اللہ تبارک و تعالی نے حضرت انسان کو اشرف المخلوقات کا
درجہ دے کر زمین پر اپنے نائب و خلیفہ کے طور پر مقرر کر دیا ہےاور ان میں
سے اپنے برگزیدہ اور منتخب افراد کو رسالت و نبوت کا مرتبہ عطاء کر کے دیگر
انسانوں کی فلاح و بہبود ، ہدایت اور انھیں تہذیب و تمدن سے ہم آہنگ کرنے
کا فریضہ سونپا تھا ۔ حضرت آدم (ع) سے لے حضرت عیسی (ع) تک کئ انبیاء کرام
آئے اور خدا کا پیغام اپنی اقوام تک پہنچایا اور حق شناسی کی تلقین کی مگر
بہت کم ہی ایمان لائے جسکی بنیادی وجہ انکی سرکشی اور باغیانہ طبیعت تھی ۔
سرکشی انسانی فطرت میں شامل ہے اور اگر اسکے ساتھ جہالت کا مرض بھی لاحق ہو
تو پھر انسان بے راہ روی کی اتھاہ گہراہیوں میں گر جاتا ہے جہاں سے واپسی
تقریبا ناممکن ہے ۔ آج سے 14 سو سال پہلے جزیرے عرب کی حالت بھی ناگفتہ بہ
تھی ۔ اہل عرب تہذیب و تمدن سے ناآشنا، بداعمالیوں میں مبتلا اور جہالت کا
بدترین نمونہ تھے ۔ معمولی سے اختلاف پر کئی برس جنگیں رہتی تھیں ۔ قبیلے
کے قبیلے ختم ہوتے مگر دشمنی ایسی کہ کبھی ختم ہونے کو نہ آتی ۔ بیٹیوں کو
زندہ در گور کرنا، غلاموں پر ظلم کرنا، ناحق دوسروں کا مال کھانا، حسب و
نسب پر فخرومباہات اور بت پرستی انکی سرشت میں ایسی رچ بس چکی تھی کہ ان سے
چھٹکارا تقریبا ناممکن تھا ۔ ایسے میں ضروری تھا کہ اس قوم میں بھی ایک
ایسا ہادی بھیجا جائے جو اسکو تمام خرافات سے نجات دلا کر راہ خدا کی طرف
گامزن کرے اور انھیں تہذیب و تمدن اور انسانی معاشرت کے زیریں اصولوں سے
آگاہ کرے ۔ اس کام کے لئے رب تعالی نے سردار الانبیاء، خاتم المرسلین، شافع
المذنبین ، رحمت للعلمین، احمد مجتبی حضرت محمد مصطفی (ص) کا انتخاب فرمایا
۔ علماء تاریخ نے آپ (ص) کی ولادت کے حوالے سے کئی تاریخیں درج کی ہیں جن
میں 8، 9، 12 اور 17 ربیع الاول شامل ہیں مگر 12 اور 17 ربیع الاول 1 عام
الفیل زیادہ مشہور ہیں ۔ آپ (ص) صرف ایک قوم یا خطے کی طرف نہیں بلکہ سارے
عالمین کے لئے رحمت للعلمین بنا کر بھیجے
گئے ہیں ۔ آپ(ص) نے صرف تیئس سال کے مختصر عرصے میں اہل عرب کی کایا پلٹ دی
۔ آپ(ص) نے جزیرے عرب کو بت پرستی کی لعنت سے چھٹکارا دلا کر ایک اللہ کی
عبادت اور اسکے راستے پر گامزن کر دیا ۔ عرب قبائل کو باہم شیر و شکر کرکے
صدیوں پرانی دشمنیوں کا خاتمہ کیا ۔ غلاموں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک
کا خاتمہ کرکے حضرت بلال و خباب بن ارت (رض) جیسے افراد کو اپنی محافل میں
بلند مرتبہ عطاء کیا ۔ عرب و عجم کے فرق کو ختم کر دیا اور حضرت سلمان
فارسی (رض) کو اپنے اہلبیت میں شمار کیا ۔ مفلس و نادار افراد کی مدد گیری
کی ۔ عورتوں کو معاشرے میں باعزت مقام دلوایا اور انکے حقوق و تحفظ کو
یقینی بنایا ۔ دیگر اقوام کیساتھ امن معاہدے کرکے پرامن بقائے باہمی کی
فضاء کو ہموار کردیا ۔ بطور حکمران سادہ زندگی بسر کرکے دنیا کے حکمرانوں
کے لئے سنہری اصول دیا کہ حکمران کو بھی عام آدمی کیساتھ اور اسی کی طرح
زندگی بسر کرنی چاہیے ۔ یہ تو آپ کی سیرت طیبہ کی چند جھلکیاں ہیں ورنہ شجر
قلم بن جائیں ، ہجر لوح اور سمندر روشناہی بن بھی جائیں تو آپ کی سیرت طیبہ
کا احاطہ ناممکن ہے ۔ آج دنیا بھر میں آپ (ص) کی سیرت طیبہ پر لاکھوں
کتابیں لکھی جاچکی ہیں مگر پھر بھی آپ (ص) کی سیرت طیبہ کا احاطہ نہ ہوسکا
اور ہو بھی تو کیونکر جبکہ آسمانوں میں آپکے برابر چرچے رہتے ہیں تو زمین
والوں کی کیا حیثیت ۔ ہم ہرسال بڑے جوش و خروش اور تزک و احتشام سے
میلادالنبی مناتے ہیں اور منانا بھی چاہیے ۔ جن کے صدقے میں دنیا بنی ہے
انکی آمد کا جشن کیوں نہ ہو ؟ لیکن اسکے ساتھ ساتھ آپ (ص) کی تعلیمات کو
بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے ۔ خدا کا فضل ہے کہ ہم آپ (ص) کی امت ہیں اور
آپ (ص) کی محبت کا دم بھرتے ہیں مگر یہ محبت صرف قول تک ہی محدود ہے یا ہم
اپنے فعل سے بھی اسکا اظہار کررہے ہیں ؟ کیا آج ہمارا معاشرہ پوری یکسوئی
کے ساتھ آپ (ص) کی تعلیمات پر عمل پیرا ہے؟ کیا مظلوم کو انصاف اور ظالم
قانون کے کٹہرے میں کھڑا ہے ؟ کیا عورتوں کے حقوق اور عزت و آبرو محفوظ ہے
؟ کیا کمزور طبقے اور محبت کشوں کو دوسروں کے مساوی حقوق حاصل ہیں؟ کیا عرب
و عجم کا فرق پھر سے نمودار نہیں ہوا ؟ اور کیا ہمارے حکمران عام آدمی کی
طرح سادہ زندگی بسر کرتے ہیں ؟ ان سوالات کا جواب بد قسمتی سے نفی میں ہے ۔
ہمارا ملک اسلام کے نام پر بنا تو ہے مگر آج کرپشن ، معاشی بدحالی ،
معاشرتی بدنظمی اور اخلاقی قدروں کی گراوٹ عروج پر ہے جسکی بنیادی وجہ آپ
(ص) کی سیرت طیبہ سے دوری ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم آپ (ص) کی سیرت
طیبہ پر عمل پیرا ہوں تاکہ دنیا و آخرت کی کامیابی سے ہمکنار ہو سکیں ۔
اللہ تبارک و تعالی ہم سب کو آنحضرت (ص) کی سیرت طیبہ پر عمل پیرا ہونے کی
توفیق دے اور بروز محشر آپ (ص) کی شفاعت سے بہرہ مند کرے (آمین) ۔ بقول
حضرت مولانا عبدالرحمن جامی:-
گل از رخت آموختہ نازک بدنی را
بلبل ز تو آموختہ شیریں سخنی را
ہر کس کہ لب لعل ترا دیدہ بہ دل گفت
حقا کہ چہ خوش کندہ عقیق یمنی را
خیاط ازل دوختہ بر قامت زیبا
در قد تو ایں جامہء سرو چمنی را
در عشق تو دندان شکست است بہ الفت
تو جامہ رسانید اویس قرنی را قرنی را
از جامی بے چارا رسانید سلامے
بر در گہ دربار رسول مدنی را
ختم شد
|