جمعہ نامہ : دعوت و تبلیغ کی شاہِ کلید

سورۂ اعراف میں مختلف انبیاء کی دعوت اور اس پر اقوام کے ردعمل کے بیان میں ارشادِ ربانی ہے:’’ ہم نے نوحؑ کو اُس کی قوم کی طرف بھیجا اس نے کہا ،اے برادران قوم، اللہ کی بندگی کرو، اُس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے میں تمہارے حق میں ایک ہولناک دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں‘‘۔ نہایت درد مندی کے ساتھ پیش کی جانے والی معقول ترین دعوت کا ردعمل یہ ہے کہ ’’اس کی قوم کے سرداروں نے جواب دیا ،ہم کو تو یہ نظر آتا ہے کہ تم صریح گمراہی میں مبتلا ہو‘‘۔ ان بد بختوں نے دعوت کے بجائے داعی کو نشانہ بنایا مگر اس بہتان طرازی کے جواب میں نہایت متانت کے ساتھ :’’نوحؑ نے کہا ،اے برادران قوم، میں کسی گمراہی میں نہیں پڑا ہو ں بلکہ، میں رب العالمین کا رسول ہوں تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں، تمہارا خیر خواہ ہوں اور مجھے اللہ کی طرف سے وہ کچھ معلوم ہے جو تمھیں معلوم نہیں ہے‘‘۔ قوم کی جانب سے کی جانے والی بیجا الزام تراشی کی تردید میں حضرت نوح علیہ السلام پلٹ وار کرتے ہوئے اسے گمراہ نہیں کہتے بلکہ اپنے منصب کا تعارف کرتے ہوئے اپنی خیرخواہی کا ذکر فرماتے ہیں ۔

گمراہ قوم کے حق میں دعوت دین سراپا خیر خواہی نہیں تو اور کیا ہے؟ اسے کھول کر بیان کرتے ہوئے حضرت نوحؑ فرماتے ہیں :’’ کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہوا کہ تمہارے پاس خود تمہاری اپنی قوم کے ایک آدمی کے ذریعہ سے تمہارے رب کی یاد دہانی آئی تاکہ تمہیں خبردار کرے اور تم غلط روی سے بچ جاؤ اور تم پر رحم کیا جائے؟‘‘۔یعنی میں تمہیں خبردار کرکے غلط روی سے بچانے کی سعی کررہا ہوں۔ قوم ِ نوح پر اس احسانمندی کا کوئی اثر نہیں ہوا ۔ فرمانِ ربانی ہے :’’ مگر انہوں نے اس کو جھٹلا دیا آخر کار ہم نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو ایک کشتی میں نجات دی اور اُن لوگوں کو ڈبو دیا جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا تھا، یقیناً وہ اندھے لوگ تھے‘‘۔ آگے حضرت ہودؑ اپنے تعارف میں فرماتے ہیں :’’تم کو اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں، اور تمہارا ایسا خیر خواہ ہوں جس پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے‘‘۔ یہاں داعی میں خیر خواہی کے ساتھ بھروسہ مندی کی صفت کا اضافہ ہے۔

دعوت کے راستے میں انکارو مزاحمت کوئی تعجب کی بات نہیں ہے لیکن اس کے باوجودپر داعی کے پائے استقلال میں لرزش نہیں آتی اس کو تعلیم دی جاتی ہے کہ :’’ اب اگر یہ لوگ تم سے جھگڑا کریں، توا ن سے کہو،میں نے اور میرے پیروؤں نے تو اللہ کے آگے سر تسلیم خم کر دیا ہے۔پھر اہل کتاب اور غیر اہل کتاب دونوں سے پوچھو، کیا تم نے بھی اس کی اطاعت و بندگی قبول کی؟‘‘۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے کہ:’’ اگر کی تو وہ راہ راست پا گئے، اور اگر اس سے منہ موڑا تو تم پر صرف پیغام پہنچا دینے کی ذمہ داری تھی آگے اللہ خود اپنے بندوں کے معاملات دیکھنے والا ہے‘‘۔ یہاں یہ بات صاف ہے کہ داعی کا کام دعوت دینے کی حد تک ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:’’ اب اگر یہ لوگ منہ موڑتے ہیں تو تم پر صاف صاف پیغام حق پہنچا دینے کے سوا اور کوئی ذمہ داری نہیں ہے‘‘۔یعنی ہدایت کا دینا یا محروم رکھنا اللہ کی مرضی پر ہے کیونکہ مدعو کے دل کی آمادگی سے وہی واقف ہے۔

کتاب الٰہی میں رسول کے توسط سے یہ تاکید بھی کی گئی ہے کہ:’’اے پیغمبرؐ! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا‘‘۔نبی کریم ﷺ کو اللہ تبارک و تعالیٰ ڈھارس بندھاتے ہوئے فرماتاہے :’’پس اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ ﻻئیں تو کیا آپ ان کے پیچھے اسی رنج میں اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے؟‘‘ اس لیے تا قیامت دعوت کی ذمہ دار امت مسلمہ کے لیے ہے۔ دعوت کی اس راستے میں شر انگیزی کے خلاف اللہ تعالیٰ داعی کی پشت پناہی میں فرماتا ہے :’’ اللہ تم کو لوگوں کے شر سے بچانے والا ہے،یقین رکھو کہ وہ کافروں کو (تمہارے مقابلہ میں) کامیابی کی راہ ہرگز نہ دکھائے گا‘‘ ۔ اس یقین دہانی کا داعی پر یہ اثر ہوتا ہے کہ :’’جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں ، اُسی سے ڈرتے ہیں اور ایک خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے‘‘۔دعوت و تبلیغ کے عظیم مشن کو جاری و ساری رکھنے کی خاطر خشیت اللہ اور انسانوں سے بے خوفی ناگزیر ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ملت اسلامیہ کو اپنی اس نوازش سے مالا مال فرمادے ۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1228736 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.