نبی کریمﷺ سے محبت کرنا کامل ایمان کی علامت ہے۔ آپ ﷺ سے
محبت کیے بغیر کوئی بھی شخص مؤمن نہیں ہوسکتا۔ ارشادِ نبوی ﷺ ہے کہ تم میں
سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کو اس کے والد، اس کی
اولاد اورتمام لوگوں سے محبوب نہ ہوجاؤں۔لیکن محبت کا دعویٰ کرنے سے پہلے
محبت کا مفہوم سمجھنا نہایت ضروری ہے۔ کیونکہ بدلتے ہوئے زمانے کے ساتھ
ساتھ ہم نے معیارِ محبت بھی بدل ڈالا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج محبت کے نام پر
غیر شرعی امور کا ارتکاب کرتے ہوئے ہمیں بلکل شرم محسوس نہیں ہوتی۔ اسلامی
نقطۂ نظر سے محبت وہی معتبر ہوگی جو اسلامی حدود و قیود میں رہ کر کی جائے۔
اسلام محبت کے نام پر شرعی حدود و قیود سے تجاوز کرنے کی بلکل اجازت نہیں
دیتا۔ چنانچہ جو محبت اسلامی تعلیمات کے خلاف ہوگی وہ باعثِ اجر و ثواب
نہیں بلکہ باعثِ عتاب ہوگی۔
محبت کا مفہوم نہایت وسیع ہے۔ خواجہ یحییٰ بن معاذ فرماتے ہیں کہ محبت ایک
حال ہے، اس کی تعریف لفظوں میں ممکن نہیں ہے۔محبت کرنا اگرچہ دل کا معاملہ
ہے لیکن اس اس کا اثر انسان کے اقوال و افعال سے ظاہر ہوتا ہے۔ ایک سچا محب
اپنی محبت کو محض زبانی دعووں تک محدود نہیں رکھتا بلکہ اس کی ہر ادا محبوب
سے محبت کا اعلان کررہی ہوتی ہے۔ محبت میں پسند اور ناپسند کی بات نہیں
ہوتی بلکہ حقیقی محب محبوب کی پسند کو اپنی پسند پر ترجیح دیتا ہے اور
محبوب کی پسند کو اپنی پسند بنالیتا ہے۔؎
نظر ان کی نظر اپنی، پسند ان کی پسند اپنی
نظر اپنی پسند اپنی، محبت میں نہیں ہوتی
نبی کریمﷺ سے عشق و محبت کا دعویٰ کرنا اور ان کا محب و عاشق ہونا یہ دو
الگ چیزیں ہیں۔ محض زبانی دعویٰ کرنے یا نعرے لگانے سے نبی کریمﷺ سے محبت
کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔ بلکہ محبت کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ محبوب کی ہر ادا
کو اپنایا جائے اور اس کی اتباع کی جائے۔ بقول امام شافعی رحہ؎
لو کان حبّک صادقًا لاطعتہ
لانّ المحبّ لمن یحب مطیع
یعنی اگر تیری محبت میں صداقت ہوتی تو تُو اپنے محبوب کی فرمانبرداری کرتا
کیونکہ محب محبوب کا مطیع ہوتا ہے۔
محبت کے نام پر شرعی حدود سے تجاوز نہیں کیا جائے گا۔ کیونکہ محبت میں حد
سے تجاوز کرنا غلو میں شامل ہے اور ایسی محبت کرنے والا عنداللہ اجر و ثواب
کی بجائے زجر و عتاب کا مستحق بنے گا۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ
نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ غلو سے بچو کیونکہ تم سے پہلے لوگوں کو غلو ہی نے
ہلاک کیا۔ نیز آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ مجھے میرے مرتبے سے زیادہ نہ
بڑھاؤ جیسے عیسیٰ بن مریم کو نصاریٰ نے ان کے رتبے سے زیادہ بڑھا دیا ہے۔
میں تو صرف اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں ۔ اس لیے (میرے متعلق) یہی کہا کرو کہ
میں اللہ کا بندہ اور رسول ہوں۔
صحابہ کرام سے بڑھ کر کوئی بھی نبی ﷺ سے محبت نہیں کرسکتا۔ ان کی محبت محض
زبانی دعووں تک محدود نہیں تھی بلکہ ان کے اقوال و افعال ان کی نبی سے محبت
کا پتہ دیتے تھے۔ وہ نبی ﷺ کی ہر ایک ادا کو اپنانے والے تھے۔ وہ آپﷺ کے ہر
حکم پرسر تسلیم خم کرنے والے تھے۔ آج ہمارا حال یہ ہے کہ ہم نے آپﷺ کی سنت
پر عمل کرنے کی بجائے نعرے لگانے اور زبانی دعوے کرنے کوآپ ﷺ سے محبت سمجھ
لیا ہے۔ حالانکہ اتباع سے بڑھ کر محبت کی کوئی صورت ہوہی نہیں سکتی۔ محبوب
جس کام کا حکم کرے اسے کرگزرنا اور جس کام سے روکے اس سے رک جانا ہی حقیقی
محبت کی علامت ہے۔ اب ہمیں اپنا احتساب کرتے ہوئے خودکو دیکھنا ہوگا کہ کیا
ہم واقعتًا عاشق و محبِ رسول ﷺ ہیں یا ہماری محبت محض باتوں تک محدود ہے۔
|