جی؛ قارئن اکرام احادیث نبوی پر
کیے جانے والے اعتراضات کے سلسلے میں آج ہم دوسرا اعتراض پیش کررہے ہیں۔
پہلے ہم اس اعتراض کی حقیقت کو پرکھنے کیلیے قرآن سے تحقیق کریں گے بعد میں
احادیث سے۔
دوسرا اعتراض: دور اوّل کے مسلمان حدیث کو حجت نہیں سمجھتے تھے، مسلمانوں
میں یہ خیال بعد کے دور میں پیدا ہوا۔
جواب: ہم اس مضمون کے پہلے اور دوسرے حصے میں سیر حاصل بحث کر کے ثابت
کرچکے ہیں کہ حدیث دین میں حجت ہے۔ رہی بات کہ دور اول کے مسلمان حدیث کو
حجت سمجھتے تھے یا کہ نہیں؟ تو چلیں آج اس بات کی تحقیق کرتے ہیں۔
قرآن مجید میں کئی مقامات پر اللہ تعالٰی کی ذات بابرکت نے اپنے حبیبﷺ کی
اعطاعت کا حکم دیا۔ اور واضح کیا کہ نبی کریمﷺ جو احکامات دیں انہیں دل و
جان سے مان لو۔
۱) ‘‘من یطع الرسول فقدااطاع اﷲ’’ (النساء :80) ترجمہ:” جس نے رسول ﷺ کی
اعطاعت کی اُس نے میری اعطاعت کی“۔
۲) ‘‘ومااتاکم الرسول فخذوہ ومانہاکم عنہ فانتھوا’’ ترجمہ اوراللہ کا رسول
جو تمہیں دے لو اورجس سے منع کرے اس کو چھوڑدو۔
۳) ‘‘لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ’’ ترجمہ:
بے شک رسول کی زندگی تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے۔
۴) ‘‘قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ
يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۭوَاللّٰهُ غَفُوْرٌ
رَّحِيْمٌ’’ ترجمہ: کہہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری
تابعداری کرو، خود اللہ تعالٰی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف
فرما دے گا اور اللہ تعالٰی بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
۵-) ‘‘قُلْ اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ
اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْكٰفِرِيْنَ’’ ترجمہ: کہہ دیجئے! کہ اللہ تعالٰی اور
رسول کی اطاعت کرو، اگر یہ منہ پھیر لیں تو بیشک اللہ تعالٰی کافروں سے
محبت نہیں کرتا۔
ان کے علاوہ اس قسم کی اور بھی بہت ساری آیات موجود ہیں لیکن یہاں اختصار
ضروری ہے۔ اب اسی اعتراض کو مدنظر رکھتے ہوئے ذرا سوچیے کہ کیا دور اوّل کے
مسلمانوں نے یہ آیات نہیں پڑھی تھیں کیا وہ ان آیات کا مطلب نہیں سمجھتے
تھے؟ یقیناً سمجھتے تھے۔ بغیر حدیث کے ان سمیت قرآن کی بہت سی آیات ہیں جن
پر عمل کرنا ناممکن ہے۔ کیوں کہ نبی کریمﷺ کی سنت و اعطاعت کی وضاحت تو
حدیث سے ہی ہوتی ہے پھر آپ کے اعلی ترین اسوہ حسنہ و سنت پہ کیسے عمل کیا
جائے؟ اسکے قرآن میں نماز قائم کرنے کا حکم ہے، پھردوراوّل کے مسلمین نے
کیسے بغیر حدیث کے پانچ وقت نماز ادا کی؟ اور وہ حدیث کو حجت سمجھے بغیر
کیسے حج کے مناسک ادا کرتے تھے اور کیسے معلوم کرتے رہے کہ کون سے مال میں
کس تناسب سے زکوۃ ادا کریں۔
آئیے اب ذرا حدیث سے راہنمائی حاصل کریں۔
پہلی حدیث: حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’تم مجھ سے سنو گے اور پھر آگے تم سے سنا
جائے گا اور جنہوں نے تم سے سنی ہوں گی پھر آگے ان سے سنا جائے گا اور پھر
ان سے میری حدیث سنی جائے گی جن لوگوں نے پہلے سنانے والوں سے سنا ہوگا‘‘۔
(مجمع الزوائد، جلد 1 ص 137)
دوسری حدیث: قتیبہ بن سعید، جریر، بیان، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
سے روایت ہے، فرمایا کہ ایک آدمی نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے
سوال کیا کہ کیا میں بیت اللہ کا طواف کرلوں؟ میں نے حج کا احرام باندھا
ہوا ہے تو حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تجھے کس نے روکا
ہے؟ تو وہ آدمی کہنے لگا کہ میں نے فلاں کے بیٹے کو دیکھا کہ وہ اسے ناپسند
سمجھتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو ہمیں ان سے زیادہ محبوب ہیں ہم
نے ان کو دیکھا کہ وہ دنیا کے فتنہ میں مبتلا ہو گئے ہیں حضرت ابن عمر رضی
اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہم میں سے اور تم میں سے کون ایسا ہے کہ جسے
دنیا کے فتنہ میں مبتلا نہ کر دیا گیا ہو پھر حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ
عنہ نے فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج کا احرام باندھا اور بیت اللہ کا طواف کیا
اور صفا ومروہ کے درمیان سعی کی تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی سنت کا فلاں آدمی کی سنت سے زیادہ حق ہے کہ اس کی پیروی کی جائے
اگر تو سچا ہے تو بتا۔ ( صحیح مسلم والیم 2 حدیث نمبر504)
تیسری حدیث: عبدة بن عبد اللہ، سوید، ابن عمرو کلبی، زہیر، بیان، وبرة، عبد
اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان سے کسی شخص نے سوال کیا کہ کیا
میں خانہ کعبہ کا طواف کر لوں میں نے حج کا احرام باندھا ہے انہوں نے
دریافت فرمایا تم کو کس چیز نے طواف کرنے سے منع کیا ہے؟ عرض کیا کہ میں نے
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو اس سے روکتے ہوئے سنا ہے لیکن آپ کی بات ہم
لوگوں کے نزدیک زیادہ بہتر ہے انہوں نے فرمایا کہ ہم نے حضرت رسول کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف حج کی نیت
فرمائی اور خانہ کعبہ کا طواف بھی فرمایا اور سعی بھی فرمائی۔ (سنن نساءی
والیم 2 حدیث نمبر841)
چوتھی حدیث: عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حفاظت کے خیال
سے رسول اللہﷺ سے سن کر ہربات لکھ لیتا تھا بعض لوگوں نے مجھے منع کیا اور
کہا تم حضورﷺ سے سن کرہربات لکھ لیتے ہو حالانکہ حضوربھی بشر ہیں آپ کبھی
خوش ہوتے ہیں اور کبھی ناراض، یہ سن کر میں نے لکھنا چھوڑدیا، جب حضورﷺ سے
میں نے اس واقعہ کا ذکر کیا تو آپﷺ نے فرمایا لکھاکرو، قسم اس ذات کی جس کے
قبضہ میں میری جان ہے اس منہ سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔ (سنن ابو داؤد)
صحابہ میں مجھ سے زیادہ کسی کے پاس حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث محفوظ
نہ تھیں سواعبداللہ بن عمرو کے کیونکہ وہ احادیث لکھتے تھے اور میں نہیں
لکھتا تھا۔ (بخاری شریف)
حضرت براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: " ہمارے تمام حضرات رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم سے حدیث نہیں سنتے تھے کیونکہ ہمارا کاروبار تھا جس میں ہم مشغول
رہتے تھے لیکن بات یہ ہے کہ لوگ اس وقت جھوٹ نہیں بولتے تھے جو رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوتا وہ اس تک حدیث پہنچا دیتا جو غائب
ہوتا-" (المستدرک، ج 1، ص 123)
آیات قرآنی کے بعد درج بالا احادیث مبارکہ سے بھی یہ بات روز روشن کی طرح
عیاں ہے کہ دور اول کے مسلمین (صحابہ و تابعین) بھی حدیث کو حجت سمجھتے تھے
نا کہ بعد کے دور کے مسلمین۔ اس اعتراض میں اسے فرضی طور پر قبول کرنے کی
بھی گنجاءش نہیں ہے۔ لہٰذا یہ اعتراض سرے سے ہی لغوہے اور ناقابل اعتبار و
ناقابل قبول ہے۔ |