ہمارا نظام تعلیم اور علامہ اقبال

پنجاب میں اس وقت تقریبا سوا لاکھ کے قریب اساتذہ ہونگے پی ٹی سی ٹیچر کی تنخواہ بھی تقریبا 28ہزار سے شروع ہوتی ہے اس تنخواہ میں صرف ایک فرد ایک ماہ بہت مشکل سے نکال سکتا ہے اگر خاندان کو بھی ساتھ لیکر چلنا پڑے تو پھر ٹیچر کی توجہ تعلیم سے ہٹ کر روزگار کی طرف زیادہ ہوجاتی ہے یہ وہ طبقہ ہے جو بچوں کی بنیاد یں تیار کرتا ہے آپ کو تو معلوم ہی ہوگا کہ جس عمارت کی بنیادیں مضبوط ہوتی ہے وہ بڑے بڑے طوفانوں میں بھی مضبوطی سے کھڑی رہتی ہے اور اس پر بسیرا کرنے والے اپنی زندگی سکون سے گذارتے ہیں ہمارے بچوں کی ابتدائی تعلیم اور انکی نشو نما انہی اساتذہ کے سپرد ہوتی ہے مگر بدقسمتی سے ہم نے ٹیچرز کو وہ مقام ہی نہیں دیا جو انہیں ملنا چاہیے تھا شائد اسکے پیچھے ہماری اپنی کمزوریاں بھی تھیں سفارش اور رشوت نے جہاں ہمارے دوسرے محکموں کو تباہ کیا وہیں پر ہمارے اساتذہ بھی اسکی ضد میں آئے ہمارے دیہاتوں میں جو بچہ میٹر پاس کرلیتا تھا اسے سفارش کے زور پرٹیچر بھرتی کروادیا جاتا تھاجو سکول میں بچوں سے دالیں ،سبزیاں اور دودھ منگوا کر عیش کیا کرتے تھے بچے بھی اپنی مرضی سے پڑھتے تھے انہی سکولوں سے سے بچے پڑھ کر مختلف محکموں میں چلے گئے کوئی پٹواری بن گیا تو کوئی پولیس مین بن گیا یہ بچے جس جس میدان میں بھی گئے وہیں داستانیں چھوڑ آئے ہمارے سفارشی کلچر نے نہ صرف افراد کو کرپٹ بنایا بلکہ اداروں کے ادارے تباہ کردیے آج آپ کسی بھی محکمہ کی کارکردگی جانچنا چاہیے تو صرف اتنا دیکھ لیں کہ انکا کرپشن میں کونسا نمبر ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس سارے کے سارے نظام کو تباہ کرنے میں ہمارے سیاستدانوں کا کردار رہا ہے جو آج بھی ہیرا پھیری سے باز نہیں آتے ہمارا سفارشی کلچر اتنا مضبوط اور پائیدار ہے کہ اس وقت بھی لاہور میں مختلف سرکاری سکولوں میں جونیئر ٹیچرز کو ہیڈ بنایا ہوا ہے جنکی سکول میں کوئی دلچسپی ہوتی ہے نہ ہی بچوں کے کسی معاملہ میں انکا کردار ہوتا ہے گذشتہ 10سالوں سے لاہور میں گریڈ 19اور 20کی سیٹوں پر گریڈ 16کے نااہل اور نکمے ٹیچروں کوچارج دے رکھا ہے بلکہ مزے کی بات یہ ہے کہ پنجاب کے نو اضلاع میں ڈائریکٹر ایلیمنٹری اور سکینڈری کی سیٹیں2016سے ہیں ان سیٹوں پر اساتذہ کی تقرریاں بھی ہوتی ہیں مگر نہ وہ دفتر آتے ہیں نہ انکا سٹاف اور نہ ہی انکے ذمہ کوئی کام ہے جہاں تعلیم سے وابسطہ افراد کا یہ حال ہوگا وہاں ہم نے اپنی نسل کو کیا پڑھانا ہے علامہ اقبال کہتے ہیں کہ استاد ہی قوم کا اصل محافظ ہیں کیونکہ آئندہ نسلوں کو سنوارنا اور انکو ملک کی خدمت کیلیے قابل بناناانہی کے سپرد ہیں علامہ اقبال نے شمس العلما ء کے خطاب کیلیے اپنے استاد میر حسن کا نام پیش کیا جس پر کمیٹی کے ارکان نے کہا کہ انکی کوئی تصنیف بتائیں تو علامہ اقبال نے اپنی طرف اشارہ کرکے کہا کہ میں ہوں انکی تصنیف یہ تھا ٹیچر کا مقام اور عزت ہم نے وہ دور بھی دیکھا جب سکول میں کوئی ٹیچر کسی بچے کو مارتا تو پھر چھٹی کے بعد بچے اس ٹیچر کی ایسی تیسی کردیتے تھے ہمارے ہاں روحانی باپ کی جو عزت وہ شائد ہی کسی اور ملک میں ہو سرکاری سکولوں کی ٹیچر بچپن میں استاد کم جلاد زیادہ لگتے تھے اور انکے رویوں کی وجہ سے بچے پڑھنے سے بھاگ جایا کرتے تھے ہمیں اپنے رویوں میں پیار محبت اور خلوص کا رشتہ رکھنا چاہیے ایسے اساتذہ چاہیے جو بچوں کی علمی تربیت کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت بھی کریں ہماری جیلیں مجرموں سے بھری پڑی ہیں برداشت ختم ہوچکی ہے معمولی بات پر ہم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن جاتے ہیں ہمارے اساتذہ بھی مجبور ہیں کہ وہ اس طرح بچوں کی تربیت نہیں کرسکے جس طرح کرنی چاہیے کام کرنے والے ٹیچر کواوپر والا سٹاف ٹکنے نہیں دیتا اور تو اور کلرکوں بادشاہ الگ سے بلیک میل کرتے ہیں اور جو اس کے اوپر نااہل اور نکما ٹیچر ہیڈ بن کربیٹھا ہوا ہے یا بیٹھی ہوئی ہے وہ الگ سے اپنی افسری دکھا رہی ہوتی ہے ہم دن بدن اپنی منزل سے دور ہوتے جارہے ہیں اور اس وقت تک ہم ترقی کی منزل پر نہیں پہنچ سکتے جب تک ہمیں ہمارے بنیادیں مضبوط کرنے والے معمار نہ مل جائیں آج بھی ایسے اساتذہ موجود ہیں جو اپنا سب کچھ اپنے طالبعلموں پر قربان کرتے ہیں اور وہ ٹیچرانسان کو عمر بھر یاد رہتے ہیں وہ ٹیچر تو کیا وہ سکول وہ بنچ اوروہ بنچ فیلو بھی انسان کو ساری عمر یاد رہتے ہیں سلطنت عمان کے سلطان قابوس بن سعید کا اپنے ٹیچر کے حوالہ سے واقعہ بہت مشہور ہے وہ پروٹوکولز کے بارے میں اپنا خاص نظریہ تھا زندگی بھر کسی شخصیت کے استقبال کیلیے وہ ہوائی اڈے نہ گئے مگر ان کی یہ عادت اْس وقت ٹوٹ گئی جب انہوں نے انڈیا کے صدر شنکر دیال شرما کا ہوائی اڈے پر جا کر استقبال کیا حکومتی اراکین اور عہدیداران اس بات پر حیران و پریشان تو تھے ہی صحافیوں کیلیے بھی یہ سب کچھ انوکھا اور حیرت و تعجب کا سبب بن گیا تھاسلطان قابوس انڈین صدر سے اس کے جہاز میں کرسی پر سے اٹھنے سے پہلے ہی جا کر گلے ملے اس کے ساتھ ہی ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے جہاز سے نیچے اترے جب کار کے نزدیک پہنچے تو ڈرائیور کو اتر جانے کا کہا خود جا کر کار کا دروازہ کھولا مہمان کو بٹھایا اور خود ہی کار چلا کر مہمان کو اپنے محل میں لائے۔بعد میں جب صحافیوں نے اس بارے میں سلطان سے سبب پوچھا تو انہوں نے جواباً بتایامیں ایئرپورٹ پر انڈیا کے صدر کے استقبال کیلیئے ہرگز نہیں گیاتھا میں تو ایئرپورٹ اس وجہ سے گیا ہوں کہ میں نے بچپن میں انڈیا کے شہر پونا کے ایک سکول میں تعلیم حاصل کی ہے اور جناب شنکر دیال شرما اس وقت میرے استاد ہوا کرتے تھے اور انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ زندگی کیسے گزارنی ہے اور زندگی میں آنے والی مشکل اور مصائب کا کیسے سامنا کرنا ہے اور میں آج تک حتی المقدور کوشش کرتا ہوں کہ جو کچھ اْن سے پڑھا اور سیکھا ہے اسے عملی زندگی میں نافذ کروں یہ تھی ایک استاد کی قدر و منزلت جو سلطان کے اپنے پروٹوکول نظریات سے انحراف کا سبب بنی تھی۔کچھ دن پہلے کی بات ہے جب روسی صدر پوٹین کو اپنے استقبال میں کھڑے لوگوں کے ہجوم میں اپنی ایک استانی نظر آ گئی۔ پوٹین نے سارے گارڈز، حفاظتی عملے اور حفاظتی حصار بالائے طاق رکھ کر سیدھا استانی کو جا کر گلے لگایا اور وہ رو رہی تھی خلقت کے ہجوم میں استانی کو ساتھ لیکر باتیں کرتے اور چلتے ہوئے ایسا لگ رہا تھا کہ پوٹین اپنی استانی کے ساتھ نہیں کسی ملکہ کے پہلو میں چل رہا ہے ہمیں بھی ایسے ہی اساتذہ کی ضرورت جو ہمیں کردار کے غازی کے ساتھ ساتھ افکار کا غازی بھی بنا ڈالے اور اس سلسلہ میں بزدار حکومت کی کوشش ہے کہ پرانے اور فرسودہ نظام تعلیم کو تبدیل کیا جائے تاکہ آج کی نسل تو راہ راست پر آجائے ۔

 
rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 794 Articles with 507861 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.