شیخِ مکتب ہے اک عمارت گر

بحیثیت معلم ہماری ذمے داری محض ادارے کی چار دیواری کے اندر والے بچے اور ان کو پڑھایا جانے والا نصاب نہیں ہے۔ بلکہ ہمیں یہ فکر ہونی چاہیے کہ بچے صرف کتاب پڑھ کر امتحان پاس کرکے نہ چلے جائیں بلکہ وہ صحیح معنوں میں مسلمان بچے بنیں، با شعور اور کارآمد شہری بنیں۔

یہ ایک زیر تعمیر عمارت کا منظر ہے۔یہاں کچھ مزدور کام کررہے ہیں۔ ان مزدوروں کی نگرانی کرنے والا ٹھیکے دار بھی یہاں موجود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عمارت بنوانے والے صاحب بھی اس وقت تعمیراتی کام کا جائزہ لینے آئے ہیں۔آئیے ہم ان تینوں یعنی مزدور، ٹھیکے دار اور عمارت کے مالک سے ایک سوال کرتے ہیں۔ سوال بہت سادہ سا ہے کہ
آپ کیا بنا رہے ہیں؟
مزدور : جناب ہم اس عمارت کی دیوار بنا رہے ہیں۔
ٹھیکے دار : جناب ہم یہاں ایک بہت بڑی عمارت بنا رہے ہیں۔

عمارت کا مالک : میں یہاں ایک شان دار کالج بنا رہا ہوں جہاں ہمارے بچے تعلیم حاصل کریں گے اور تعلیم حاصل کرنے کے بعد اچھے مسلمان، تعلیم یافتہ اور باشعور شہر ی بن کر ملک اور معاشرے کی خدمت کریں گے ۔

جوابات آپ نے پڑھے۔ ایک ہی جگہ موجود اور ایک ہی مقصد کے لیے کام کرنے والوں کے جوابات کا فرق بھی آپ نے ملاحظہ کیا ۔تینوں کے جوابات کے اس فرق کی بنیادی وجہ ان سب کی بصیرت یا Vision اور ذمے داری کا فرق ہے۔مزدور کی سوچ (Vision) یا ذمے داری صرف یہ ہے کہ مجھے یہاں دیواریں اٹھانی ہیں، بعد میں کوئی اور پلستر کرے گا، رنگ و روغن کرے گا لیکن مجھے اس سے کیا؟ میر اکام اینٹیں اٹھانا یا اینٹوں کی مدد سے دیوار اٹھانا ہے۔ دیوار بنانے کے لیے جو اینٹیں مجھے دی گئی ہیں، اگر وہ کمزور ہیں یا ناقص ہیں تو یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔ٹھیکے دار کی سوچ یا بصیرت یہ ہے کہ مجھے یہاں ایک عمارت تعمیر کرکے دینی ہے۔عمارت تعمیر ہونے کے بعد یہاں اسکول بنے، کالج بنے، گھر بنے ، ہوٹل بنے ،یا ایسے ہی خالی پڑی رہے میری بلا سے ۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔

اس کے برعکس عمارت تعمیر کرنے والی کی سوچ، بصیرت یا وژن بہت آگے کا ہے۔ وہ یہاں صرف اینٹوں اور گارے سے بنی ہوئی دیوار نہیں دیکھ رہا، وہ یہاں محض ایک شان دار یا عالی شان عمارت نہیں دیکھ رہا۔بلکہ وہ اس عمارت میں آنے والے بچوں کو دیکھ رہا ہے۔ وہ یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے مستقبل کے ڈاکٹرو، انجینئروں، معلم، مبلغ، حکمران، سرکاری افسران اور باشعور شہریوں کو دیکھ رہا ہے۔
یہ وژن کا فرق ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس ساری بات میں ہمارے لیے کیا پیغام ہے؟

ہمارے لیے اس چھوٹی سی کہانی میں بہت اہم پیغام ہے۔ کہانی کے کرداروں کو سامنے رکھ کر اپنا جائزہ لیں کہ بحیثیت استاد اور معلم ہم کون سا کردار ادا کرنا پسند کریں گے؟

ہمم!

جب کرداروں میں سے انتخاب کی بات آئی تو سب نے اپنے دل میں عمارت کے مالک کا کردار سوچا۔بہت اچھی بات ہے۔ ایسا ہی ہونا چاہیے۔ لیکن اب ہم اپنی پسند کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا واقعی ہم عمارت کے مالک کا کردار پسند کرتے ہیں؟ با زبانِ انگریزی ہم کچھ Cross Questions کرتے ہیں یا اپنے بیان پر جرح کرتے ہیں۔چلیے ہم جرح نہیں کرتے، صرف جائزہ لیتے ہیں۔

کیا ہم واقعی بحیثیت معلم عمارت کے مالک کا کردار ادا کررہے ہیں؟

معلمِ مضمون۔ میں ایک معلمِ مضمون Subject teacher ہوں۔میں کمرہ جماعت میں جاکر اپنا تفویض کردہ نصاب مکمل کرا دیتا ہوں۔اگلے سال میں نئے بچوں اور نئی جماعت میں یہی کام کروں گا۔ نصاب کیا ہے؟ اس کے تقاضے کیا ہیں؟ یہ میرا کام نہیں ہے۔میں نے ایک چیز کو غلط محسوس کیا۔ مجھے معلوم ہوگیا کہ نصاب میں یا کتاب میں یا تدریس میں غلطی ہورہی ہے۔ لیکن مجھے اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔میں بسا اوقات دیکھتا ہوں کہ کچھ طلبہ شرارت کررہے ہیںلیکن وہ میرے شاگر د نہیں ہیں۔ وہ تو کسی دوسری جماعت کے طلبہ ہیں، کسی دوسرے معلم کے شاگر د ہیں ۔ اوہ چھوڑیں جی ! یہ میرا کام نہیں ہے۔میرا کام تو بس اپنا مضمون پڑھانا ہے۔ میں وہ کام کررہا ہوں۔

تو میں کیا ہوں؟ عمارت کا مالک یا محض ایک دیہاڑی دار مزدور جس کی سوچ کی معراج اپنی تنخواہ یا دیہاڑی ہے اور بس۔

نگرانِ مضمون یا نگرانِ شعبہ ۔ میں نگرانِ شعبہ یا نگران مضمون ہوں۔ میں ادارے کی جانب سے تفویض کردہ ذمے داریوں کو مکمل طور پر ادا کرتا ہوں۔میرے ذمے جو شعبہ ہے یا جس مضمون کا مجھے نگران بنایا گیا ہے۔اس کو میں ٹھیک انداز سے چلا تا ہوں۔ مجھے اس بات کی پوری فکر رہتی ہے کہ میرے ماتحت افراد اپنے شعبے میں کہیں کوئی کم زوری نہ دکھائیں، دیگر مضامین یا شعبوں کی نسبت میرا شعبہ کمزور نہیں ہونا چاہیے۔لیکن میرے ماتحت افراد کا ذاتی کردار کیسا ہے؟ اس سے مجھے کوئی غرض نہیں ہے۔میرے شعبے میں تو کارکردگی دکھا رہے ہیں بس یہ کافی ہے۔ میرے ماتحت افراد طلبا کے اخلاق و کردار کو سنوارنے کے لیے کوئی کاوش نہیں کرتے، تو کیا ہوا؟ اپنی بنیادی ذمے داری تو وہ ادا کررہے ہیں نا! ہمار اکام پڑھانا ہے اور بہتر طریقے سے پڑھانا ہے تو اس کے لیے میں پوری کوشش کرتا ہوں۔میں آج ایک ادارے میں ہو ں، کل کسی دوسرے ادارے میں یہی کام کروں گا۔میں سب کے اخلاق و کردار کا ذمے دار نہیں ہوں۔میر ا کام پڑھانا اور اپنے شعبے کو بہتر بنانا ہے وہ میں کررہا ہوں۔

تو میں کیا ہوں؟ عمارت کا مالک یا محض ایک ٹھیکے دار جو خود کو ملنے والے ٹھیکے(ذمے داری) کو مکمل کرتا ہے اور بس۔

معلم یا اتالیق۔ میں ایک معلم یا اتالیق ہوں۔ میں پیغمبری منصب پر فائز ہوں۔ میری خوش نصیبی یہ ہے کہ میرے روزگار کے ذریعے نبی اکرمﷺ سے میری نسبت قائم ہوتی ہے کیوں کہ نبی مہربان ﷺ نے فرمایا " مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔" اس لیے میں چاہے معلمِ مضمون ہوں، نگرانِ شعبہ ، نگرانِ مضمون، یا نگرانِ مدرسہ ہوں۔ دراصل تو میں معلم ہی ہوں۔

اس لیے بحیثیت معلم میری نظر محض ادارے کی چار دیواری کے اندر والے بچے اور ان کو پڑھایا جانے والا نصاب نہیں ہے۔ بلکہ مجھے یہ فکر ہے کہ بچے صرف کتاب پڑھ کر امتحان پاس کرکے نہ چلے جائیں بلکہ وہ صحیح معنوں میں مسلمان بچے بنیں، با شعور اور کارآمد شہری بنیں۔میر اکام صرف سبق پڑھانا نہیں ہے بلکہ اس سبق کے ذریعے ان کے اخلاق و کردار کو سنوارنا بھی ہے۔مجھے دیے گئے نصاب میں اگر کوئی چیز ایسی ہے جو بچے کی سوچ یا اخلاق کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگی تو مجھے اپنے ذمے داران کو اس سےآگاہ کرنا ہے۔میں اگر بچوں کی تربیت میں کمی محسوس کرتا ہوں تو اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔میں اگر دورانِ تدریس محسوس کرتا ہوں کہ کوئی بچہ اونکھ رہا ہے یا نیند کے جھونکے لے رہا ہے تو میں محض اس کو ڈانٹ ڈپٹ کرکے ، اپنا وقت پورا کرکے نہیںچلا جاتا بلکہ مجھے یہ فکر دامن گیر ہوتی ہے کہ یہ بچہ رات کو کیوں جاگ رہا ہے؟ کیا اس کے گھر والے رات دیر تک جاگتےہیں جس کی وجہ وہ بھی رات کو جاگنے پر اور صبح اسکول میں اونگھنے پر مجبور ہے، یا کہیں وہ بچہ راتوں کو دیر تک جاگ کر دوستوںکے ساتھ گپ شپ تو نہیں لگاتا رہتا؟ کہیں وہ رات بھر جاگ کر فلمیں تونہیں دیکھ رہا؟ کہیں وہ کسی غیر اخلاقی سرگرمی میں تو ملوث نہیں ہورہا؟ مجھے اس بچے کی اصلاح کی فکر ہوتی ہے ۔

میں اگر اپنے ساتھیوں کے رویوں میں تبدیلی محسوس کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ ا ن کے رویے درست ہونے چاہییں تو میں پورے خلوص کے ساتھ ان کی بہتری کے لیے کوشش کرتاہوں۔کیوں کہ میرے پیش نظر صرف ایک ادارے کی نوکری نہیں ہے بلکہ میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ اس ادارے سے فارغ التحصیل بچے معاشرے کو کس نہج پر لے کر جائیں گے۔اگر میں ان بچوں کے اخلاق و کردار کو سنوارنے کی کوشش نہیں کروںگا، تو کل انہوں نے ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے۔پھر معاشرے کے زوال کو دیکھ کر میں یہ شکوہ کرنے کا حق نہیں رکھتا کہ معاشرے کو کیا ہوگیا ہے؟

اب فیصلہ ہمارا اپنا ہے کہ ہم کیا بننا پسند کرتے ہیں؟ محض مزدو، ایک ٹھیکے دار یا عمارت کا مالک ؟؟؟
؎ شیخ مکتب ہے اک عمارت گر
جس کی صنعت ہے روحِ انسانی
 

Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1526357 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More