مولانا سمیع الحق مرحوم کے حوالے سے منعقدہ پروگرام میں
مولانا محمد خان شیرانی کے ساتھ جمیعت علماء اسلام (ف) کے کارکن و طلبہ نے
بدتمیزی کی. پروگرام کے منتظمین نے اس ناخوشگوار واقعہ کی شدید مذمت کی اور
اس کو منظم طریقے پروگرام ناکام کرنے کی سازش قرار دی. مذکورہ پروگرام کے
چیف گیسٹ مفتی تقی عثمانی تھے. اس پر تفصیل سے لکھنے کا ارادہ تھا کہ گزشتہ
چند سالوں میں مولانا شیرانی، مولانا طارق جمیل اور جامعۃ الرشید کے مفتی
عبدالرحیم کو کس منظم انداز میں دینی طبقوں بالخصوص جے یو آئی کے کارکنوں
اور درمیانی سطح کے قائدین نے تضحیک کا نشانہ بنایا. اس موضوع پر دل کھول
کر لکھنے کا ارادہ کرنے کے باوجود بھی، گالیاں کھانے کی ہمت نہ تھی اس لیے
ترک کر دیا.
حیرت کی بات یہ ہوئی کہ جس مولانا سمیع الحق مرحوم کو ایک طویل عرصہ تذلیل
و تضحیک کا نشانہ بنانے والے اور ان کے کارکنوں نے آج اسی کی برسی پر
مولانا شیرانی کو بھی تضحیک کا نشانہ بنا ڈالا.
بیسوی صدی کی پہلے نصف میں تین نامور علماء کو بہت زیادہ گالیاں دی گئی اور
منظم طریقے سے تضحیک کا نشانہ بنایا گیا.
مولانا ابوالکلام آزاد
مولانا حسین احمد مدنی
مولانا ابوالاعلی مودودی
رحمھم اللہ علیہم رحمۃ واسعۃ
اکیسویں صدی کے پہلے دو عشروں میں چار نامور علماء کو سب سے زیادہ تضحیک کا
نشانہ بنایا گیا.
مولانا سمیع الحق شہید
مفتی عبدالرحیم
مولانا طارق جمیل
مولانا محمدخان شیرانی
بدقسمتی سے ان نامور علماء کو تضحیک کا نشانہ بنانے والے سارے مسلمان ہیں
اور خود کو دیندار طبقوں اور جماعتوں سے منسوب کرتے.
یاد رہیے! میں علمی اختلاف و تنقید اور سیاسی فکر و نظر اور عمل میں اختلاف
کی بات نہیں کررہا. یہ تو مستحسن چیز ہے.میں تضحیک اور طعن و تشنیع کی بات
کررہا ہوں جو ان بزرگوں کیساتھ مسلسل روا رکھا گیا.
یہ وہ کبار اہل علم ہیں جن کی علمی، سیاسی، دینی، فکری، تبلیغی اور تدریسی
خدمات مسلم ہیں.
اب بھی وقت ہے اس منحوس سلسلے کو روکا جاسکتا ہے.
ورنا کہیں
مولانا شیرانی کی سفید داڑھی
مولانا طارق جمیل کا درد دل
اور مفتی عبدالرحیم کا معتدل رویہ
بہت ساروں کو خس و خاشاک کی طرح بہا نہ لے.
بڑوں کو خود آگے آنا چاہیے اور نجی محفلوں میں اس طوفان بدتمیز پر قہقہوں
کے بجائے اپنے چاہنے والوں کو دو ٹوک بتانا چاہیے کہ ایسی حرکتیں ہرگز قبول
نہیں.
احباب کیا کہتے ہیں؟
|