#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالسجدة ، اٰیت 26 تا 30
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
او
لم یھدلھم
کم اھلکنا من
قبلھم من القرون
یمشون فی مسٰکنھم
ان فی ذٰلک لاٰیٰت افلا
یسمعون 26 اولم یروا انا
نسوق الماء الی الارض الجرز
فنخرج بهٖ زرعا تاکل منه انعامھم
وانفسھم افلا یبصرون 27 ویقولون
متٰی ھٰذالفتح ان کنتم صٰدقین 28 قل
یوم الفتح لاینفع الذین کفروا ایمانھم ولا
ھم ینظرون 29 فاعرض عنھم وانتظر انھم
منتظرون 30
اے ھمارے رسُول ! کیا یہ لوگ یہ دیکھنے کے بعد بھی حق کی آواز نہیں سُنتے
کہ یہ عھدِ رَفتہ کے جن مُردہ اَفراد کے جن گھروں میں چل پھر رھے ہیں وہ
لوگ بھی اپنی اُسی بے دینی کے باعث ہلاک ہوۓ تھے جس بے دینی میں یہ لوگ خود
کو ہلاک ہونے کے لیۓ مُبتلا ہوۓ ہیں اور کیا یہ لوگ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ
اللہ کس طرح بلندیوں سے اپنی جُوۓ رحمت بہا کر پستیوں کی اُن پیاسی زمینوں
کی طرف لاتا ھے جن زمینوں میں اُگنے والی فصلوں کے کِرے بُھرے بُھوسے کو ان
کے جانور کھاتے ہیں اور جن فصلوں سے نکلنے والے چُنے چَھنے دانے کو یہ اپنی
خوراک بناتے ہیں اور تاریخِ رَفتہ و تاریخِ رَواں کے اِن سارے اَحوال کو
دیکھنے کے بعد یہ لوگ آج بھی آپ سے یہی بات پُوچھ رھے ہیں کہ اُن پر قیامت
کا وہ دن کب ظاہر ہو گا جس کا اُن کے ساتھ وعدہ کیا گیا ھے ، آپ اِن دونوں
جماعتوں کو بتادیں کہ جب انسان کا دُنیا سے نکل کر عُقبٰی میں جانے کا وقت
آ جاۓ گا تو قیامت کا وہ دن آجاۓ گا لیکن اُس دن اِن لوگوں کا ایمان لانا
اُن کے لیۓ کسی بھی نفعے کا باعث نہیں ہوگا کیونکہ اُس دن انسان کے اَداۓ
عمل کا وقت ختم ہو کر اُس کی جزاۓ عمل کا وقت شروع ہوجاۓ گا ، آپ نے اِن
لوگوں کو کلمہِ حق سنانے کا فرض پُورا کر دیا ھے اِس لیۓ آپ بھی اِن لوگوں
کی جزاۓ عمل اور سزاۓ عمل کے اُس دن کا انتظار کریں جس دن کا وہ انتظار کر
رھے ہیں !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قول و عمل کی درستی و عدم درستی پر دلیل طلبی انسانی عقل کا ایک فطری عمل
ہوتا ھے اور عقلِ تام رکھنے والا ایک بیدار مغز انسان سب سے پہلے اپنے
تجربہِ ذات و مُشاھدہِ ذات کے صحیح یا غلط ہونے پر اپنے آپ سے ایک دل لگتی
دلیل طلب کرتا ھے اور جب اُس کو اپنے اُس تجربے اور مشاھدے سے وہ دل لگتی
دلیل مل جاتی ھے تو وہ اُس دلیل کی بنا پر اپنے ذاتی اَحوال اور اپنے
معاشرتی ماحول کا ایک درست تجزیہ کر کے اپنی اُس منزل اور اپنے اُس جادہِ
منزل پر گامز ہو جاتا ھے جس کا اُس نے اپنی درست دانش سے ایک درست تعین کیا
ہوا ہو تا ھے جب کہ عقلِ عام رکھنے والا ایک بیکار مغز انسان جو اپنے ذاتی
تجربات و مشاھدات کو جلد بُھول جاتا ھے وہ وقتی طور پر اگرچہ اپنا قبلہِ دل
درست کر لیتا ھے لیکن جلد ہی وہ اپنے اُس قبلہِ شعور کو چھوڑ کر اُسی قبلہِ
بے شعور پر گامزن ہو جاتا ھے جس پر وہ اپنے اِس تجربے اور مشاھدے سے پہلے
گامزن تھا اور عقلِ خام رکھنے والا انسان جو اپنے تجربہِ ذات اور مشاھدہِ
ذات سے زیادہ اُن نئی یا پرانی باتوں سے متاثر ہوتا ھے جن باتوں کو وہ
اِدھر اُدھر سے سُنتا ھے اور کبھی کبھی اُن باتوں پر اپنی ضرورت کے مطابق
کُچھ عمل بھی کرلیتا ھے اِس لیۓ اِس انسان کو اِس انسانی ہجوم میں کبھی
کبھی آگے بڑھنے کا کوئی راستہ بھی مل جاتا ھے لیکن زیادہ تر وہ انسان جس بے
قابُو ہجوم کے ساتھ رہتا ھے اُسی بے قابُو ہجوم کے ساتھ ہی مرجاتا ھے لیکن
عقلِ تام و عقلِ عام اور عقلِ خام رکھنے والے اِن افراد اور اِن کی جماعتوں
کو اُن کی عقل کے مطابق بات سمجھانے اور بات منوانے کے لیۓ اُس دلیل کی بہر
حال ضرورت ہوتی ھے جس دلیل سے وہ بات اُن کی سمجھ میں آسکے اِس لیۓ جس وقت
قُرآنِ کریم نازل ہونا شروع ہوا تو اُس وقت اللہ تعالٰی نے اپنی اِس کتابِ
نازلہ کے اَحکامِ نازلہ کو سکھانے اور سمجھانے کے لیۓ ہر اُس زندہ دلیل کو
اپنا حوالہِ دلیل بنایا جو ہر زندہ انسان کو اپنے ماحول میں ایک زندہ حقیقت
کے طور پر نظر آتی تھی اور ہر زندہ انسان اُس دلیل کو اپنے احساسِ عام سے
محسوس کر کے اُس کو خود بھی سمجھ بھی سکتا تھا اور دُوسرے انسانوں کو بھی
سمجھا بھی سکتا تھا لیکن مُنکرینِ قُرآن ہر ایک دلیل کا سمعی و بصری مشاھدہ
کرنے کے بعد بھی اپنی اُسی ضد اور ہَٹ پر قائم رھے تھے جو اُن کے پُرانے پر
کھوں کا ایک طرہِ امتیاز رہی تھی اور اَب اُن کا بھی ایک طرہِ امتیاز بن
چکی تھی اور سُورَةُ السجدة کی سابقہ اٰیات میں اِن لوگوں کو بِدی کے راستے
سے ہٹانے اور نیکی کے راستے پر لانے اور چلانے کے لیۓ جو روشن و رَخشاں
دلائل دیۓ گۓ تھے اُن دلائل کے باوجُود بھی اِن میں سے ایک انسانی جماعت حق
قبول کرنے سے مُکمل انکار کر چکی تھی اور دُوسری جماعت کَٹ حجتی پر تُلی
ہوئی تھی اِس لیۓ اٰیاتِ بالا میں اللہ تعالٰی نے اپنے رسُول کو مُنکرینِ
قُرآن کی اُن دونوں جماعتوں کی قلبی کیفیات سے آگاہ کرتے ہوۓ بتایا ھے کہ
اِن میں سے ایک مُنکر جماعت تو وہ ھے جو سابقہ ہلاک ہونے والی اقوام کے
گھروں میں رہتی ھے لیکن اِس جماعت کو ایک لَمحے کے لیۓ بھی حق کا انکار
کرنے اور حق کا انکار کرنے کے نتیجے میں اپنے ہلاک ہو جانے کا خیال تک نہیں
آتا اور دُوسری وہ جماعت ھے جو یہ کہتی ھے کہ جس حق کے انکار کے نتیجے میں
ھم پر جو قیامت قائم ہونی ھے تو وہ قیامت ھماری زندگی میں ھماری زندگی پر
ہی کیوں نہیں قائم ہو جاتی ، حق کی اُن دونوں مُنکر جماعتوں کے اِس بے تُکے
سوال کے جواب میں اللہ تعالٰی نے اپنے رسُول کے ذریعے اُن دونوں جماعتوں کو
بتایا ھے کہ قیامت قائم ہونے کا سبب کسی قوم کا انکارِ حق نہیں ھے بلکہ
قیامت قائم ہونے کا وہ مقررہ وقت ھے جو اللہ تعالٰی نے مقررہ کیا ہوا ھے
اور قیامت قائم کرنے کا جو وقت اللہ تعالٰی نے مقرر کیا ھے اُس سے ایک
لَمحہ پہلے بھی قیامت ہرگز نہیں آۓ گی اور اُس سے ایک لَحظہ آگے بھی ہرگز
نہیں جاۓ گی بلکہ اُس وقت کے آنے پر ہی وہ آۓ گی جو وقت اللہ تعالٰی نے اُس
کے آنے کا مقررہ کیا ہوا ھے اور اللہ تعالٰی نے اپنے رسُول کو ھدایت کی ھے
کہ اَب آپ اِن لوگوں کے ساتھ بے مقصد بحث کرنے اور لاحاصل سوالات کے جوابات
دینے کے لیۓ اپنا وہ وقت بالکُل بھی ضائع نہ کریں جو وقت آپ نے تعلیمِ
قُرآن اور تفہیم قُرآن کے لیۓ مقرر کیا ہوا ھے بلکہ فی الحال آپ بھی اِن
لوگوں پر آنے والی اُس ہلاکت کا انتظار کریں جو ہلاکت اِن لوگوں نے قیامت
قائم کرنے کے نام پر ھم سے خود طلب کی ھے ، اِن لوگوں پر ایک مناسب وقت تک
ہی اِس اتمامِ حُجت کا اہتمام کیا جاۓ گا جو کیا جارہا ھے اور اِن لوگوں کو
ایک مناسب وقت تک ہی سنھبلنے کا موقع بھی دیا جاۓ گا تاکہ اِس اثنا میں جو
لوگ ایمان لانا چاہیں تو وہ ایمان لے آئیں اور جو لوگ اپنے کفر پر قائم
رہنا چاہیں تو وہ اپنے کفر پر قائم رہ جائیں لیکن جہاں تک قیامت کا تعلق ھے
تو قیامت جس وقت قائم ہو جاۓ گی تو اُس وقت کسی فردِ بشر کا ایمان لانا اُس
فردِ بشر کے لیۓ اِک ذرہ بھر بھی نفعے کا باعث نہیں ہو گا بلکہ وہ وقت اِن
لوگوں کی بد اعمالی میں ایک ایسا مزید اضافہ ہی ہو گا جو اِن کی مزید سزا
کا باعث بنے گا ، لہٰذا جب تک انسانی دل کی بنجر زمین کے لیۓ دین کی یہ
جُوۓ بہار بہہ رہی ھے تب تک جس نے اِس کا جُرعہِ حیات پینا ھے وہ پی لے
تاکہ اُس کے دل کی بنجر زمین زَرخیز اور ثمر ریز ہوجاۓ اور جس انسان نے اِس
کی لذتِ دل و دھن سے محروم رہنا ھے وہ اِس بات کا شکوہ نہ کرسکے کہ اُس کو
قبولِ حق کے لیۓ سوچنے سمجھنے اور سنبھلنے کا مناسب وقت ہی نہیں دیا گیا !!
|