بلکہ تعلیمِ عالَم ھے ، تَخلیقِ عالَم و تَجدیدِ عالَم کے دو موضوعات پر
تعلیمِ عالَم کے موضوع کو ترجیحِ دینے کی وجہ یہ ھے کہ انسان جس عالَم میں
موجُود ھے وہ اِس عالَم کو اسی طرح جانتا ھے جس طرح وہ اپنے وجُود کو جانتا
ھے اِس لیۓ قُرآنِ کریم نے انسان کے سامنے ایک ترجیحی بُنیاد پر پہلے وہ
تعلیمِ عالَم پیش کی ھے جس سے انسان وجُودِ عالَم اور وجُودِ آدم کی حقیقت
کو جان سکتا ھے ، قابلِ ذکر بات یہ ھے کی قُرآنِ کریم نے اِس کتابِ تنزیل و
تعلیم کی پہلی وحی میں بھی تعلیم کی اِسی اہمیت کے پیشِ نظر اِس کتابِ
تنزیل کی پہلی وحی میں بھی ہر چیز سے پہلے اسی تعلیم کا ذکر کیا ھے جو
تعلیم عالَم و اہلِ عالَم کی ہمیشہ سب سے بڑی ضرورت رہی ھے اور ہمیشہ سب سے
بڑی ضرورت رھے گی ، دُوسری قابلِ ذکر بات یہ ھے کہ سُورَةُالبقرَة کی طرح
اِس سُورت کا حرفِ تمہید بھی { الٓمٓ } ھے اور سُورَةُالبقرَة کی طرح اِس
سُورت کے اِس حرفِ تمہید کے بعد بھی اِس سُورت کی دُوسری اٰیت میں اسی طرح
اِس کتابِ لاریب کا ذکر کیا گیا ھے جس طرح سُورَةُالبقرَة کی دُوسری اٰیت
میں اِس کتابِ لاریب کا ذکر کیا گیا ھے جو سیدنا محمد علیہ السلام کے قلبِ
اَطہر پر نازل کی گئی ھے ، اِس سورت کا نام { السجدة } ھے جس کو الف لام کے
حرفِ تعریف کے ذریعے معرفہ بنایا گیا ھے ، مُجرد سجدہ نکرہ ھے اور اُس کا
عام معنٰی انسان کا اللہ تعالٰی کے اَحکام کے سامنے جُھکنا ھے اور جب یہی
عام حُکم تنزیلِ کتاب کے ساتھ ایک معرفہ حُکم بنا کر پیش کیا گیا ھے تو اِس
علمی معرفت کے بعد اِس کا معروف مفہوم صرف اور صرف یہ ہوگا کہ اللہ تعالٰی
کے نزدیک اللہ تعالٰی کے سامنے انسان کا وہی جُھکنا معتبر ہو گا جس کا حُکم
اِس کتاب میں موجُود ہو گا اور انسان کے جُھکنے کا ہر وہ عمل قطعا غیر
معتبر ہوگا جس کا حُکم اِس کتاب میں موجُود نہیں ہو گا اور اللہ تعالٰی کے
اسی حُکم میں اللہ تعالٰی کا یہ حُکم بھی موجُود ھے کہ اِس کتابِ علم و عمل
کے نازل ہونے کے بعد انسان کے سامنے صرف دو راستے موجُود ہیں جن میں سے ایک
راستہ یہ ھے کہ وہ دل کے کامل صدق کے ساتھ اِس کتاب کے اَحکامِ صدق کے
سامنے جُھک جاۓ اور دُوسرا راستہ یہ ھے کہ وہ دل کی پُوری آمادگی کے ساتھ
وہ ذلّت و رُسوائی سہنے کے لیۓ تیار ہو جاۓ جس ذلّت و رُسوائی کا آنا اتنا
ہی یقینی اَمر ھے جتنا موت کا آنا اور قیامت کا قائم ہونا ایک یقینی ھے
اَمر ھے ، اِس سلسلہِ کلام کی سب سے زیادہ قابلِ ذکر بات یہ ھے کہ قُرآنِ
کریم میں اِس کتابِ لاریب کا اِس اعلانِ لاریب کے ساتھ پہلا ذکر الفاتحہ کے
سات اٰیات کے بعد سُورَةُالبقرَة کی دُوسری اور قُرآنِ کریم کی کتابی ترتیب
میں آنے والی نویں اٰیت میں جو ذکر ہوا ھے اُس کے بعد اُسی ذکر کا اِس
سُورت کی دُوسری اٰیت میں بھی اعادہ کیا گیا ھے کیونکہ اِس سُورت سے بارہ
اٰیات قبل سُورَہِ لُقمٰن کی اٰیت 22 پر قُرآنِ کریم کی 6666 اٰیات میں سے
3333 اٰیات مُکمل ہوچکی ہیں ، اِس لیۓ قُرآنِ کریم نے اِس سُورت کے اِس
مقام پر اِس کتابِ لاریب کا دوسری بار ذکر کر کے انسان کو اِس اَمر کی
تلقین کی ھے کہ وہ آگے بڑھنے سے پہلے ایک بار اِس اَمر کا بھی جائزہ لے لے
کہ اُس نے قُرآنی اٰیات کے اِن اعداد کے مطابق اَب تک اِس کتابِ نازلہ کے
جو نصف اَحکام پڑھ لیۓ ہیں اُن نصف اَحکامِ نازلہ میں سے اُس نے کتنے
اَحکامِ نازلہ پر عمل کیا ھے اور کتنے اَحکامِ نازلہ کو فراموش کردیا ھے ،
تعلیمِ عالَم کے بعد قُرآنِ کریم نے اِس مقام پر جس موضوع پر تکلّم کیا ھے
وہ تخلیق عالَم ھے اور اِس عالَمِ موجُود کے بارے میں قُرآنِ کریم نے یہ
ارشاد فرمایا ھے کہ زمین و آسمان کے اِس عالَم کو اللہ تعالٰی نے چھ دنوں
میں بنایا ھے اور چھ دن سے قُرآن کی مُراد کیا ھے اِس کی قُرآنِ کریم نے
اسی سلسلہِ کلام کی اٰیت 5 میں خود ہی یہ وضاحت بھی فرمادی ھے کہ اللہ
تعالٰی کے حسابی نظام کا ایک دن دُنیا کے ایک ہزار حسابی سال کے برابر ہوتا
ھے اِس لیۓ شاید یہ سمجھنا اور کہنا بے جا نہیں ہو گا کہ قُرآنِ کریم کے
اِس بیان کے مطابق زمین و آسمان کی تخلیق اُن 6 ہزار سال میں ہوئی ھے جن کو
اہلِ بائبل نے دُنیا کی مجموعی عُمر سمجھا ھے جب کہ وہ صرف دُنیا کی تخلیقی
عُمر ھے ، اگر عُلماۓ سائنس کے بیانات کی روشنی میں اللہ تعالٰی کے اِس
عملِ تخلیق کو سمجھنے کی کوشش کی جاۓ تو آج سے 15 اَرب سال پہلے تخلیقِ
عالَم کے پہلے دن اللہ تعالٰی نے اپنی تخلیق کا جو سب سے پہلا مُفرد جوہر
تخلیق کیا تھا وہ Nebula گیس کا ایک بڑا گولا تھا اور جب اللہ تعالٰی نے
اُس مُفرد گولے کو توڑا تو اُس گولے کے مزید بہت سے چھوٹے چھوٹے اور مزید
بہت سے بڑے بڑے ٹُکڑے فضاۓ عالَم میں پھیلتے چلے گئے ، اِس کے بعد تخلیقِ
عالَم کے دُوسرے دن یا دُوسرے دور میں Nebula کے یہ بڑے بڑے ٹکڑے اپنے مرکز
پر پڑنے والے خارجی دباؤ کی وجہ سے ہائڈروجن میں ضم ہو کر ہیلم میں بدلنے
لگے اور شدید حرارت کے باعث کُچھ بڑے بڑے ٹُکڑے سُورج بن گۓ اور پھر اُن ہی
بڑے بڑے سورجوں کی باہمی کشش اور ٹکراؤ سے جو چھوٹے ٹکڑے وجود میں آۓ اُن
میں سے کُچھ بڑے بڑے سیارے اور کُچھ چھوٹے چھوٹے سیارچے بن کر خلا میں گردش
کرنے لگے ، پھر تخلیق کے تیسرے دن یا تیسرے دور میں اللہ تعالٰی نے اپنے
حکُم سے اُن مختلف نظامِ شمسی میں باہمی کشش و کشمکش پیدا کر کے اُن سے
کھربوں نۓ نظام ہاۓ شمسی بنادیۓ ، تخلیق کے چوتھے دن یا چوتھے دور میں
سیارہِ زمین وجُود میں آیا جس کی 3۔8 اَرب برس پرانی چٹانوں کی عمر سے
اندازہ لگایا گیا ھے کہ اِن چٹانوں کے وجود میں آنے کے زمانے میں سیارہِ
زمین پر خالقِ عالَم نے ایسی شدید بارشیں برسائیں کہ اُن شدید بارشوں کی
وجہ سے سیارہِ زمین ٹھنڈا ہونا شروع ہوا ، تخلیق کے پانچویں دن یا دور میں
اللہ تعالٰی نے زمین کی اندرونی گیس کو حرکت و عمل دے کر زمین میں وہ زلزلے
پیدا کیۓ کہ جن زلزلوں کے زور سے زمین کے بالائی حصے پر ابتدائی نَم کے بعد
جمی ہوئی پٹری کے ٹُوٹ کر جو مزید ٹکڑے بنے اُن ہی ٹُکڑوں میں سے ایک ٹُکڑا
اُوپر اُٹھ کر پہلا برِ اعظم بنا اور ایک گڑھا پانی سے بھر کر پہلا سمندر
بن گیا اور تخلیق کے چھٹے دن یا چھٹے دور میں وہ باقی چیزیں بھی بنادی گئی
تھیں جن کا بنانا اللہ تعالٰی نے زمینی حیات کے لیۓ لازم جانا تھا ، اِس
تبدیلی کے بعد بھی اِس زمین پر آہستہ آہستہ وہ مُختلف تبدیلیاں آتی رہی ہیں
جن تبدیلیوں کی وجہ سے اِس زمین کی وہ موجُودہ شکل ظاہر ہوئی ھے جو آج کے
انسان کے سامنے آج موجُود ھے ، اِن اٰیات کا علمی و عملی پیغام یہ ھے کہ
انسان کو اپنے خالق کے اَحکامِ نازلہ کے سامنے بہر حال جُھکنا ھے جس کا
مقصدِ وحید خُداۓ رحمان کا انسان کو زمین کی آزمائشی حیات سے نجات دے کر
اِس کو جنت مکانی بنانا ھے ، حضرتِ اقبال نے فاطرِ عالَم اور فطرتِ عالَم
کے اِس مطالبے کو کُچھ اِس طرح اَدا کیا ھے کہ ؏
وہ ایک سجدہ جسے تُو گراں سمجھتا ھے
ہزار سجدوں سے دیتا ھے آدمی کو نجات
|