مرد کی مرد سے بغاوت

مردوں کے عالمی دن پر خصوصی تحریر

مرد کی مرد سے بغاوت

تحریر: علی راج


زمینی تاریخ بتاتی ہے کہ انسان کے اوائل دور میں عورت نے مرد پر اپنا تسلط قائم کر رکھا تھا. یہاں تک کے اُس وقت کے دیوتاؤں کو بھی اِتنی اجازت نہ تھی کہ وہ مرد کا روپ دھارے.

یہ تسلط تب تک قائم رہا جب تک مرد نے اپنے وجود کی حقیقت کو پہنچان نہ لیا اور بزورِ طاقت عورت سے قائم تسلط چھین کر اُلٹا اُس پر اپنا تسلط قائم کرکے اُسے تاحیات اپنا محکوم بنا لیا. یہ سلسلہ تقریباً ساڑھے چار ہزار سال سے جوں کا توں جاری ہے.

لیکن یہ سچ ہے کہ ظالم سے زیادہ ظلم سہنے والا قصوروار ہوتا ہے. جب طاقت کے زور پر مرد عورت کے تسلط سے آزاد ہوسکتا ہے تو عورت اپنی صلاحیتوں کو بروئےکار لاکر مرد سے آزادی کیوں حاصل نہیں کرسکتی.

یہ بھی سچ ہےکہ پچھلا دور رجعت پذیر اور جنگ و جدول کا دور تھا جہاں صرف طاقت کے بل پر طاقتور کا ہی ڈنکا بجا کرتا تھا. اِس لیے دورِ ماضی کی عورت کا یہ موقف کسی حد تک درست ہے کہ وہ طاقت کے آگے بےبس تھی. لیکن آج دورِ جدید ہے جہاں دماغی صلاحیت، وسعتِ نظر اور ارتقائےشعور سے بڑی سے بڑی طاقت کو زیر کیا جاسکتا ہے. تو پھر کیا وجہ ہےکہ مرد آج بھی حاکم ہے اور عورت اُس کے آگے محکوم.

سچ تو یہ ہے کہ عورت اِس غلامی کو ذہنی و دلی طور پر تسلیم کرتے ہوئے خود اپنے وجود سے انکاری ہوگئی ہے. عورت نے غلامی کی زنجیروں کو ہی اپنے لیے محفوظ پناہ گاہ سمجھ لیا ہے. اُس نے خود کو ایک ایسا ہڈحرام نااہل اور نکما جیل کا قیدی بنالیا ہے جو یہ سوچ کر جیل میں رہنا پسند کرتا ہے کہ وہاں مفت میں سر چھپانے کو جگہ اور کھانے کو دو وقت کی روٹی مل جاتی ہے. وہ نہیں چاہتا کہ جیل سے باہر آزاد ہوکر اپنے لیے چھت اور دو وقت کی روٹی کےلیے کسی قسم کی جدوجہد کرے. بس اِسی طرح کی سوچ کو اپناتے ہوئے عورت زاد صدیوں سے اپنی نااہلی اور نکمے پن کو چھپاتے آئی ہے اور مرد کی محکومی کو اُس جیل کےقیدی کی طرح اپنی پناہ گاہ تصور کرتی ہے.

میں ہمیشہ عورت کو شعور دینے کی بات کرتا آیا ہوں تاکہ وہ اپنے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے معاشرے میں اپنی حیثیت کو جانے اور اپنے لیے ایک آزاد اور خود مختار زندگی کا انتخاب کرے.

لیکن جب تک اُسے اپنی اہمیت اور قیمت کا اندازہ نہیں ہوگا تب تک وہ خود کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑی اور لاشعوری کی دلدل میں دھکیلے رہے گی اور صدیوں سے ہوتا بھی یہی آرہا ہے.

شعور آزادی کی پہلی سیڑھی ہے. جب تک انسان اِس پہلی سیڑھی پر قدم نہیں رکھے گا غلامی ہمیشہ مقدر بنی رہے گی. ساڑھے چار ہزار سال پہلے جب مرد نے اِس درجہ شعور حاصل کرلیا اور اُسے اِس بات کا ادراک ہوا کہ وہ کسی کے زیرِ تسلط ہے تو پھر اُس نے اپنے وجود کی جنگ لڑی اور خود کو آزاد کرانے میں کامیاب ہوا.

لیکن اُس وقت انسان چونکہ اپنے تعمیری اور ارتقائی مراحل کے اوائل دور سے گزر رہا تھا. لہذا مرد شعوری ادراک پوری طرح نہ رکھنے کے باعث عورت پر اپنی حاکمیت جما بیٹھا. جبکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ غلامی کی جکڑن کو محسوس کرتے ہوئے کسی اور کو اِس میں جکڑنے کا تصور بھی نہ کرتا. لیکن چونکہ اُس وقت جہالت غالب تھی جس نے انتقام کی آگ کو بھڑکاتے ہوئے دورِ جہالت کا ایک نیا باب کھول دیا.

آج دورِ حاضر کے اِس جدید دور میں بھی جہالت اپنے قدم اُسی طرح جمائے بیٹھی ہے جس طرح ساڑھے چار ہزار سال پہلے موجود تھی. تب سے اب تک کچھ بھی نہیں بدلا سوائے صدیوں کے. بلکہ سچ تو یہ ہےکہ ہم آج بھی جہالت کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں.

جب تک ہم اِس جہالت کا تریاق نہیں ڈھونڈ لیتے تب تک ظالم ظلم کرتا رہے گا. جبکہ اِس سے بھی خطرناک امر یہ ہےکہ مظلوم ظلم سہتا رہے گا. اِس لیے یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ جہالت کا واحد تریاق شعور ہے.

اگر جہالت کو ختم کرنا ہے تو شعور کو پروان چڑھانا ہوگا. دورِ حاضر کا یہی وہ واحد ہتھیار ہے جس سے صدیوں پر محیط غلامی کو آزادی سے بدلہ جاسکتا ہے.

اِس بات میں کوئی شک نہیں مرد کی کبھی یہ خواہش نہیں رہی کہ عورت اُس کے تسلط سے آزاد ہو. لیکن اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عورت کی بھی خواہش مرد کے تسلط سے آزاد ہوکر خود کو مختار بنانا کبھی نہیں رہی ہے. اُس کی بھی یہی خواہش رہی ہے کہ وہ کسی طرح مرد کو زیر کرکے اُس پر اپنا تسلط قائم کرسکے. عورت آزاد ہونا نہیں چاہتی وہ ساڑھے چار ہزار سال پرانا اپنا کھویا مقام حاصل کرنا چاہتی ہے.

جاہلانہ سوچ پر مبنی مرد و عورت کی یہ رسہ کشی اُسی صورت ختم ہوسکتی ہے. جب دونوں اپنی اپنی صنف سے بغاوت کرکے شعور سے جہالت کو زیر نہ کردیں. تبھی مرد و عورت کو حقیقی آزادی اور خودمختاری نصیب ہونے کے ساتھ ایک کامیاب اور پروقار زندگی میسر آسکے گی.

ہم خواتین کے عالمی دن پر اُن خواتین کو تو مخلتف انداز میں خراجِ تحسین پیش کرتے رہتے ہیں. جو اپنی صنف سے بغاوت کرتے ہوئے اِس شعوری جدوجہد میں شامل ہیں. آئیں آج مردوں کے عالمی دن پر اُن مرد حضرات کو خراجِ تحسین پیش کریں. جو مرد ہوکر مرد کی اُس وحشیانہ اور جاہلانہ سوچ سے بغاوت کرتے ہوئے صنف مخالف کی آزادی اور خودمختاری کے لیے اُن کے ساتھ نہ صرف شانہ بشانہ کھڑے ہیں بلکہ عملی طور پر کوشاں ہیں. یہ شعور ہی ہے جس نے آج مرد کو اپنی ہی جنس سے بغاوت پر مجبور کردیا ہے. یقیناً ایسے باشعور مرد حضرات خواتین سے زیادہ خراجِ تحسین کے مستحق ہیں. ایسے تمام مردحضرات کو مردوں کے عالمی دن پر میرا سلامِ اور خراجِ تحسین.
علی راج
About the Author: علی راج Read More Articles by علی راج: 128 Articles with 115844 views کالم نگار/بلاگر.. View More