خالقِ عالَم کی خَلقِ قدیم و خَلقِ جدید !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالسجدة ، اٰیت 7 تا 11 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
الذی
احسن کل
شئی وبداخلق
الانسان من طین 7
ثم جعل نسلهٗ من ماء
مھین 8 ثم سوٰه ونفخ فیه
من روحهٖ وجعل لکم السمع و
الابصار والافئدة قلیلا ما تشکرون 9
وقالواءاذاضللنا فی الارض ءانالفی خلق
جدید بل ھم بلقاءربھم کٰفرون 10 قل یتوفٰکم
ملک الموت الذی وکل بکم ثم الٰی ربکم ترجعون 11
اے ھمارے رسُول ! آپ تمام اہلِ ارض و سما کو آگاہ کر دیں کہ اللہ وہی خالقِ عالَم و خلّاقِ عالَم ھے جس نے اپنے عالَم میں جو چیز بھی تخلیق کی ھے وہ ایک اعلٰی حُسن و توازن کے ساتھ تخلیق کی ھے اور جب اُس نے انسان کی تَخلیق کی تھی تو اُس کی ابتدا مِٹی سے کی تھی اور اُس مِٹی سے انسان کا جو پہلا جسم بنایا تھا تو اُس جسم میں وہ آبی جوہر بھی ڈال دیا تھا جس جوہر میں انسان کے پہلے جسم جیسے بہت سے دُوسرے جسم بنانے کی صلاحیت موجُود تھی اور تخلیق کے اِس دُوسرے مرحلے میں جب اُس آبی جوہر سے انسان کا نیا جسم تیار ہوا تو اللہ نے اُس جسم کا ناک نقشہ درست کر کے اُس میں اپنا وہ حُکم ڈال دیا تھا جس نے تُمہارے اُن مردہ جسموں میں زندگی بھر دی تھی اور پھر تُمہارے اُن زندہ جسموں کو سُننے کے لیۓ کان دیۓ تھے ، دیکھنے کے لیۓ آنکھیں دی تھیں اور احساسِ مَن و تُو کے اظہار کے لیۓ تُمہارے اِن زندہ جسموں میں حساس دل بھی ڈال دیۓ تھے لیکن تُمہارے کم کم لوگ ہی اپنے اُس خالق کے شکر گزار ہوۓ ہیں ، زیادہ تر لوگوں نے تو اپنے اُس خالق کی بیکراں قُدرتوں اور قُوتوں کے بارے میں بار بار اِس شک کا اظہار کیا ھے کہ جب ھمارے یہ موجُودہ جسم مِٹی میں مل کر مٹی ہو چکے ہوں گے تو پھر اللہ ھم کو ایک خَلقِ جدید میں کس طرح ڈال اور ڈھال دے گا ، آپ اِن تمام لوگوں سے کہہ دیں کہ جب موت کا ہَرکارہ تُمہارے جسموں میں ھماری ڈالی ہوئی مُتحرک بالعمل جانوں کو نکال کر اپنے قبضے میں لے لے گا تو تُم اپنے پالنہار کی اُس نئی پالنہاری میں پُہنچا دیۓ جاؤ گے جس پالنہاری میں تُمہارے نۓ جسم ہوں گے اور تُمہارے نۓ اِن جسموں میں تُمہاری نئی جانیں ہوں گی !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم میں انسان کا انسان کے طور پر اِس اٰیت سے پہلے 23 مقامات ذکر ہوا ھے اور اِس اٰیت کے بعد دیگر 41 مقامات پر بھی انسان کا انسان کے طور پر 41 بار یہی ذکر ہو گا ، قُرآنِ کریم کے اِن 65 مقامات پر انسان کا جن اَلگ اَلگ حیثیتوں سے جو جُدا جُدا ذکر ہوا ھے وہ اپنے اُن سیاق و سباق کے عین مطابق ہوا ھے جو سیاق و سباق انسان کے ذکر سے پہلے یا بعد اُن اٰیات و مقامات پر موجُود رھے ہیں اور اٰیاتِ بالا کی پہلی تین اٰیات میں انسان کا جو ذکر ہوا ھے اُس ذکر میں انسانی تخلیق کی اُس پہلی اور دُوسری تمہید کا ذکر آیا ھے جس کی تکمیل کا ذکر سُورَةُالاِنسان کی پہلی سے پانچویں اٰیت میں آۓ گا لیکن اٰیاتِ بالا کی آخری دو اٰیات کا تعلق انسانی تَخلیق کے اُس پہلو کے ساتھ جُڑا ہوا ھے جو پہلو انسانی بعثت کی اُس زمانے کے ساتھ جُڑا ہوا ھے جو زمانہ انسان کے یومِ موت سے انسان کے یومِ محشر تک پھیلا ہوا ھے لیکن سُوۓ اتفاق یہ ھے کہ اہل فلسفہ و اہلِ تفسیر جب انسان کی موت کے بعد کے اِس مرحلے پر گفتگو کرتے ہیں تو وہ انسان کے یومِ موت سے شروع ہونے والی اِس بعثت کو چھوڑ کر ایک ہی جَست میں انسان کے اُس یومِ محشر پر پُہنچ جاتے ہیں جو محشر انسان کے سفرِ حیات کی آخری منزل ھے کیونکہ اِن حضرات نے خود سے خود ہی یہ فرض کر لیا ھے کہ انسان کی ایک زندگی تو صرف وہی ایک زندگی ھے جو انسان کی موت سے پہلے انسان کے پاس ہوتی ھے اور انسان کی دُوسری زندگی بھی فقط وہی ایک زندگی ہو سکتی ھے جو انسان کے یومِ محشر کے بعد شروع ہو گی لیکن قُرآنِ کریم انسان کے یومِ موت و یومِ محشر کے درمیان ملنے والی اُس کی اُس وسط المدتی زندگی کا بھی ذکر کرتا ھے جس کا قُرآنی نام انسان کی { خلقِ جدید } ھے ، قُرآنِ کریم نے انسان کی اِس خلقِ جدید کا ذکر سب سے پہلے سُورَةُالرعد کی اٰیت 5 میں اِس طرح سے کیا ھے کہ { وان تعجب فعجب قولھم ءاذا کنا ترٰبا ءانا لفی خلقِ جدید } یعنی اے ھمارے نبی ! اگر آپ کو اِن لوگوں کی بات پر تعجب ہوا ھے تو آپ کا وہ تعجب بے جا نہیں ھے بلکہ بالکُل بجا ھے کیونکہ اُن لوگوں کی یہ بات واقعی تعجب میں ڈال دینے والی بات ھے کہ جب ھم سارے انسان مِٹی میں مل کر مِٹی ہو جائیں گے تو ھماری تَخلیقِ جدید کس طرح سے مُمکن ہو جاۓ گی ، قُرآنِ کریم میں انسان کی اِس خلقِ جدید کا دُوسری بار جو ذکر ہوا ھے وہ بھی سُورَہِ ابراہیم کی اٰیت 19 میں اِس طرح سے ہوا ھے کہ { ان یشایذھبکم ویات بخلق جدید } یعنی اللہ تعالٰی جب بھی چاہتا ھے تو تُم کو اِس زندگی کے اِس دائرے سے نکال لیا جاتا ھے اور تُمہاری ایک تخلیقِ جدید شروع کر دی جاتی ھے ، قُرآنِ کریم میں تیسری بار انسان کی اِس خلقِ جدید کا ذکر سُورَةُالسجدة کی اٰیتِ بالا میں آیا ھے اِس کا مفہوم بھی ھم نے اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا میں درج کر دیا ھے ، قُرآنِ کریم میں انسان کی خلقِ جدید کا چوتھی بار جو ذکر آیا ھے وہ سُورَہِ سبا کی اٰیت 7 میں آیا ھے اور اِس طرح پر آیا ھے کہ { وقال الذین کفروا ھل ندلکم علٰی رجل ینبئکم اذامزقتم کل ممزق انکم لفی خلق جدید } یعنی قُرآن کے مُنکروں نے قُرآن کے مُنکروں سے کہا ھے کہ ھم تمہیں اُس آدمی سے خبردار کر رھے ہیں جو ہمیں اِس بات سے خبر دار کر رہا ھے کہ مرنے کے بعد جب تُم سب کے جسم ریزہ ریزہ ہو جائیں گے تو تُم کو ایک نئی زندگی دے دی جاۓ گی ، قُرآنِ کریم میں انسان کی خلقِ جدید کا جو پانچواں ذکر آیا ھے وہ سُورَہِ فاطر کی اٰیت 16 میں بھی اُسی طرح آیا ھے اور اُن ہی الفاظ کے ساتھ آیا ھے جس طرح اور جن الفاظ کے ساتھ سُورَہِ ابراہیم کی اٰیات 19 میں اِس کا ذکر آیا ھے اور قُرآنِ کریم میں انسان کی خلقِ جدید کا چَھٹی بار جو ذکر آیا ھے وہ سُورَہِ قٓ کی اٰیت 15 میں اِس طرح آیا ھےکہ { افعیینا بالخلق الاول بل ھم فی لبس من خلق جدید } یعنی کیا اُن لوگوں کا خیال یہ ھے کہ ھم اُن لوگوں کی پہلی تخلیق کرنے کے بعد اتنے تَھک چکے ہیں کہ اَب ھم ایک نۓ جسم کے نۓ لباس کے ساتھ اُن کی ایک نئی تَخلیق نہیں کر سکتے ہیں ، قابلِ ذکر بات یہ ھے کہ اِن چھ کے چھ مقامات پر انسان کی اِس تخلیقِ جدید کا یہ ذکر خالقِ ارض و سما کی اُسی عملی تخلیق کے اُسی پس منظر کے ساتھ آیا ھے جس عملی تخلیق کے پس منظر کے ساتھ یہ ذکر اٰیتِ بالا میں آیا ھے ، قُرآنِ کریم کی اِن 6 اٰیات میں انسان کی جس خلقِ جدید کا ذکر آیا ھے اُس سے انسان کی وہ خلقِ جدید مُراد نہیں ھے جو یومِ محشر کے حسابِ محشر کے بعد شروع ہوگی بلکہ اِس سے انسان کی وہ خلقِ جدید مُراد ھے جو اُس وقت شروع ہوتی ھے جب انسانی جسم پر موت واقع ہوتی ھے اور اُس کی اُس موت کے بعد اُس کی وہ نئی حیات اِس طرح شروع ہوجاتی ھے کہ اُس کا جسمِ مدفون زمین کے کیڑوں مکوڑوں کی خواراک بن کر کیڑوں مکوڑوں کی صورت میں ڈھل جاتا ھے ، پھر جب اُن کیڑوں مکوڑوں کو پرندے چُگ لیتے ہیں وہ انسانی جسم پرندوں کی شکل میں ڈھل جاتا ھے اور جب اُن انسانی جسم کھانے والے پرندوں کو کُچھ دُوسرے انسان و حیوان کھا جاتے ہیں تو مِٹی کی دُنیا کا یہ مُسافر اُن انسانی و حیوانی زندگیوں کی اوٹ میں آجاتا ھے اور پھر اِن ہی جسموں اور جانوں کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا دوبارہ انسانی جسم میں آجاتا ھے اور ارتقاۓ حیات کا یہ قیدی اُس وقت تک خلقِ جدید ، حیاتِ جدید اور تربیتِ جدید کے اِن ہی دائروں میں چلتا رہتا ھے جب تک کہ وہ خالقِ حیات کے بارے میں اپنے اِن شکوک و شبہات سے نکل کر ایک مومنِ صادق بن کر جنت کا حق دار نہیں بن جاتا یا پھر کفر کے اِن شکوک و شبہات میں پُختہ تر ہو کر جہنم میں جانے کے لیۓ تیار نہیں ہو جاتا ، ہندُو دھرم نے آواگون کا جو نظریہ اختیار کیا ہوا ھے اُس کی وہ ابتدائی خبر تو یقینا درست ہوگی جس میں اللہ تعالٰی کے کسی نبی نے انسان کو خلقِ جدید کی اطلاع دی ہوگی مگر اُس خبر میں دھرم کے کہانی کاروں نے خلقِ جدید کے اِس فطری نظریۓ میں سات جنم کی جو پَخ لگائی ھے وہ خلقِ جدید کے اَصل نظریۓ پر ایک اضافی چیز ھے اور اسی طرح بابا گرو نانک کی طرف انسان کے چوراسی ہزار جُونیں بدلنے کے بعد نجات پانے کا جو اعتقاد منسوب کیا گیا ھے وہ بھی مبالغہ آمیز ھے جب کہ اِس نظریۓ میں حقیقی بات صرف یہ ھے کہ کسی انسان کی خلق جدید کی یہ قید اُس کی ایک حیات میں بھی ختم ہوسکتی ھے اور ایک ہزار یا ایک اَرب سال کے عرصے تک بھی چلتی رہ سکتی ھے کیونکہ اِس کا دار و مدار اِس بات پر ہوتا ھے کہ کس انسان کا اعتقاد کب اقرارِ توحید پر قائم ہوتا ھے اور کس انسان کا اعتقاد کب تک شرک پر قائم رہتا ھے ، یہی وہ باریک نُکتہ ھے جس کو قُرآنِ کریم نے اِس طرح اُجا گر کیا ھے کہ اللہ تعالٰی شرک کے سوا جس انسان کے جس جُرم کو چاھے گا معاف کردے گا لیکن اللہ تعالٰی کسی بھی انسان کے جُرمِ شرک کو کبھی بھی معاف نہیں کرے گا ، اگر انسان کے یومِ موت اور یومِ محشر کے درمیان خلقِ جدید کا یہ زمانی و مکانی مرحلہ موجُود نہ ہوتا تو اللہ تعالٰی کے کسی غیر مُشرک معاف کرنے اور کسی مُشرک کو معاف نہ کرنے کا یہ زمانی تسلسل ایک دفترِ بے معنی ہو کر رہ جاتا !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 559715 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More