#العلمAlilm علمُ الکتابسُورَةُالسجدة ، اٰیت 20 تا 22
انسان کا جہانِ تَخلیق اور جہانِ تربیت !! اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و
اماالذین
فسقوا فماوٰ
ہم النار کلما ارادوا
ان یخرجوامنہا اعیدوا
فیھا وقیل لھم ذوقواعذاب
النار الذی کنتم بهٖ تکذبون 20 و
لنذیقنھم من العذاب الادنٰی دون العذاب
الاکبر لعلھم یرجعون 21 ومن اظلم ممن ذکر
باٰیٰت ربهٖ ثم اعرض عنہا انا من المجرمین منتقمون 22
جس مخلوق نے خالق کے فرمان کی نافرمانی کی ھے تو خالق نے اُس مخلوق کو اُس
کی اعلٰی زندگی اور اعلٰی مقامِ زندگی سے نکال کر ایک اَدنٰی زندگی کے ساتھ
اُس کے جسم و جان کو جَلانے و جُھلسانے والی ایک اَدنٰی جگہ پر ڈال دیا ھے
اور وہ مخلوق جب بھی اِس جَلنے اور جُھلسنے والے مقام سے نکلنا چاہتی ھے تو
اُس کو دوبارہ یہ کہہ دوبارہ اسی قید خانے میں دھکیل دیا جاتا ھے کہ تُم نے
چونکہ خود ہی حق کی تکذیب کی ھے اِس لیۓ اَب تُم خود ہی اپنی اُس تکذیب کی
اِس جلانے اور جُھلسانے والی توبیخ کو بھی صبر و ہمت کے ساتھ بھی برداشت
کرو ، ھماری اِس بات پر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ھے کہ اگر اِس مخلوق
نے اَب بھی اپنے قول و عمل سے حق کی تصدیق نہ کی تو ھم اِس کو اِس دُنیا کے
اِس چھوٹے عذاب کے بعد ایک دُوسرے بڑے عذاب میں مُبتلا کردیں گے تاکہ یہ
مخلوق انکارِ حق کا بَدترین راستہ چھوڑ کر اقرارِ حق کے بہترین راستے پر
آجاۓ ، آخر کسی مخلوق کے اَفرادِ مخلوق کی اِس سے زیادہ اور کیا نادانی و
نافرمانی ہو گی کہ اُس کو بار بار حق کا فرمان سنایا جاۓ اور وہ بار بار ہی
اُس فرمان کی نافرمانی کرتی رھے اور جس مخلوق کے جو اَفراد یہ نافرمانی
کرتے رہتے ہیں تو ھم بھی اُن کو اُن کی اِس نافرمانی کی یہی سزا دیتے رہتے
ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
انسان کا جنت کی اعلٰی زمین سے نکل کر دُنیا کی اَدنٰی زمین پر آنا بائبل
کے عھدِ قدیم و جدید اور قُرآنِ مجید کا وہ مُشترکہ علمی و رُوحانی بیانیہ
ھے جس کا آسمانی اَدیان کے انسانی حلقوں میں ہمیشہ سے چرچا جاری رہا ھے
لیکن اَب عصرِ حاضر کی ماڈرن سائنس بھی آہستہ آہستہ اُن آسمانی اَدیان کی
اُس بُرھانی تحقیق کی تصدیق کرنے لگی ھے اور اِس کی بہت سی علمی و سائنسی
مثالوں میں سے ایک علمی و سائنسی مثال ایک امریکی خاتون سائنسدان Dr Ellis
silver کا وہ جدید اور معروف علمی و سائنسی نظریہ ھے جو اُس نے اپنی کتاب
Humans Are not from Earth میں پیش کیا ھے اور اُس کتاب میں اُس نے عقل و
سائنس کے مُتعدد علمی و سائنسی حوالوں کے ساتھ بار بار یہ دعوٰی دُھرایا ھے
کہ انسان ھمارے اِس جانے پہچانے سیارہِ زمین کی مخلوق نہیں ھے جس میں ھم
رہتے ہیں بلکہ درحقیقت یہ اُس اَجنبی سیارہِ زمین کی مخلوق ھے جس اَجنبی
سیارہِ زمین پر اِس سیارہِ زمین کے مقابلے میں کششِ ثقل اتنی کم تھی کہ
انسان اُس سیارہِ زمین پر اِس سیارہِ زمین سے زیادہ آسانی کے ساتھ چل پھر
بھی سکتا تھا اور اُس سیارہِ پر آسانی کے ساتھ اِس بوجھ سے زیادہ بوجھ بھی
اُٹھاسکتا تھا جو بوجھ وہ اِس سیارہِ زمین پر بہت مُشکل سے اُٹھا سکتا ھے ،
اُس اَجنبی سیارے پر انسان کو وہ دائمی اَمراض بھی لاحق نہیں ہوتے تھے جو
دائمی امراض اُس کو اِس سیارہِ زمین پر آنے کے بعد لاحق ہوۓ ہیں اور وہ
دائمی امراض اِس سیارہِ زمین کے دُوسرے جانداروں میں دائمی امراض کے طور پر
کبھی بھی موجُود نہیں رھے ہیں کیونکہ وہ تمام جان دار اسی زمین کے اسی
ماحول میں پیدا ہوۓ ہیں اور اسی بنا پر وہ اِن دائمی امراض کا شکار بھی
کبھی نہیں ہوۓ ہیں جن دائمی امراض کا اِس سیارہِ زمین پر آنے کے بعد انسان
شکار ہوا ھے ، اِس کتاب میں پیش کیۓ گۓ اِس سائنسی نظریۓ کے مطابق انسان کے
اُس تخلیقی اور حقیقی سیارہِ زمین پر سردی اور گرمی کے وہ دو مُتضاد موسم
بھی نہیں تھے جو اِس سیارہِ زمین پر موجُود ہیں بلکہ اُس سیارہِ زمین پر
سدا سے ایک ہی سدا بہار موسم ہوتا تھا جس میں انسان بڑے عیش و آرام کے ساتھ
رہتا اور جیتا تھا ، یہی وجہ ھے کہ اِس زمین پر ہر سال جب سردی و گرمی کے
وہ اَجنبی موسم آتے ہیں تو انسان کو اُن مُختلف موسمی بیماریوں سے گزرنا
پڑتا ھے جو موسمی بیماریاں انسان کے لیۓ اِس ناگوار موسم کی ناگوار
بیماریاں ہوتی ہیں ، اِس کتاب کے اِس نظریۓ کے مطابق انسان کی جس سیارہِ
زمین پر پہلی تخلیق ہوئی ھے وہ سیارہِ زمین یقینا کسی ایسی طاقتور ہستی کے
قبضے میں تھا جو ہستی اُس سیارہِ زمین کی کسی مخلوق کو اُس کی کسی غلطی کی
سزا دینے کے لیۓ اپنے اُس آرام دہ سیارے سے نکالنے اور کسی بے آرام سیارے
پر ڈالنے کا اختیار رکھتی تھی اور انسان کو بھی اُس نے انسان کی کسی ایسی
ہی غلطی کے بعد اپنے اُس تخلیقی سیارہِ زمین سے نکال کر اپنے اِس تربیتی
سیارہِ پر ڈال دیا تھا ، اُس کتاب میں اِس طرح کی اور بھی بہت سی باتیں
موجُود ہیں لیکن قُرآنِ کریم نے اِس سے قبل اِس سُورت کی اٰیت 7 تا 11 میں
اور اُس کے بعد اٰیاتِ بالا میں انسان کی جس خَلق جدید اور جس مقامِ جدید
کا ذکر کیا ھے اُس ذکر کے حوالے سے ھم نے اِس کتاب کے اُسی مختصر حصے کو
حوالہِ کلام بنایا ھے جس کا جتنا حوالہ قُرآنِ کریم کے اُن حوالہ جات کے
ساتھ مطابقت رکھتا ھے جو اِس سُورت کی سابقہ اور موجُودہ اٰیات میں بیان
ہوۓ ہیں کیونکہ اُس تخلیقی جہان اور اِس تربیتی جہان کے حوالہ سے اِس کتاب
کا اتنا حوالہ ہی کافی ھے جس کا جتنا قُرآنِ کریم کے نظریہِ خلقِ جدید کے
ساتھ ایک زمانی و مکانی رَبط و تعلق ھے ، خلقِ جدید کے حوالے سے قُرآنِ
کریم کے اُس پہلے مُفصل بیانیۓ کا مُختصر مفہوم یہ تھا کہ اللہ تعالٰی نے
جب انسان کی تخلیق کی تھی تو اُس کی ابتدا مِٹی سے کی تھی اور اُس مِٹی سے
انسان کا جو پہلا جسم بنایا تھا تو اُس جسم میں وہ آبی جوہر بھی ڈال دیا
تھا جس جوہر میں انسان کے پہلے جسم جیسے بہت سے دُوسرے جسم تیار کرنے کی
صلاحیت موجُود تھی اور تخلیق کے دُوسرے مرحلے میں جب اُس آبی جوہر سے انسان
کا نیا جسم تیار ہوا تھا تو اللہ تعالٰی نے اُس جسمِ ثانی کا ناک نقشہ درست
کرکے اُس میں اپنا وہ حُکم بھی ڈال دیا تھا جس سے انسان کے جسم میں جان
آگئی تھی اور انسان کو وہ جان دینے کے بعد سُننے کے لیۓ کان دیۓ تھے ،
دیکھنے کے لیۓ آنکھیں دی تھیں اور احساسِ مَن و تُو کے اظہار کے لیۓ اِس کے
اُس زندہ جسم میں دُوسروں کا احساس محسوس کرنے اور اپنا احساس محسوس کرانے
کے لیۓ اُس کے پہلو میں ایک آلہِ دل بھی ڈال دیا تھا لیکن اِس زندگی اور
اِس زندگی کے اِن لوازماتِ زندگی پر کم کم لوگ ہی اللہ تعالٰی کے شکر گزار
ہوۓ تھے ، زیادہ تر لوگ تو اللہ تعالٰی کی پہلی تخلیق کو تسلیم کرنے کے
باوصف بھی یہ اعتراض کرنے لگے تھے کہ جب مرنے کے بعد ھمارا جسم مٹی میں مل
کر مٹی ہو جاۓ گا تو اِس کے بعد اللہ تعالٰی ہمیں کس طرح ایک خلقِ جدید میں
ڈال اور ڈھال دے گا اور انسان کے اِس سوال کا یہ جواب دیا گیا تھا کہ جب
موت کا فرشتہ تُمہارے جسم سے پہلی جان نکال لے گا تو تُم اپنے پالنہار کی
اُس پالنہاری میں پُہنچا دیۓ جاؤ گے جس پالنہاری میں تُمہارے لیۓ ایک نیا
جسم تیار ہو جاۓ گا اور اُس نیۓ جسم میں ایک نئی جان ڈال کر تمہیں ایک نئے
جہان میں ڈال دیا جاۓ گا ، قُرآنِ کریم کے اُس مُفصل بیانیۓ کے بعد قُرآنِ
کریم کی اٰیاتِ بالا میں اُس پہلے مُفصل بیانئے کی جو مزید تفصیل بیان کی
گئی ھے وہ یہ ھے کہ جس مخلوق نے اپنے خالق کے فرمان کی نا فرمانی کی ھے تو
خالق نے اُس مخلوق کو اُس کی اعلٰی زندگی اور اعلٰی مقامِ زندگی سے نکال کر
ایک اَدنٰی زندگی کے ساتھ اُس کے جسم اور اُس کی جان کو جَلانے اور
جُھلسانے والی اُس اَدنٰی جگہ پر ڈال دیا ھے کہ یہ مخلوق جب بھی اِس جگہ سے
نکلنا چاہتی ھے تو اُس کو دوبارہ یہ کہہ کر اُسی قید خانے میں دھکیل دیا
جاتا ھے کہ تُم نے چونکہ خود ہی حق کی تکذیب کی تھی اِس لیۓ تُم خود ہی
اپنی اُس تکذیب کی اِس جلانے اور جُھلسانے والی توبیخ کو بھی صبر و ہمت کے
ساتھ برداشت کرو اور یہ بات بھی ایک طے شدہ بات ھے کہ جب تک انسان انکارِ
حق کا راستہ چھوڑ کر اقرارِ حق کے راستے پر نہیں آۓ گا تب تک وہ اِسی زمان
و مکان کی قید میں قید رھے گا اور جب اِس کی اِس مُختصر سزا کی مُدت ختم ہو
جاۓ گی تو اِس کو ایک بڑی مُدت کے بڑے عذاب میں ڈال دیا جاۓ گا ، اِس
سلسلہِ کلام سے یہ اَمر واضح ہو گیا ھے کہ انسان دُنیا میں آنے سے پہلے
اللہ تعالٰی کی ایک جنت میں تھا لیکن جب اِس کے ابلیسی و شیطانی اور انسانی
فرقوں اور فتنوں سے وہ جنت جہنم بننے لگی تو اللہ تعالٰی نے انسان کو اُس
جنت سے نکال کر ایک ایسی دُنیا میں ڈال دیا جو اپنی ذات میں جنت بھی نہیں
ھے اور جہنم بھی نہیں ھے لیکن جب انسان کو اِس زمین میں اُتارا گیا تھا تو
اِس اختیار کے ساتھ اُتارا گیا تھا کہ وہ چاھے تو اِس زمین کو اپنی پہلی
جنت جیسی ایک جنت بنا لے اور چاھے تو اِس کو ایک جہنم بنادے اور انسان نے
اِس اختیار کے بعد زمین کو واقعی ایک جہنم بنانے کی طرف قدم بڑھا دیا اسی
لیۓ اٰیاتِ بالا میں اللہ تعالٰی نے انسان کو تنبیہ کی ھے اگر وہ خلقِ جدید
کے اِس خاص مرحلے سے گزرتے ہوۓ اپنے فتنہ و شر سے اِس زمین کو جہنم بنانے
کا عمل جاری رکھے گا تو ھم انسان کے اِس دُنیا کو مُکمل جہنم بنانے سے پہلے
ہی اِس کو اِس کی اِس محدُودجہنم سے نکال کر اپنی لامحدُود جہنم میں ڈال
دیں گے !!
|