|
|
ایسا وقت بظاہر زیادہ دور نہیں جب خلا کا سفر عام لوگوں
کے لیے بھی معمول کی بات بن جائے گی۔ لیکن خلا باز ٹوائلٹ کیسے جاتے ہیں
اور کماتے کتنا ہیں؟ ایسے ہی کچھ سوال اور ان کے جواب |
|
خلا میں کسی کی موت ہوئی؟ |
سن 1967 میں امریکی خلائی مشن کے دوران خلائی جہاز چلاتے
ہوئے پہلی مرتبہ ایک خلاباز کی موت واقع ہوئی تھی۔ 1967 اور 1971 میں چار
روسی خلاباز مارے گئے تھے۔ سن 1986 میں ایک سپیس شٹل پرواز کے محض 73
سیکنڈز بعد تباہ ہوئی جس سے سات خلاباز مارے گئے۔ اور سن 2003 میں خلا کے
مدار میں پیش آنے والا حادثہ بھی سات خلابازوں کی موت کا سبب بنا۔ |
|
|
جہاں کشش ثقل ہی نہیں
وہاں رفع حاجت کیسے؟ |
یہ بنیادی انسانی ضرورت خلا میں ایک مشکل عمل بن جاتی ہے۔
سن 2000 میں پہلی سپیس ٹوائلٹ ڈیزائن کی گئی جس پر خلابازوں کی ٹانگوں اور
ٹوائلٹ سیٹ کے درمیان فاصلے کو ایک بیلٹ کی مدد سے ’ہوا بند‘ بنانے کی کوشش
کی گئی۔ یہ تجربہ ناکام رہا۔ سن 2018 میں ناسا نے 23 ملین ڈالر کی لاگت سے
’ویکیوم اسٹائل ٹوائلٹ‘ بنوائی۔ خلا میں انسانی فضلہ جلا دیا جاتا ہے۔ |
|
|
خلاباز کتنے پیسے کماتے
ہیں؟ |
سن 1969 میں اپالو گیارہ فلائٹ کے نیل آرم سٹرانگ کی
آمدن 27 ہزار امریکی ڈالر تھی جو آج تقریباً دو لاکھ ڈالر کے برابر ہے۔
آج کل ناسا کے خلابازوں کی تنخواہ ان کی تعلیم اور تجربے کو سامنے رکھ کر
کم از کم 66 ہزار اور زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار امریکی ڈالر کے
درمیان ہوتی ہے۔ |
|
|
کیا خلاباز جلدی مر جاتے ہیں؟ |
خلابازوں کے جسم ’مائیکرو گریویٹی‘ میں رہ کر متاثر ہوتے ہیں۔ اوسط ایک
لیٹر خون ضائع ہو چکا ہوتا ہے اسی لیے جب وہ زمین پر واپس پہنچتے ہیں تو
رنگ بھی پیلا ہوتا ہے اور وہ نحیف بھی دکھائی دیتے ہیں۔ سائنس دان اب تک
خلائی سفر کے طویل مدتی اثرات کے بارے میں تو نہیں بتا سکے لیکن یہ ضرور
معلوم ہے کہ زمین پر واپس پہنچ کر وہ پہلے سے ’چند ملی سیکنڈ‘ زیادہ جوان
ہوتے ہیں۔ |
|
|
خلا میں سوتے کیسے ہیں؟ |
سونے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے آپ بستر پر لیٹ کر کچھ دیر کے لیے آنکھیں
بند کر سکیں۔ خلا میں مائیکرو کشش ثقل کے باعث ایسا آسان نہیں۔ خلاباز
سونے کے لیے ایک چھوٹے کمرے میں دیوار سے جڑے ہوئے سلیپنگ بیگ میں گھس جاتے
ہیں تاکہ جب وہ سو جائیں تو کشش ثقل نہ ہونے کے باعث تیرتے نہ پھریں۔ تصویر
میں ’کریو تھری‘ مشن سے قبل جرمن خلا باز ماتھیاس ماؤرئر ایسے ہی ایک بستر
میں ہیں۔ |
|
|
Partner Content: DW Urdu |