#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالسجدة ، اٰیت 12 تا 19
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ولوترٰی
اذالمجرمون
ناکسوارءوسھم
عند ربھم ربنا ابصرنا
وسمعنا فارجعنانعمل صالحا
اناموقنون 12 ولوشئنالاٰتینا کل نفس
ھدٰھا ولٰکن حق القول منی لاملئن جھنم من
الجنة والناس اجمعین 13 فذوقوابما نسیتم لقاء
یومکم ھٰذاانا نسیناکم وذوقواعذاب الخلد بما کنتم
تعملون 14 انما یؤمن باٰیٰتنا الذین اذاذکروابھا خرواسجدا
وسبحوا بحمد ربھم وھم لایستکبرون 15 تتجافٰی جنوبھم عن
المضاجع یدعون ربھم خوفا وطمعا ومما رزقنٰھم ینفقون 16 فلا تعلم
نفس مااخفی لہم من قرة اعین جزاءبماکانوایعملون 17 افمن کان مؤمنا کمن
فاسقالایستوٗن 18 اماالذین اٰمنوا وعملوا الصٰلحٰت فلھم جنٰت الماوٰی
نزلابماکانوا
یعملون 19
اے ھمارے رسُول ! اگر آپ کی نظر اُس مَحشر کو دیکھتی تو آپ دیکھتے کہ ھمارے
مُجرم کس طرح ھمارے سامنے اپنا سرجُھکا کر کہہ رھے تھے کہ اَب تو ھم نے ہر
حقیقت کا بذاتِ خود مُشاھدہ کرلیا ھے اور ہر سَچی بات ھم نے اپنے کانوں سے
سُن لی ھے ، اَب تو تُو ہمیں ھماری پہلی دُنیا میں واپس بہیج دے تاکہ ھم
اپنی اعلٰی عملی صلاحیت کے مطابق اپنی اعلٰی عملی کارکردگی کا مظاہرہ
کرسکیں کیونکہ اَب تو ھم نے ہر ایک حقیقت کا یقین حاصل کر لیا ھے لیکن اگر
ھمارا مقصد انسانی صلاحیت کا ایک غیر مشروط عملی مظاہرہ ہی دیکھنا ہوتا تو
ھم پہلے ہی ہر ایک انسان کو اِس عمل کا عامل بنا دیتے جب کہ ھمارا مقصد تو
انسان کی یہ آزمائش تھا کہ وہ ھمارے غائبانہ حُکم پر اپنے حاضر باش غلام
ہونے کا ثبوت دیتا ھے یا نہیں دیتا لیکن انسان نے تو ھمارے احکام کا انکار
کرکے ھمارے جن و انس سے جھنم کو بھرنے والے اُسی پہلے قول کی توثیق کردی ھے
جس کا ھم نے اعلان کیا تھا ، اگر تُم لوگوں نے ھماری وہ سزا خود ہی خود پر
مُسلّط کردی ھے تو اَب تُم خود ہی ھماری اُس اَبدی سزا کو بُھگتو ، ھمارے
اَحکام پر تو وہی لوگ ایمان لاتے ہیں جن کے سامنے ھمارے اَحکام پیش کیۓ
جاتے ہیں تو وہ بِلا تردد اُن کے سامنے سرنگوں ہو کر اُن پر عمل کے لیۓ اِس
طرح مُتحرک ہو جاتے ہیں کہ اُن کے آرام طلب پہلو اپنی آرام طلبی سے کنارہ
کش ہوجاتے ہیں اور ھم نے اپنے اُن بندوں کے اِس عمل کے بدلے میں اُن کی
آنکھوں کے لیۓ اپنی وہ ٹھنڈک پردہِ غیب میں چُھپائی ھے کہ جو ٹھنڈک اُن کے
خواب و خیال میں بھی کبھی نہیں آئی ھے ، اِس لیۓ کہ ھمارے قانُونِ حق میں
حق کے مُعترف انسان اور حق سے مُنحرف انسان برابر نہیں ہوتے بلکہ حقیقت یہ
ھے کہ جو انسان حق کے مُعترف ہوکر ھمارے پاس آتے ہیں تو اُن کی یہاں پر
مہمان داری کی جاتی ھے اور جو انسان حق سے مُنحرف ہو کر ھمارے پاس آتے ہیں
تو اُن کو جہنم رسید کرنے کی تیاری کی جاتی ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم نے خَلقِ جدید کے مضمونِ رَفتہ کے بعد اپنے اِس مضمونِ رَواں
میں ماضی کی ایک حکایت محشر کی تمثیل سے اپنی اِس دلیل کو واضح کیا ھے کہ
اہلِ زمین میں اللہ تعالٰی کا مطلوب انسان وہ ہوتا ھے جو خلقِ جدید سے پہلے
بھی اللہ تعالٰی کے اَحکامِ نازلہ پر عمل کرتا ھے اور خَلقِ جدید کے بعد
اللہ تعالٰی کے اَحکامِ نازلہ پر عمل کرتا ھے اور اللہ تعالٰی کے مِن جُملہ
اَحکامِ حکمت میں پہلا خاموش اور فطری حُکم اُس انسان کا اُس انسانی حیات
کی حفاظت کرنا ھے جو حیات اللہ تعالٰی نے اُس انسان کو ایک نعمت کے طور پر
دی ہوئی ھے اور اِس حیات کو برقرار رکھنے کے لیۓ اللہ تعالٰی نے انسان کو
جو عملی صلاحیت دی ھے اُس عملی صلاحیت کے تحت اُس انسان پر لازم کردیا گیا
ھے کہ وہ اپنی اِس حیات کو برقرار رکھنے کے لیۓ اپنی روزی روٹی کے وہ جائز
ذرائع لازماً اختیار کرے جن ذرائع کی بدولت اُس کی زندگی آغاز سے اَنجام تک
ایک مناسب طریقے کے ساتھ برقرار رہ سکے ، دُنیا اور حیاتِ دُنیا پر انسان
جتنا بھی غور کرتا ھے اور جس زاویۓ سے بھی غور کرتا ھے تو حیات کے بارے میں
اُس کو ہر بار اور ہر زاویۓ سے یہی ایک جواب ملتا ھے کہ زمین پر انسان کا
اصل مسئلہ ہمیشہ ہی رزق کا حصول رہا ھے اور رزق کے حصول کے لیۓ انسان کے
پاس اُس کی پہلی اور آخری آس اُس کی محنت ذات اور اُس کی صلاحیتِ ذات ھے ،
قُرآنِ کریم نے سُورَةُالبقرة کی اٰیت 62 ، سُورَةُالمائدة کی اٰیت 69 ،
سُورَةُالاَنعام کی 54 ، سُورَةُالنحل کی اٰیت 97 ، سُورَةُالکہف کی اٰیت
88 ، سُورَہِ مریم کی اٰیت 60 ، سُورَہِ طٰهٰ کی اٰیت 75 ، 82 ،
سُورَةُالفُرقان کی اٰیت 70 ، 71 ، سُورَةُالقصص کی اٰیت 67 ، 80 ، سُورَہِ
رُوم کی اٰیت 44 ، سُورَہِ سبا کی اٰیت 37 ، سُورَہِ غافر کی اٰیت 40 ،
سُورَہِ فُصلّت کی اٰیت 33 ، 46 ، اور سُورَةُالجاثیة کی اٰیت 15 کے اِن 18
مقامات پر ایمان باللہ اور ایمان بالآخرة کے ساتھ جس عملِ صالح کی تلقین کی
ھے اُس عملِ صالح سے ایک خاص وضع قطع کا لباس پہننا ، پائجامہ و تہبند کو
ٹخنوں سے اُونچا رکھنا ، اپنے جنسی اعضا کو بار بار رگڑ رگڑ کر دھونا ،
لوٹے استنجے اور بٹوانی کا اہتمام کرنا اور بٹوانی کے دوران بار بار ٹانگ
پر ٹانگ رکھ کر شرعی قینچی مارنا مُراد نہیں ھے بلکہ اِس سے وہ عمل
بالصلاحیت مُراد ھے جس عمل بالصلاحیت کے ذریعے انسان اپنے لیۓ اور انسانی
معاشرے کے دُوسرے کم زور و نادار انسانوں کے لیۓ وہ سامانِ حیات پیدا کرتا
ھے جو سامانِ حیات انسانی حیات کے لیۓ ضروری ہوتا ھے ، زمین میں آج تک
انسان کے ہاتھوں سے انسان کے ساتھ جو جو ظلم و ستم ہوا ھے ، انسان کے
ہاتھوں سے انسان کے ساتھ جو جو تعدی و انصافی ہوئی ھے اور انسان کے ہاتھوں
سے انسان کی جو آرزُو ریزی اور جو آبرُو ریزی ہوئی ھے اُس کی بُنیادی وجہ
انسان کے ہاتھوں سے ہونے والا انسان کا وہی عملِ رزق تلفی ھے جس رزق کا
مُنصفانہ حصول اور جس رزق کی مُنصفانہ تقسیم جابر انسانوں نے مجبور انسانوں
کے لیۓ غیر ممکن بنا رکھی ھے ، دُنیا میں اللہ تعالٰی کے جتنے بھی رسُول
اور جتنے بھی نبی تشریف لاۓ ہیں اُن سب کی تشریف آوری کا حقیقی مقصد انسانی
سماج سے رزق کی اسی عدمِ مساوات کا خاتمہ کرنا اور رزق کی عملی مساوات کو
قائم کرنا تھا ، زمین کی کسی قوم پر خُدا کا کوئی عذاب اِس بنا پر کبھی
نہیں آیا کہ وہ قوم اپنے لیۓ لوٹے استنجے اور بٹوانی کا اہتما نہیں کرتی
تھی یا وہ قوم اپنی تسبیحات و مناجات میں کوئی کوتاہی کیا کرتی تھی بلکہ ہر
زمین کی ہر ایک قوم پر ہر ایک عذاب صرف اِس بنا پر آیا ھے کہ وہ قوم اللہ
تعالٰی کے احکام کا انکار کرتی تھی یا وہ قوم اللہ تعالٰی کے ساتھ کفر و
شرک کیا کرتی تھی یا وہ قوم اللہ تعالٰی کے وسائلِ حیات پر ناجائز قبضہ
کرکے بیٹھ جاتی تھی اور یا جب وہ قوم لین دین کرتی تھی تو اُس لین دین کے
ناپ تول میں کمی کیا کرتی تھی ، اُس قوم کے جو قومی نمائندے وسائلِ رزق پر
قابض ہوکر عیاشی کرتے تھے وہ اپنے ماننے والوں کو صبرکی تلقین کیا کرتے تھے
اور اُس قوم کے مذبی پیشوا حصولِ رزق کی کوشش کرنے والوں کو دُنیا کے کُتے
کہتے تھے اور قومی دولت لُوٹنے والوں کو اللہ تعالٰی کے محبوب بندے قرار
دیتے تھے لیکن قُرآنِ کریم اِن سارے سیاسی لٹیروں اور اِن سارے مذہبی
قذاقوں کی مُُذمت کرتا ھے اور اِن کے خلاف انسان کو بغاوت کا حُکم دیتا ھے
، اٰیاتِ بالا میں جن دو نیک و بَد انسانی طبقوں کی تقسیم کی گئی ھے وہ یہی
دو صلاحیت کار اور بیکار طبقے ہیں جن میں سے ایک اپنی صلاحیتِ کار سے
انسانیت کا بوجھ کم کرتا ھے اور دُوسرا اپنی فکرِ بیمار سے ہر روز انسانیت
پر ایک نئے بوجھ کا اضافہ کرتا چلا جاتا ھے ، پہلا طبقہ جو اِس جہنم زار
دُنیا کو جنت بنانے کی کوشش کرتا ھے وہ عند اللہ اُس جنت کا حق دار ھے جو
اُس کے عملِ خیر سے بنی ھے اور دُوسرا طبقہ جس نے اِس دُنیا کو جہنم بنایا
ہوا ھے وہ اُس جہنم کا طلب گار ھے جو اِس کے عملِ بَد پر قائم ھے اور اُس
کے عملِ بَد کے لیۓ قائم ھے کیونکہ اللہ تعالٰی کے قانُون کے مطابق ہر
انسان کے لیۓ دُنیا و آخرت دونوں میں وہی موجُود ھے جو اُس نے کمایا ھے اور
جو اُس نے بچایا ھے !!
|