جنگِ اَحزاب اور اہلِ روایت کا ذہنی عذاب !!

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالاَحزاب ، اٰیت 1 تا 3 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
یٰایھا
النبی اتق اللہ
ولاتطع الکٰفرین و
المنٰفقین ان اللہ کان
علیما حکیما 1 واتبع ما
یوحٰی الیک من ربک ان اللہ
کان بما تعملون خبیرا 2 وتوکل
علی اللہ وکفٰی باللہ وکیلا 3
اے خبردار کرنے والے ! خبردار ہو جاکہ اَحزاب کی اِس خوفناک جنگ کے خوفناک ماحول میں آپ نے اپنے اللہ کے خوف کے سوا عالَمِ بے خوف کے ہر ایک خوف سے بے خوف رہنا ھے اور جنگ کے خاتمے کے لیۓ مدینے کے اندرونی معاصرین اور مدینے کے بیرونی محاصرین کے ساتھ مفاہمت کا جو عمل شروع کرنا ھے اُس عمل کے دوران آپ نے مُنکرینِ قُرآن اور منافقینِ شہرِ قُرآن کی طاقت کے سے متاثر ہو کر کوئی بات نہیں کرنی ھے ، اللہ ہر انسان کی ہر جنگی حکمتِ عملی کو ہر انسان سے زیادہ بہتر جانتا ھے اِس لیۓ اللہ ہی آپ کا وہ حفاظت کار و پروردگار ھے جو آپ پر وحی نازل کرتا ھے اور آپ نے اللہ کی اُسی وحی کی اتباع کرنی ھے جو آپ پر نازل ہوتی رہتی ھے اور آپ نے ہر حال میں اپنے اُسی اللہ کی امداد پر ہی بھروسا کرنا ھے جو جُملہ انسانوں کے جُملہ اعمال سے خبردار ہوتا ھے اور خبردار رہتا ھے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
سیدنا محمد علیہ السلام نے اپنی 23 سالہ حیات نبوت میں سے جتنا عرصہ مکے میں گزارا ھے اُتنا ہی عرصہ مدینے میں بھی گزارا ھے ، اِس فرق کے ساتھ کہ مکی حیاتِ نبوت کے پہلے ساڑھے گیارہ یا پُورے بارہ سال میں آپ کی کسی قوم یا قبیلے کے ساتھ کوئی جنگ نہیں ہوئی لیکن عُلماۓ روایت کی روایات کے مطابق مدینے میں آپ کی حیاتِ نبوت کے بارہ برسوں کے دوران آپ نے کم و بیش 36 جنگی مُہمات سر کی ہیں جس کا مطلب یہ ھے کہ مکے سے ہجرت کے بعد مُشرکینِ مکہ نے ہر 6 ما کے بعد آپ کے خلاف ایک جنگی مُہم منظم کی ھے اور آپ نے ہر 6 ماہ بعد اپنا اور اہلِ مدینہ کا دفاع کیا ھے ، قُرآنِ کریم نے اپنی اٰیاتِ نازلہ میں اِن 36 جنگوں میں سے جن 3 قابلِ ذکر جنگوں کا ذکر کیا ھے اُن 3 جنگوں میں پہلی جنگِ بدر ، دُوسری جنگِ حنین اور تیسری جنگ یہی جنگِ اَحزاب ھے جس جنگ کے نام پر اِس سُورت کا نام سُورَةُالاَحزاب رکھا گیا ھے لیکن عُلماۓ روایت نے اپنی روایاتِ کاذبہ میں اُس چوتھی جنگ ذکر بھی کیا ھے جس جنگ کا نام جنگِ اُحد ھے اور اِن چار مشہور جنگوں میں سے جنگ اُحد ہی وہ واحد جنگ ھے جس میں عُلماۓ روایت کی روایات کے مطابق آپ کے بارہ اَصحاب کے سوا آپ کے دیگر اَصحاب کا سارا لَشکر آپ کو میدانِ جنگ میں تنہا چھوڑ کر بھاگ گیا تھا جس کی وجہ سے آپ کا جسم زخمی اور آپ کے دندان مُبارک شھید ہوۓ تھے اور ابوسفیان کی بیوی ہندہ کے حُکم پر اُس کے ایک وحشی غلام نے آپ کے محبوب چچا حمزہ بن عبدالمطلب کو بھی شھید کیا تھا اور ہندہ نے اُن کے دل و جگر اور ناک کان وغیرہ کاٹ کر اُن سے اپنے گلے میں ڈالنے کے لیۓ ایک ہار بھی بنایا تھا ، عقلِ سلیم کہتی ھے کہ قُرآنِ کریم میں دیگر تین جنگوں کا ذکر ہوتا یا نہ ہوتا لیکن اِس جنگ کا تو ذکر ضرور ہوتا جس میں اتنا شدید نقصان ہوا تھا کہ رحمتِ عالَم کا جسم بھی محفوظ نہیں رہا تھا ، قُرآنِ کریم نے اگرچہ اُحد نام کی اِس جنگ ذکر نہیں کیا ھے لیکن عُلماۓ تفسیر نےسُورَہِ اٰلِ عمران کی اٰیت 121 سے لے کر اٰیت 181 تک کی 60 اٰیات کو قُرآن کے کسی قُُرآنی قرینے کے بغیر ہی جنگِ اُحد سے جوڑ دیا ھے اور ھم نے بھی چونکہ اُن اٰیات کے اُن مقامات پر جنگِ اُحد کے اِس روایتی پہلو پر ایک سیر حاصل گفتگو کی ھے اِس لیۓ اِس مقام پر اُس گفتگو کے بارے اِس سے زیادہ کُچھ کہنے کی ضروت نہیں ھے کہ عُلماۓ تفسیر جب بھی جنگِ اَحزاب کا ذکر کرتے ہیں تو اِس جنگ سے پہلے وہ ایک اَمرِ لازم کے طور پر جنگِ اُحد کا ذکر بھی ضرور ذکر کرتے ہیں تاکہ وہ نبی کے اَصحابِ نبی کے خلاف اپنے بغضِ باطن اور اپنے خُبثِ باطن کا مظاہرہ کر سکیں چنانچہ عُلماۓ روایت کے ایک روایتی سرخیل سید مودودی مرحوم سُورَہِ اَحزاب کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ { جنگِ اُحد شوال 3 ھجری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کیۓ ہوۓ تیر اندازوں کی غلطی سے لشکر اسلام کو جو شکست نصیب ہو گئی تھی اس کی وجہ سے مشرکین عرب ، یہود اور منافقین کی ہمتیں بہت بڑھ گئی تھیں اور انہیں اُمید بندھ چلی تھی کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کا قلع قمع کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے ، ان بڑھتے ہوۓ حوصلوں کا اندازہ ان واقعات سے ہو سکتا ھے جو اُحد کے بعد پہلے ہی سال میں پیش آۓ ، جنگِ اُحد پر دو مہینوں سے زیادہ نہ گزرے تھے کہ نجد کے قبیلہ بنی اسد نے مدینہ طیبہ پر چھاپا مارنے کی تیاریاں کیں اور نبی صلی اللہ و علیہ وسلم کو ان کی روک تھام کے لیۓ سریہِ ابو سلمہ بھیجنا پڑا ، پھر صفر 4 ھجری میں قبائلِ عضل اور قارہ نے حضور سے چند آدمی مانگے تاکہ وہ اُن کے علاقے میں جاکر لوگوں کو دین اسلام کی دعوت دیں ، حضور نے چھ اصحاب کو ان کے ساتھ کر دیا مگر رجیع ( جدہ اور رابغ کے درمیان ) پُہنچ کر وہ لوگ قبیلہِ ھذیل کے کفار کو ان بے بس مبلغین پر چڑھا لاۓ ، ان میں سے چار کو قتل کر دیا اور دو صاحبوں ( حضرت خبیب بن عدی اور حضرت زید بن الدّثنہ ) کو لے جا کر مکہ میں دشمنوں کے ہاتھ فروخت کردیا ، پھر اسی ماہِ صفر میں بنی عامر کے ایک سردار کی درخواست پر حضور نے ایک اور تبلیغی وفد جو چالیس ( یابقول بعض 70 ) انصاری نوجوانوں پر مشتمل تھا نجد کی طرف روانہ کیا مگر ان کے ساتھ بھی غداری کی گئی اور بنی سلیم کے قبائل عُصیہ اور رِغل اور ذکوان نے بئر موعونہ کے مقام پر اچانک نرغہ کرکے ان سب کو قتل کردیا ، اسی دوران میں مدینے میں مدینے کا یہودی قبیلہ بنی النضیر دلیر ہو کر مسلسل بد عہدیاں کرتا رہا یہاں تک کہ ربیع الاول 4 ھجری میں اُس نے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کر دینے کی سازش تک کر ڈالی ، پھر جمادی الاولٰی 4 ھجری میں بنی غطفان کے دو قبیلوں ، بنو ثعلبہ اور بنوں محارب نے مدینے پر حملے کی تیاریاں کیں اور حضور کو خود اُن کی روک تھام کے لیۓ جانا پڑا ، اس طرح جنگِ اُحد کی شکست سے جو ہوا اکھڑ گئی تھی وہ مسلسل سات آٹھ مہینے تک اپنا رنگ دکھاتی رہی } جنگِ اَحزاب کے اِس طویل تعارف سے صاف ظاہر ھے کہ سید مودودی مرحوم نے جنگِ اَحزاب سے پہلے جنگِ اُحد کا جو ذکر کیا ھے وہ عُلماۓ روایت کی روایت کو نبھاتے ہوۓ وزنِ بیت کے طور پر ہی کیا ھے ورنہ جنگِ اُحد کے اُس خیالی مضمون کا جنگِ اَحزاب کے اِس حقیقی مضمون کے ساتھ کوئی بھی تعلق نہیں ھے جس کا قُرآن نے ذکر کیا ھے ، اِس وضاحت کے بعد ھم اِس اَمر کی بھی وضاحت کیۓ دیتے ہیں کہ اہلِ روایت نے سید صاحب کی نقل کردہ روایت میں جو 76 مسلمان شھید کراۓ ہیں اُن کے لیۓ بخاری کی کتاب فضائلِ قُرآن کی حدیث 3986 میں قاری کے الفاظ درج کیۓ گۓ ہیں جن سے قُرآن کے حفاظ و قراء مُراد ہیں اور اِن الفاظ سے یہ ثابت کرنا مقصود ھے کہ عھدِ نبوی میں قُرآن کے حفاظ کی جو پہلی کھیپ تیار ہوئی تھی وہ پُوری کھیپ شہید ہو چکی تھی اور اِس کے بعد بخاری کی اسی کتاب فضائل قُرآن کی حدیث 5004 کے مطابق اُس وقت ابو الدردا و معاذ بن جبل اور زید بن ثابت اور ابو زید کے سوا کوئی بھی حافظِ قُرآن موجُود نہیں تھا اور ان چار اَصحاب کے بعد کسی اور صحابی نے بھی قُرآن حفظ نہیں کیا تھا یہاں تک کہ جب خلیفہ عثمان بن عفان کے زمانے میں قُرآن جمع کرنے کا کام شروع کیا گیا تو سُورَہ اَحزاب کی اٰیت 23 پتوں، پتھروں اور ہڈیوں پر لکھے ہوئی کسی تحریر سے بھی دستیاب نہ ہوسکی جو بعد ازاں بہت مشکل سے خذیمہ بن ثابت انصاری سے دستیاب ہوئی ، ظاہر ھے کہ کوئی حافظِ قُرآن موجود ہوتا تو یہ مُشکل پیش نہ آتی اور جہاں تک عُلماۓ روایت کی مُبینہ جنگِ اُحد میں اَصحابِ نبی کے میدانِ جنگ میں نبی علیہ السلام کو چھوڑ کر بھاگ جانے کی کہانی کا تعلق ھے تو اُس کہانی کی حقیقت ھم سُورَہِ اٰلِ عمران کی اٰیت 121 کے تحت بہت تفصیل سے بیان کر چکے ہیں اور اُس تفصیل کا اجمال یہ ھے کہ قُرآنِ کریم کی اُس اٰیت میں ایک جنگی تربیت کا ذکر ھے جس جنگی تربیت کے دوران نبی علیہ اسلام کے ذریعے زیرِ تربیت اَفراد کو یہ سکھاتے ہوۓ دکھایا گیا ھے کہ جنگی مورچے کس طرح بناۓ جاتے ہیں اور اُن جنگی مورچوں میں کس رُخ پر کس طرح بیٹھا جاتا ھے ، اگر دُشمن تُمہارے عقب سے تُم پر وار کرے تو تُم نے اپنے عقب کو کس طرح بچانا ھے اور کس وقت اپنے مورچے سے باہر آکر اپنے دُشمن کو کس طرح ایک جنگی حربے کے ذریعے ایک سمت سے ہٹانا اور دُوسری سمت میں چلانا اور بھگانا ھے لیکن عُلماۓ روایت نے جنگ کی اِس عملی تربیت کو ایک عملی جنگ ثابت کرنے کے لیۓ جو کہانی وضع کی ھے اُس کہانی میں مسلمانوں کو یہ باور کرایا گیا ھے کہ نبی علیہ السلام نے آغازِ جنگ سے پہلے کُچھ جوانوں کو دشمن کی پیش قدمی روکنے کے لیۓ ایک مقام پر کھڑا کیا تھا جو اسلامی لشکر کو کامیاب ہوتا دیکھ کر مالِ غنیمت پر ٹوٹ پڑے تھے اور دُشمن اُن کے لشکر پر ٹوٹ پڑا تھا جس کے نتیجے میں وہ نقصان ہوا تھا جس کا اُنہوں نے اپنی روایات میں ذکر کیا ھے لیکن عُلماۓ روایت کی اِس روایتی کہانی کا حیران کُن پہلو یہ ھے کہ جس جنگ میں مشرکین مکہ نے مسلمانوں کو اتنا شدید نقصان پُہنچایا تھا کہ میدانِ جنگ میں جو بارہ آدمی رہ گۓ تھے وہ بھی اپنی جانوں سے بے نیاز ہو کر اپنے زخمی ہونے والے نبی علیہ السلام کی دیکھ بھال میں مصروف تھے مگر اِس موقعے پر کفارِ مکہ نے نہ ہی ان کے کسی جنگ جُو کو گرفتار کیا ھے اور نہ ہی اِن سے کوئی مالِ غنیمت حاصل کیا ھے بلکہ وہ مسلمانوں کو مغلوب کرتے ہی ہوا میں تحلیل ہو گۓ ہیں ، اسی لیۓ مولانا مودودی مرحوم نے اِن اٰیات کی تفسیر کرتے ہوۓ یہ لطیفہ بھی تحریر کیا ھے کہ { اِس موقعے پر یہ ایک معما ھے جو حل نہیں ہو سکا کہ وہ کیا چیز تھی جس نے کفارِ مکہ کو خود بخود پھر دیا ، مسلمان اس قدر پراگندہ ہو چکے تھے کہ ان کا پھر مجتمع ہو کر جنگ کرنا مُشکل تھا ، اگر کفارِ مکہ اپنی فتح کو کمال تک پُہنچانے پر اصرار کرتے تو ان کی کامیابی بعید نہ تھی مگر نہ معلوم کس طرح وہ آپ ہی آپ میدان چھوڑ کر واپس چلے گۓ } ظاہر ھے کہ مولانا مودودی مرحوم تاریخ کا یہ معما اس لیۓ حل نہیں کر سکے کہ ایک مسلمان ایک ہی وقت میں اگر قُرآنی اٰیات اور ایرانی روایات پر ایمان لاۓ گا تو وہ ان ہی تضادات کا سامنا کرتے ہوۓ مرجاۓ گا ، جو مسلمان جہالت کی یہ موت مرنا نہیں چاہتا تو اُس کو چاہیۓ کہ وہ قُرآن کے بیان کو پُورے یقین کے ساتھ قبول کر لے اور اہلِ روایت کے ہذیان کو پُورے اعتماد کے ساتھ رَد کر دے ، اِس سُورت کی اٰیت 1 سے اٰیت 27 تک اُس جنگِ اَحزاب کا ذکر کیا گیا ھے جو مدینے میں قائم ہونے والی پہلی قُرانی حکومت کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں نے باہم مل کر اُس قُرآنی حکومت پر مسلّط کی تھی جس کا پُورا سیاسی و معاشرتی ڈھانچا بھی ابھی مُکمل نہیں ہو سکا تھا اور مُنکرینِ قُرآن چاہتے تھے کہ اِس قُرآن کا جو انقلابی پیغام تیزی کے ساتھ انسانی سینوں میں اُتررہا ھے اُس انقلابی پیغام کے سامنے ابتدا ہی میں وہ مضبوط بند باندھ دیا جاۓ کہ یہ پیغام اِس سے مزید آگے نہ بڑھ سکے اور اپنے اِس مذموم مقصد کی تکمیل کے لیۓ اُنہوں نے ایک بڑا قومی اتحاد Grand Nationl Alliance قائم کرلیا تھا اور مُختلف قبائل کے اُس بڑے قومی اتحاد نے مدینے کا محاصرہ کر لیا تھا اور وہ محاصرہ کئی ماہ تک جاری رہا تھا ، اِس کے بعد اٰیت 28 سے اٰیت 34 تک متاثرینِ جنگِ اَحزاب کی بحالی کا ذکر ھے جس میں ترجیحی بنیاد پر خواتین کا ذکر کیا گیا ھے جو جنگ کے دوران شاید اپنی کم زوریِ طبع کے باعث عملی جنگ میں شامل نہ ہونے کے باوجُود بھی اہلِ جنگ سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں ، اِس کے بعد اٰیت 35 سے اٰیت 48 تک کردارِ نبوت کا تذکرہ ھے اور اٰیت 49 سے لے کر اِس سُورت کی آخری اٰیت تک مسلمان مرد و زن کے اُن معاشرتی مسائل کا ذکر کیا گیا ھے جن کو اپنے اپنے مقام پر حالتِ جنگ و حالتِ اَمن میں پیش آنے والے اُن معاملات کی تعلیم دی گئی ھے جن کی تفصیل اُن اٰیات کے متعلقہ مقامات پر اُسی ترتیب کے ساتھ آۓ گی جس ترتیب کے ساتھ اِس سُورت کی اِن اٰیات کا نزول ہوا ھے تاہم سُورت کا نفسِ موضوع وہی ھے جس موضوع کا اِس کے نام میں ذکر کیا گیا ھے !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 467332 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More