#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالاَحزاب ، اٰیت 21 تا 24
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ھے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ھمارے تمام دوست اپنے تمام دوست کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
لقد
کان لکم
فی رسول
اللہ اسوة
حسنة لمن کان
یرجوااللہ والیوم
الاٰخرة وذکر اللہ کثیرا
21 ولمارالمؤمنون الاحزاب
قالوا ھٰذا ماوعدنااللہ ورسوله و
صدق اللہ ورسوله ومازادھم الّا ایمانا
وتسلیما 22 من المؤمنین رجال صدقواما
عاھدواللہ علیه فمنھم من قضٰی نحبه ومن ھم
من ینتظر ومابدلوا تبدیلا 23 لیجزی اللہ الصٰدقین
بصدقھم ویعذب المنٰفقین ان شاء او یتوب علیھم ان
اللہ کان غفورارحیما 24
جنگِ اَحزاب اور جنگِ اَحزاب کے نتائج سے بھی اِس اَمر کی تصدیق ہو چکی ھے
کہ تُم لوگوں کے لیۓ تُم لوگوں کے درمیان رسُول اللہ کا وجُود ہی ھدایت کا
وہ روشن مینار تھا جس سے اُن تمام اہلِ ایمان کو ایک قلبی و رُوحانی روشنی
ملتی رہتی تھی جو یومِ قیامت کے آنے پر ایمان و یقین رکھنے کے علاوہ اللہ
سے ملنے پر بھی ایمان و یقین رکھتے تھے اور اپنے اِس ایمان و یقین کی کثرت
کے ساتھ ایک دُوسرے کو یاد دھانی بھی کراتے رہتے تھے اور اُن کا یہی وہ
ایمان و یقین تھا کہ مدینے کی طرف آنے والے کفار کے جن خوں آشام لشکروں کو
دیکھ کر مُشرکوں اور منافقوں کے دل دھل رھے تھے اُن ہی لشکروں کو دیکھ کر
یہ اہلِ ایمان و یقین اپنے پُورے ایمان و یقین کے ساتھ ایک دُوسرے سے کہہ
رھے تھے کہ سَچے اللہ اور اُس کے سَچے رسُول نے ہم سے فتح کا جو سَچا وعدہ
کیا ھے وہ سَچا وعدہ اَب یقینا سَچا ثابت ہو نے والا ھے اور یہی وہ اَصحابِ
محمد تھے جو میدانِ جنگ میں اللہ اور رسُول کے ساتھ کیۓ ہوۓ اپنے قلبی
معاہدوں کو سچا ثابت کرنے کے لیۓ اپنے اُوپر مُسلّط کی گئی ہر جنگ میں اپنی
جان کی بازی لگاتے تھے اور ہر جارحانہ جنگ سے کامیاب و کامران ہو کر واپس
آتے تھے اور اللہ نے اِن کو اِس عملی آزمائش سے اِس لیۓ گزارا تھا تاکہ وہ
اپنے قانُونِ عمل و قانُونِ رَدِ عمل کے مطابق اپنے فرمان بردار بندوں کو
اُن کے عملِ خیر کی جزاۓ خیر دے اور اپنے نابکار بندوں کو بھی اُن کے بُرے
کام کے بُرے اَنجام تک پُہنچا دے اور اپنے منافق بندوں کو چاھے تو سزا دے
اور چاھے تو اُن کو اپنی دائمی خطا پوشی و رحم پروری کی بنا پر توبہ اور
تلافیِ مافات کا موقع دے دے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
قُرآنِ کریم نے اٰیاتِ بالا میں پہلے تو جنگِ اَحزاب کے دوران سیدنا محمد
علیہ السلام کی اُس مُجادانہ اِقامت اور فاتحانہ استقامت کا ذکر کیا ھے جس
مُجاھدانہ اِقامت اور فاتحانہ استقامت کو ہر مومن و کافر اور ہر مُشرک و
منافق نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور یہ سب کے سب یہ سب دیکھ کر حیران ہو
رھے تھے کہ ایک انسان کس بے مثال ہمت و حوصلے کے ساتھ اپنی ریاست کے ایک
ایک اپنے اور ایک ایک بیگانے فرد کی کس طرح حفاظت اور دیکھ بھال کر رہا ھے
کہ آرام طلبی و عافیت کوشی اُس کی کسی شب اور اُس کے کسی دن کے کسی ایک
لَمحے میں بھی اُس کے قریب نہیں آتی اور آپ کا یہی وہ عملی کردار تھا جس کو
پہلے اللہ تعالٰی نے انسانی نگاہوں میں اُجاگر کیا ھے اور بعدا ازاں ہر
انسان کو خبردار کیا ھے کہ تُمہارے درمیان یہی مُنفرد ہستی ھے جس کے وجُود
میں وہ قُرآن ھے جو تُمہاری سیرت سازی کے لیۓ اِس عالَم کا سب سے حسین و
جمیل سانچا ھے جس میں ڈھل کر تُم اپنی سیرت سازی کر سکتے ہو اور حقیقت بھی
یہی ھے کہ کسی قوم کے لیڈر کا یہی وہ روشن و رَخشاں کردار و عمل ہوتا ھے جو
اُس کی قوم کو زندہ و بیدار کرتا ھے بخلاف اِس کے کہ جس قوم کا لیڈر ایک
آرام طلب اور عافیت کوش انسان ہوتا ھے اُس لیڈر کی قوم بھی اپنے اُس لیڈر
کی طرح ایک نالائق و نکمی قوم ہوتی ھے اور جنگِ اَحزاب میں اہلِ ایمان و
اہلِ کفر دونوں نے دیکھ لیا تھا کہ مدینہ و اہلِ مدینہ کو نیست و نابُود
کرنے کے لیۓ کفارِ عرب کے جو اَحزاب آندھی کی طرح آۓ تھے وہ قُدرت کی آندھی
کے ساتھ واپس جا چکے تھے لیکن سیدنا محمد علیہ السلام جن کی سیرت و کردار
کی جڑھیں ثرٰی سے ثریا تک پھیلی ہوئی تھیں وہ پہلے دن اِقامت و استقامت کے
ساتھ اپنے اَصحاب کے ہمراہ دشمن کے مقابلے کے لیۓ جس مقام پر کھڑے ہوۓ تھے
آج بھی اُسی مقام پر اپنے اُن ہی اَصحاب کے ساتھ کھڑے تھے ، قُرآنِ کریم نے
سیدنا محمد علیہ السلام کے اِس ذکرِ عالی کے بعد سیدنا محمد علیہ السلام کے
اُن جانباز اَصحاب و اَحباب کا ذکر بھی کیا ھے جو اپنے نبی کے اِس عزم و
حوصلے کو دیکھ کر اتنے عالی حوصلہ ہو گۓ تھے کہ شہرِ مدینہ کی طرف جارحانہ
پیش قدمی کرنے والے جن لشکروں کو دیکھ کر منافقینِ شہر ناخوش ہو رھے تھے
اُن ہی لشکروں کو دیکھ کر یہ مومنینِ شہر اپنے اِس ایمانی خیال سے خوش ہو
رھے تھے کہ اُن کو کفر کے اِن لشکروں کے ساتھ مقابلے کے لیۓ جتنا زیادہ
موقع ملے گا وہ اتنے ہی زیادہ اور اتنی ہی زیادہ پامردی کے ساتھ اپنی جاں
نثاری کا مظاہرہ کر کے اللہ تعالٰی اور اللہ تعالٰی کے رسولِ مقبول کے ساتھ
اپنے کیۓ گۓ اپنے اُن وعدوں کی تکمیل کرسکیں گے جو وعدے اِس جنگ سے پہلے
انہوں نے اللہ اور اُس کے رسُول کے ساتھ کیۓ تھے ، قُرآنِ کریم نے سیدنا
محمد علیہ السلام کی قیادت اور اَصحابِ محمد علیہ السلام کی اطاعت کے اِن
دو ایمان افروز واقعات کے بعد اللہ تعالٰی کی اُن لامتناہی قُوتوں اور
قُدرتوں کا ذکر بھی کیا ھے جن لامتناہی قُدرتوں اور قُوتوں کو اللہ تعالٰی
کبھی کبھی اہلِ زمین پر ظاہر کر کے زمین پر زمین کے سرکش ظالموں کی سرکوبی
کا اور زمین پر زمین کے سر خم مظلوموں کی داد رسی و دل جوئی کا اہتمام کرتا
رہتا ھے تاکہ زمین کے کم زور اور شہ زور انسانوں کے درمیان ہمیشہ ہی ایک
توازن قائم رھے اور قُرآنِ کریم نے اٰیاتِ بالا میں اللہ تعالٰی کے اُس
دائمی جذبہِ ترحم و مہربانی کا ذکر بھی کیا ھے جس جذبہِ ترحم و مہربانی کے
تحت وہ اکثر انسان کی اکثر لغزشوں سے در گزر کرتا رہتا ھے کیونکہ اگر اہلِ
زمین پر اُس کی گرفت و در گزر کے یہ دونوں عمل ظاہر نہیں ہوں گے تو انسان
اُس کی آس سے بے آس ہو جاۓ گا جب کہ اللہ تعالٰی اپنی رحمت و مہربانی کی آس
سے اپنی کسی مخلوق کو کبھی بھی بے آس نہیں کرتا اور کبھی بھی نہیں کرنا
چاہتا !!
|