خیالی دریچے

روز مرہ کے معملات میں سے کسی ایک کا باریک بین مشاہدہ ۔ ایک سچا واقعع جو سننے میں تو معمولی ہے لیکن سوچ کے دریچوں میں کسی کرن کی طرح پھوٹے گا۔

میری نظروں کے سامنے طرح طرح کی اعلیٰ قسم کی لیکن خستہ حال جیکٹس ایک ٹھیلے پہ وجہ نمائش بنی پڑی تھیں، اکتوبر کا آخر تھا اور موسم سرما کا آغاز ہو رہا تھا ۔ ٹھیلے کے بالکل برابر میں ایک شخص میلا سا بورا بچھائے جوتوں کے الگ الگ قسم کے ٹنگے ہوئے سامان کے گھراؤ میں اپنے کام میں مشغول تھا اور مجھے اسی موچی سے اپنا واحد چمڑے کا جوتا پالش کرانا تھا ۔ میں اپنی موٹر سائیکل سے اترا اور موچی کے حصہ سلطنت کی طرف بڑھا تو اسکے ساتھ کھڑا اسکا بیٹا مجھے ایسے ٹکٹکی باندھے دیکھنے لگا جیسے میرے سر پہ سینگ اگ آئے ہوں ، تھوڑی سی حیرانی کے بعد مجھے اندازا ہو گیا کہ وہ اور کچھ نہیں بلکہ میرے بالوں سے عاری چمکتے ہوئے سر کو نہایت ہی افسردگی سے تک رہا ہے ، شاید وہ یہ سمجھ کے افسوس منا رہا تھا کہ میں پیدائشی گنجا ہوں یا پھر اسے اپنے ابا حضور کی سلطنت میں صرف زلفوں والے اصحاب ہی پسند تھے ۔ مغرب کے بعد کا وقت تھا اور موچی کے بالکل سر کے اوپر ایک سو والٹ کا بلب جل رہا تھا جو ہوا سے ایسے جھول رہا تھا جیسے ابھی اس کے سر پہ آ گرے گا لیکن موچی اپنے کام میں اور سامنے بیٹھے ایک ساٹھ ستر سالہ شخص سے کسی اہم موزوں پہ بات کر رہا تھا اور شاید اسے اس جھولتے بلب کی جلالی فطرت کی عادت ہو چکی تھی کم سے کم اس کے چہرے سے تو یہی عیاں تھا ۔میں نے بھی اپنا جوتوں کا جوڑا اس کے سامنے رکھ دیا جس کے بدلے میں اس نے مجھ پر اک نظر ڈالی اور دوبارہ اپنے کام میں سرگرم ہو گیا ۔ ابھی میں وہاں پڑی لکڑی کی ایک بنچ پہ بیٹھا ہی تھا کہ موچی کی آواز میرے کانوں میں گونجی ۔

"یار چاچا دینو اک بات بولاں برا تے نئیں منائے گا "

یہ جملہ تو بڑا عام سا تھا ،لیکن موچی کا لہجہ ایسا تھا جیسے وہ اجازت نہ طلب کر رہا ہو بلکہ بوڑھے کو کسی خطرناک حملے کیلئے تیار کر رہا ہو ۔

"ہاں ہاں بول شکورے ایسی کونسی گال (بات) ہے

"چاچا تجھے مزدوری کرتے ہوئے چالیس سال ہو گئے لیکن تو کچھ بنا نا سکا آج بھی وہی کا وہی ہے"

یہ الفاظ بوڑھے پہ کسی کوڑے کی طرح پڑے تھے اور اس کے چہرے پہ کئی رنگ آ کہ گزر گئے۔سننے میں تو یہ کوئی خاص بات نہیں لگ رہی تھی لیکن اس جملے نے میری سوچ کے کئی دروازے کھول دئے۔ میرے سامنے ایک پسینے اور مٹی میں اٹا شخص جسکے ہاتھ میں کسی اور شخص کا جوتا تھا اور وہ بڑے اچھے سے اپنی محنت کا ثبوت پیش کر رہا تھا ۔ اپنے سامنے بیٹھے اپنے ہی جیسے ایک مزدور کی تذلیل بھی کر رہا تھا ۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ آپکی ناکامی صرف آپ سے کامیاب شخص کو نہیں بلکہ آپ جیسوں کو بھی آپ کو ناپنے کا پورا پورا حق میسر کرتی ہے ۔ یا شاید یہ قدرتی بات ہے کہ اگر کسی کا قد تم سے ذرا برابر بھی بڑا ہے تو وہ تمھیں آسمان کی بلندی سے دیکھے گا اور تمہیں ایک حقیر کیڑا سمجھے گا ۔ فرق صرف اتنا ہوگا کہ کچھ قد آور تمھیں زیادہ تو کچھ کم زلیل کرینگے ۔ کیا دنیا کی زندگی میں کامیاب ہونا صرف پیسے کا ہی نام ہے ؟ کیا روحانی کامیابی یا اچھائی صرف کتابوں کے صفحوں میں لپٹ کہ رہ گئی ہے؟ کیا کمزور طاقتور کا اور طاقتور خود سے طاقتور کا غلام ہے ؟ ان سب سوالوں کا جواب مجھے شاید مل چکا تھا ۔

"ہاں لڑکے پچاس روپے"

اچانک موچی نے ایک تھیلا جوتوں سمیت میری طرف بڑھایا تھا ، میں نے یہ جرمانہ ادا کیا اور اپنی موٹر سائیکل کی طرف بڑھا ، آج پچاس روپے میں صرف میرے جوتے ہی نہیں بلکہ میرا دماغ بھی اس جدید دور کے قدیم اصولوں کو سمجھنے کے لئے پالش ہو چکا تھا ۔ بلب کے ہلنے کی اور موچی کے بیٹے کے بند منہ لیکن بولتی نظروں کی آواز بلا دستور جاری تھی ۔
 

Bilal Ahmed
About the Author: Bilal Ahmed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.