جس طرح ایک بیٹے کے گناہ کی سزا اس کے باپ کو نہیں دی
جا سکتی ،اسی طرح رعایا میں سے کسی ایک بھی فرد کے گناہ کی سزا’’ حاکم
وقت‘‘یا کسی حکومتی نمائندے کو نہیں دی جاسکتی۔لیکن پاکستان کا باوا آدم ہی
نرالا ہے کہ ہم میں موجودکچھ عناصر اس بات پر بضدہیں کہ فرانسیسی سفیر کو
ملک بدر کیا جائے ۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ ایک کافر کو
ہمارے پیارے نبی ؐ کی شان اقدس کا ادراک نہیں ہوسکتا ۔اور نہ خاکے بنانے سے
آپ ؐ کی شان و عظمت میں کوئی کمی آ سکتی ہے ۔بقول شاعر
میرا پیمبر عظیم تر ہے
آپ کی عزت و مرتبہ میں کبھی کوئی کمی نہیں آ سکتی ۔دنیا کے3.5 ارب مسلمان
اپنے آقاؐ کی حرمت پر کٹ مرنے کو تیار ہیں ۔لیکن وہ آپ ؐ کی توہین کسی صورت
برداشت نہیں کر سکتے ۔ فرانسیسی شہری کی طرف سے نبی کریم ؐ کے خاکے بنانے
کا عمل انتہائی افسوسناک ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس ناپاک جسارت کے بعد سے اب تک
تحریک لبیک سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں کا مطالبہ ہے کہ فرانسیسی سفیر کو
ملک بدر کیا جائے ،اس حوالے سے چند ماہ پیشتر تحریک لبیک نے جو احتجاج شروع
کیا تھا اس کے نتیجے میں حکومت اور تحریک کے رہنماؤں کے مابین ایک معاہدہ
طے پایا تھا کہ فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کی قرارداد قومی اسمبلی میں
پیش کرکے اس کی منظور ی لی جائے گی۔لیکن اس کے بعد معاہدے پر کوئی پیش رفت
نہ ہو سکی ۔جس کے نتیجے میں چند ماہ انتظار کے بعد تحریک لبیک نے احتجاج کا
سلسلہ دوربار شروع کر دیا ۔آج ایک ہفتہ ہونے کو ہے لاہور سے شروع کی جانے
والی تحریک اور احتجاج جاری ہے ۔قائدین فرانسیسی سفیر کی ملک بدری سے کم
کسی بات پر بھی راضی نہیں ہیں ۔گذشتہ روزوزیر داخلہ شیخ رشید نے پریس
کانفرنس میں کہا ہے کہ پاکستان میں فرانس کا سفیر موجود ہی نہیں ،اس لئے اس
کی ملک بدری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔فریقین میں کشیدگی کے پیش نظر
انہوں نے 60دن کے لیے صوبہ پنجاب کو رینجرز کے حوالے کرنے کا اعلان کرتے
ہوئے واضح کیا ہے حکومتی رٹ ہر حالت میں برقرار رکھی جائے گی ۔
بحیثیت قوم ہم یقیناً سچے عاشقِ رسول ؐ ہیں ۔اور ہم توہین رسالتؐ برداشت
نہیں کرسکتے ۔لیکن دوسری طرف ہمارا کردار و عمل دین اسلام اور نبی کریم ؐ
کی تعلیمات کے بالکل برعکس ہے ۔احتجا ج اور جلسے جلوس کسی بھی مسئلے کا
کوئی حل نہیں ۔اور ہماری اس روش سے ملکی معیشت کو شدیدنقصان پہنچتاہے ۔سٹاک
مارکیٹ بیٹھ جاتی ہے ۔دنیا ہم سے کٹ کر رہ جاتی ہے ۔معاشی بدحالی میں مزید
اضافہ ہوتا ہے ۔ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمیں بحیثیت مسلمان اور پاکستانی اپنے
ملک میں سکون ہے اور نہ ہی کسی قسم کا تحفظ ۔۔اسی ایک نکتے پرگذشتہ
تقریباً50برس میں لاکھوں پاکستانی اپنے ملک سے فرار ہو کر کافروں کے انہیں
ممالک(فرانس ،کینڈا، امریکہ ، برطانیہ ،سوئٹزر لینڈ ،ناروے وغیرہ) میں
’’سیاسی پناہ ‘‘لئے ہوئے ہیں ۔اس وقت بھی 53لاکھ پاکستانی جن میں مرد،
عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں ،فرانس میں آباد ہیں ۔ہم اپنے ملک میں عدم
تحفظ کے جھوٹے ڈرامے کی آڑ میں بیرون ملک جا کر ’’غیر ملکی شہریت ‘‘لے لیتے
ہیں ۔المیہ یہ ہے کہ ہم ’’سیاسی پناہ ‘‘کیلئے اسلام اور پاکستان کے خلاف
بات کرنے میں بھی عارمحسوس نہیں کرتے۔دنیا کے 54مسلم ممالک میں سے ایک بھی
ملک ایسا نہیں کہ جہاں توہین رسالت ؐ کے نام پر کوئی احتجاج کیا جاتا ہو۔ہم
وہ قوم ہیں کہ ہمیں کافروں کے زیر سایہ اپنی جان و مال کا تحفظ نظر آتا ہے
جبکہ اپنے ملک میں ہمیں چین نہیں ملتا ۔
ایک لمحے کو ہم اگر یہ سوچیں کہ فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کی صورت میں
فرانس کی حکومت اپنے ملک میں مقیم پاکستانیوں کی ملک بدری کا حکم نامہ جاری
کر دے توکیا ہم سبھی پاکستانیوں اور تحریک لبیک کے قائدین کو یہ قابل قبول
ہو گا ۔ اگر ہم ایک ناہنجار شخص کی گستاخی پر اتنے ہی سیخ پا ہیں تو کیا ہم
یہ بھی چاہیں گے کہ فرانس میں مقیم سارے پاکستانی کافروں کے اس دیس(فرانس )
کو خیرباد کہہ کر واپس آ جائیں۔ظاہر ہے کہ ہمیں ایسی کوئی تجویز یا حکم
قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ملک کو چلانے کیلئے سبھی ممالک سے تعلقات رکھنا
لازم ہیں ۔
کچھ عرصہ قبل فرانس میں بھی مہنگائی کے خلاف احتجاج ہوا تھا جو تقریباً
4ماہ جاری رہا مگر وہاں کوئی ایک شخص بھی ہلاک نہیں ہوا ،ڈنڈوں اور پیٹرول
بموں کا استعمال کیا گیا مگر جان بوجھ کر کسی چیز کو نقصان نہیں پہنچایا
گیا ۔مگر ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم احتجاج کے دوران تمام تر اخلاق حدوں کو
بھی پار کرجاتے ہیں ،ہم تو ملک و ملت کے محافظ پولیس اہلکاروں کو بھی انسان
کی بجائے کوئی اور مخلوق سمجھنے لگتے ہیں ۔پولیس کے جوان تو اپنے فرائض کی
ادائیگی پر مامور ہوتے ہیں ۔انسانیت کا احترام تو ہر دو جانب سے لازم ہے
۔لیکن ہم جوش جنون میں سبھی کچھ بھول جاتے ہیں۔
یہ پاکستان ہی ہے کہ جہاں مادر پدر آزادی حاصل ہے ۔ہمارا جب دل کرتا ہے ہم
حکومت کے خلاف سڑکوں پر آ جاتے ہیں ۔حکومت کو گالی دینا ہمارا محبوب مشغلہ
ہے ۔ہم اپنی اصلاح تو کرنا نہیں چاہتے لیکن ہماری ایک ہی تمنا ہے کہ وزیر
اعظم عمران خان ہوں یا کوئی وزیر مشیر وہ خود کو تبدیل کریں ۔عملی زندگی
میں ہماری بد اعمالیاں کسی سے پوشیدہ نہیں ۔حدیث مبارکہ ہے کہ ’’مسلمان وہ
ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے کسی دوسرے کو ایذاء نہ پہنچے ‘‘۔اس ایک حدیث کا
مفہوم بھی اگر ہمیں سمجھ آ جائے تو ہم میں موجود بے شمار خرابیاں از خود
ختم ہو سکتی ہیں ۔راستے بندہونے سے شہری جس کرب سے گذر رہے ہیں اس کا
اندازہ شائدتحریک کے قائدین کو نہیں ہو پا رہا ،یا دانستہ وہ اپنی ضد
چھوڑنا نہیں چاہتے ۔اﷲ تعالیٰ ہمیں دین اسلام کو سمجھنے اور اس پرعمل کرنے
کی توفیق دے تاکہ ہمارا کردار و عمل دوسروں کے لیے مثال بنے۔
|