انہوں نے با اختیار ہونے کے باوجود سادہ طرز زندگی اختیار کیا اور۔۔۔ پاکستان کی تاریخ کے 5 مضبوط ترین وزیراعظم

image
 
جب ہم پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو کئی عجیب حقیقتیں سامنے آتی ہیں، ایک تو یہ پارلیمانی میں اکثریت کے باوجود پاکستان میں وزرائے اعظم صرف پارلیمانی اکثریت کی بنا پر مضبوط یا کمزور نہیں ہوا کرتے، یہاں اداروں کا تعاون بھی درکار ہوتا ہے- شاید دوسرے ملکوں میں یہ کوئی ثانوی چیز ہوتی ہے، لیکن یہ معاملہ یہاں ترجیح نمبر ایک ہے، پاکستان کا وزیراعظم ذمہ داریاں بہت، اس کے ساتھ شکوے بہت لیکن یہ وزارت عظمیٰ کا ہار ایک کانٹوں کا تاج ہے۔ کچھ باتیں جو ہر الیکشن میں سامنے آتی ہیں وہ یہ ہیں کہ ہر بار حکومت ( خواہ کوئی بھی ہو، کسی بھی پارٹی سے ہو ) یہی کہتا ہے کہ ہم عوامی طاقت سے حکومت میں آئے ہیں، جبکہ حزب اختلاف ہمیشہ یہی کہتی ہے، یہ حکومت دھاندلی کی پیداوار ہے ، جس الیکشن کے شفاف ہونے کا بہت ذکر ہوتا ہے- اس پر بہت سوں کا اتفاق ہے کہ 1970 کے الیکشن شفاف ترین تھے، پھر ملک ٹوٹا، بعد میں سب نے لوٹا، سب کا مطلب جس کا جتنا بس چلا۔ خیر ایک جائزہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے مضبوط وزیراعظم کون تھا، میری رائے سے سب اختلاف کر سکتے ہیں ۔
 
لیاقت علی خان
لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے، اس وقت ملک برطانوی ڈومیننس میں تھا، مطلب گورنر جنرل ملک کا سربراہ اور وزیر اعظم تمام انتظامی امور چلانے کا ذمہ دار، جب تک قائد اعظم حیات رہے ، کافی بااختیار گورنرجنرل تھے- لیکن جب بیماری نے آلیا تو تمام تر معاملات کی ذمہ داری لیاقات علی خان نے سنبھال لی، یہی وقت پاکستان کو کئی مسائل کا سامنا تھا، لیکن ایک با اختیار وزیراعظم ہی ان معاملات کو دیکھ سکتا تھا- ہم کہہ سکتے ہیں وہ ایک با اختیار شخص تھے، خارجہ امور، بالخصوص امریکا کے ساتھ تعلقات، مسئلہ کشمیر پر بھارت کو جواب دینا ، اور بہت کچھ ، خان لیاقت علی خان کے کارنامے ہیں- غریب کا غم تھا، با اختیار ہونے کے باوجود سادہ طرز زندگی اختیار کیا۔ غور کیا جائے تو ان کی شہادت بھی اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ وہ ناجائز سمجھوتا کرنے کے لئے تیار نہیں ، اس لئے راستے سے ہٹا دیے گئے۔اس کی تفصیل کچھ دن پہلے بلاگ میں آچکی۔
image
 
 ذوالفقار علی بھٹو
 1971 میں شکست کے بعد پاکستان کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے ذمہ داریا سنبھالیں( آج بعض لوگ تنقید کرتے ہیں، کہ سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ہونا غلط ہے، یقیناً ہوتا اگر دستور ہوتا جو یحٰیی خان منسوخ کر کے خود حکومت میں آئے تھے، مطلب 1962 کا دستور بلڈوز ہو چکا تھا، ختم ہو چکا تھا)، پھر بھٹو صاحب کے کچھ کارنامے انکی سیاسی بصیرت کا حوالہ دینے کے لئے کافی ہیں- جہاں پاکستان اُس وقت بنا دستور کے چل رہا تھا، اس پاکستان کو بھٹو نے دو دستور دیے، ایک عبوری دستور، ایک پورا متفقہ آئین، جو یقیناً ایک کارنامہ ہے، 73 کے آئین کے بعد وہ وزیر اعظم بنے جنرل گل حسن ان کے آرمی چیف تھے، جنہیں باقا عدہ بلوا کر استعفیٰ لیا گیا، بی بی سی کی خبر انٹرنیٹ پر پڑھی جاسکتی ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کتنے مستحکم وزیر اعظم تھے- ایک دن اپنی کرسی کے دستے پر ہاتھ مار کر کہنے لگے یہ کرسی بہت مضبوط،قوم بھٹو کی سوچ کو سمجھتے تھے، وہیں عالمی معاملات میں بھی بھٹو تاحال پاکستانی سیاست دانوں میں ایک مثالی شخصیت تھے- ایک قتل کے کیس میں ان کو ایک غلط سزا دی گئی، قتل کیس کیا تھا، آج عدالتوں میں اس واحد کیس کو بطور نظیر نہیں تسلیم کیا جاتا- اس پر پھر کبھی فرصت میں بات ضرور ہوگی، لیکن ضیاء الحق جو بھٹو کے لائے ہوئے آرمی چیف تھے، بھٹو کے لئے خطرناک ثابت ہوئے۔ بھٹو مضبوط اعصاب کے مالک تھے، جب ان کو پارلیمانی طریقوں سے نہیں ہٹایا جاسکتا تھا، تو وہی بات نہیں دہراؤں گا کہ بھٹو کو راستے سے کیوں ہٹایا گیا، کس طرح ہٹایا گیا، لیاقت علی خان والا اشارہ کافی ہے۔ بہرحال بھٹو پاکستان کے پلے منتخب وزیراعظم تھے، جن کو عوام کے ووٹوں نے چنا تھا۔
image
 
 نواز شریف
 نواز شریف کا تعلق پاکستان کے سب سے بڑے صوبے سے ہے، خاندانی اعتبار سے نواز شریف ایک سرمایہ دار گھرانے کے چشم چراغ ہیں- سیاست میں کیسے آئے یہ تو بحث کہیں اور نکل جائے گی، لیکن پاکستان کی تاریخ میں اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ اپنی دوسری ٹرم میں پاکستان میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ منتخب ہوئے ، نواز شریف کے کریڈیٹ پر ایک صدر ( صدر فاروق لغاری ) ایک چیف جسٹس ( جسٹس سجاد علی شاہ ) ایک آرمی چیف ( جنرل جہانگیر کرامت) کو ہٹانے کا معاملہ ہے ، نواز شریف 1999 چوتھا شکار بھی کرنے کے موڈ میں آگئے تھے، لیکن شکار ان سے زیادہ ہوشیار تھا، دوسری حکومت کا خاتمہ جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں ہوا- نواز شریف ہائی جیکنگ کے الزام میں جیل بھج دیے گئے، پھر ڈیل کی خبریں آئیں ، کچھ دن میں سعودی عرب چلے گئے، لیکن دوسری ٹرم میں بہر حال وہ ایک مضبوط وزیراعظم ضرور تھے۔
image
 
 یوسف رضا گیلانی
 یوسف رضا گیلانی 9 جون 1952 ء کو کراچی میں پیدا ہوئے، ملتان کے ایک معروف گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں، پی پی پی کے اہم رہنماؤں میں گیلانی صاحب کا شمار ہوتا ہے، آصف علی زرداری پارٹی کو چیئرمین کے ساتھ ساتھ پاکستان کے صدر بھی تھے- یوسف رضا گیلانی اپنی پانچ سالہ مدت پوری کر لیتے، ایک عدالتی فیصلے کی وجہ سے نا کر سکے، ورنہ اگر اس ایک کیس کو نکال دیا جائے تو شاید یوسف رضا گیلانی پہلے وزیر اعظم ہوتے جس نے اپنی ٹرم مکمل کی ہوتی، پہلی بار کسی پارٹی پی پی پی نے اپنی مدت حکومت پوری کی، ہاں وزیراعظم بعد میں دوسرے آگئے تھے۔ ورنہ فوج اور صدارتی محل سے یوسف رضاگیلانی کے تعلقات اچھے رہے ۔
image
 
 عمران خان
 2017 میں پہلی بار حکومت میں آنے والے پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان، اور ایک سوشل ورکر کے طور پر جانے والے عمران خان ہیں- اس وقت ان کی حکومت ایک بحران کا شکار کسی حد تک نظر آرہی ہے ، لیکن نہ ان کو عدالتوں سے کوئی شکایت ہے ، نہ اہم اداروں سے- بظاہر ایک پیج والی بات ویسی کی ویسی ہی نظر آرہی ہے ، تو ہم عمران خان کو بظاہر ایک مستحکم وزیر اعظم کہہ سکتے ہیں۔
image
YOU MAY ALSO LIKE: